پاکستان

سانحہ پشاور: مولانا عبدالعزیز اور قاتل مدارس کو بچانے کے لئے دیوبندی رہنماؤں کی اے پی سی منعقد

شیعت نیوز: دیوبندی مکتبہ فکر کی نمائندہ جماعتوں کے اتحاد مجلس علمائے اسلام پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور تعاون کا اعلان کرتے ہوئے مدارس کو نشانہ بنانے کے کسی بھی منصوبہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی کتابوں پر صرف پابندی کافی نہیں بلکہ ناشر اور مصنف کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جبکہ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وزیرداخلہ کی طرف سے 10فیصد مدار س کے خلاف بیان ایف آئی آر ہے،وہ ثبوت پیش کریں،مجلس علماء نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے ،اگر کوئی مدرسہ رجسٹرڈ نہیں یا اس نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے تو سرکار کو حق ہے کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے لیکن دیگر مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ بند ہوناچاہیے۔وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں قائم مدارس میں کوئی انتہا پسندی یا عسکریت پسندی کی تعلیم نہیں دی جاتی،سید عطا المومن بخاری نے الطاف حسین سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ قائد ایم کیو ایم بتائیں کہ زندہ انسانوں کو ڈرل مشینوں سے اذیت دے کر موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے اس پران کی کیا رائے ہے؟مجلس علمائے اسلام پاکستان کا ہنگامی اجلاس بدھ کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت بزرگ عالم دین سیدعطا المومن شاہ بخاری نے کی جبکہ وفاق المدارس العربیہ کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری اہلسنت والجماعت کے سیکرٹری جنرل خادم حسین ڈھلوں جو یو آئی ف کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی امن وامان کی صورتحال سیاسی صورتحال اور سانحہ پشاور کے بعد ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

یہ اجلاس امن و امان کے قیام کے لئے بلایا گیا لیکن اس اجلا س میں دہشتگرد جماعت کے سربراہ خالد ڈھلوان بھی موجود تھا، اس اجلاس میں مولانا عبدالعزیز کی کھلے عام حمایت کی گئی، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو تنقید کا نشانہ بنایا،سول سوسائیٹی کے احتجاج سمیت وزیر داخلہ کے مدارس کے خلاف بیان پر بھی اس اجلاس میں تنقید کی گئی۔ لہذا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اجلاس ہمدری یا دہشتگردی کے خلاف تعاون کے لئے نہیں تھا بلکہ دیوبندی اجارہ داری اور دہشتگردی کے خلاف پاکستانی عوام کے احتجاجات اور اتحاد کے خلاف پالیسی مرتب کرنے کے لئے بلایا گیا تھی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button