مقالہ جات

سانحہ پشاور اور پاکستان کی اسٹرٹیجک موت

Peshawar school attack grid 650آج پاکستان سوگوار ہے اورپاکستانی سیاہ پوش۔ سرد موسم غم کی گرمی کو کم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ خوش حال خان خٹک اور رحمان بابا جیسے امن و محبت کی علامت بزرگوںکے وطن میں 132ایک اسکول کو کمسن طالبعلموں کی مقتل گاہ بنادیا گیا۔کل کی شام پشاور کے کم عمر شہید بچوں کی یاد میں شام غریباں تھی۔کل کی طرح آج بھی دکھ کا سورج ڈوب گیا ہے۔ننھے فرشتوں کو اس بدبخت دنیا کے انسانی قصابوں نے اپنے سیاہ اعمال کا شکاربنایا لیکن ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں شمعیں روشن کرکے ظلمت شب کی سیاہی کو ختم کردیا گیا ہے۔ ملک بھر میں کمسن طالب علم بچے آج بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے ہیں۔شیعہ اسکولوں میں بھی بچے اسی حالت سوگواری میں دیکھے جارہے ہیں۔چھوٹے ہاتھ آرمی پبلک اسکول کے مظلوم شہید بچوں کے لئے فاتحہ خوانی کررہے ہیں۔غم و غصہ کی ملی جلی کیفیت ہے ۔ اہم مقامات پر مظاہرے اور ریلیاں ہورہی ہیں۔دنیا میں کہیں بھی اس طرح کبھی کسی نے اتنے بچوں کو ایک ہی واقعہ میں نہیں مارا۔ طالبان کے تکفیری دہشت گردوں نے جہاں دیگر تمغہ ہائے درندگی و جنایت سرزمین پاکستان و افغانستان کی جھولی میں ڈالے ہیں ، منگل 16دسمبر کے ایک واقعے نے ان سب کو بہت ہی حقیر کردیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کے باہرکمسن شہداء و خواتین و دیگران کی یاد میں شمعیں روشن کی جارہی ہیں۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اکیلے نہیں بلکہ علامہ ساجد نقوی اور ان کی شیعہ علماء کائونسل نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔آج یوم سیاہ کے موقع پر علامہ مختار امامی کی ہدایات کی روشنی میں شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین کے حامیوں کی جانب سے سندھ بھر میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی ہیں۔شیعہ طلباء کی تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی احتجاج کیا ہے۔شیعہ مسلمان اس غم میں پشاور کے غمزدہ و سوگوار خانوادوں کے ساتھ شریک ہیں۔شیعہ اکثریتی علاقے پاراچنار ، کوہاٹ اور ہنگو کے کمسن شیعہ شہداء نے سانحہ پاراچنار میں بھی سنی شیعہ اتحاد کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔اسی طرح ایک فوجی افسر کی شیعہ زوجہ جو آرمی پبلک اسکول کی معلمہ تھیں ، انہوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔انہوں نے بے خوف ہوکر بد بخت درندہ صفت انسان نما بھیڑیوں کو معصوم بچوں کے قتل عام سے روکنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر انہیں نہ صرف یہ کہ شہید کیا گیا بلکہ ان کی لاش بھی جلائی گئی۔
انسان تصور بھی نہیں کرسکتا کہ سانحہ پشاور میں کس درجہ سفاکیت کا مظاہرہ کیا گیا۔لیکن بنیادی نکتہ جو فراموش نہیں ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ دہشت گرد طالبان اور ان کے اتحادیوں اور حامیوں کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں اس طرح دندناتے پھر یں۔ نہ صرف دندناتے پھریں بلکہ قیامت ڈھاتے پھریں۔دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گردوں کے حوصلے اس درجہ بلند کیوں ہوئے ہیں۔ملک پر اورسب سے زیادہ آبادی کے حامل صوبہ پنجاب میں ایک ہی جماعت کے شریف برادران کی حکومت ہے۔وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت پر ویسے ہی الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ بعض کالعد م دہشت گرد گروہوں کے رہنمائوں سے ان کے تعلقات ہیں ۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی یہی الزام لگاتے ہیں کہ وہ کالعدم طالبان کے خلاف بھی اقدامات سے گریزاں تھے۔پچھلے سال ماہ ستمبر میں اخبارات میں یہ خبریں بھی آئیں کہ طالبان کو پنجاب میں کارروائی نہ کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک کالعدم دہشت گرد گروہ کے سربراہ کو یہ کام سونپا تھا۔کالعدم طالبان نے دھمکی دی تھی کہ ان کے 2سزا یافتہ دہشت گردوں کودی گئی سزائے موت پر پچھلے سال ستمبر میںاگر عمل کیا گیا تو پھر وہ حکمران جماعت کی 2بڑی اہم شخصیات کو نشانہ بنائیں گی۔اور یہ 2بڑی شخصیات نواز شریف اور شہباز شریف کے علاوہ کون ہوسکتی تھیں؟ پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ کے سربراہ احمد لدھیانوی کے ساتھ تصاویر ریکارڈ پر ہیں کہ الیکشن مہم کی ریلی میں ساتھ ساتھ تھے۔
جندالشیطان نے شروع میں پاکستان ایران سرحد پر ، ایران کے اندر اور کراچی شہر میں کارروائیاں کیں۔کراچی میں کور کمانڈر کے قافلے پر حملہ کیا۔ایران میں بھی فوجی افسران اور قبائلی بلوچ سرداروں کو شہید کیا۔کالعدم طالبان نے پہلے فاٹا میں کارروائیاں کیں اور پھر ملک بھر میں دہشت گردی کا دائرہ وسیع کردیا۔ہزاروں پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی پر مامور پولیس، رینجرز، ایف سی، اور فوج پر حملے بھی کئے گئے۔حتیٰ کہ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔آئی ایس آئی اور اسپیشل سروسز گروپ کے جوانوں پر بھی خود کش حملے کئے گئے۔لیکن حکمران طبقہ مذاکرات کے ڈھول پیٹ کر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی میں مصروف رہا۔دفاعی تجزیہ نگاروں کا اتفاق تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا ان کا سرنگوں ( سرینڈر) ہونا ہے نہ کہ ان کی شرائط ماننا۔لیکن ان کے ناجائز مطالبات مانے گئے، ان کے قیدی آزاد کردیئے گئے۔اس نوعیت کے اقدامات سے دہشت گرد وں کا حوصلہ اس قدر بڑھا کہ انہوں نے جیلیں توڑ کرد ہشت گردآزاد کروالئے۔ ان کے کہنے پر جہاں سیکیورٹی فورسز نے سیز فائر کیا وہاں سیکیورٹی فورسز پر بھی حملے کئے گئے۔ہر امن معاہدے کا انجام فوجی کارروائی پر منتج ہوا۔
طالبان کے ساتھ اختیار کیا گیا یہ نرم رویہ اور ان کے دیگر اتحادیوں کو ملک بھر میں سیکیورٹی کے نام پر سرکاری پروٹوکول دینا اور جند الشیطان کے بارے میں یہ سوچ کر کارروائی نہ کرنا کہ وہ برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف ایک گروہ ہے، ان ساری ناکام پالیسیوں نے آج دہشت گردوں کو اتنا طاقتور بنادیا ہے کہ اب ملک کی کوئی زمینی سرحد ان کی کاررائیوں سے محفوظ نہیں۔لاہور سے واہگہ کا فاصلہ انتہائی کم ہے۔یہ اتنا بھی نہیں جتنا سوات ضلع کے دہشت گردوں کا اسلام آباد تک کا فاصلہ تھا بلکہ اس کے آدھے کا آدھا ہوگا۔واہگہ سرحد پر خود کش حملہ ایک بڑے خطرے کی گھنٹی تھی ۔اس پورے قضیے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کردار غیر معقول نظر آتا ہے۔جب اسلام آباد میں دہشت گردی کے خطرے کی بات کی گئی تو انہوں نے اس کی تردید کی بلکہ متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسر کو ڈانٹا بھی کہ ایسی خبر کیوں دی۔لیکن اسلام آباد اور پنڈی میں دہشت گردی کے واقعات نے ان کے موقف کو غلط ثابت کیا۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اب انہوں نے صوبہ پنجاب میں داعش نامی دہشت گرد گروہ کے موجود نہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔جبکہ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے اسی دن بیان میں کہا ہے کہ داعش سمیت سارے دہشت گرد گروہوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔کہا جاتا ہے کہ بلی کبوتر پر جھپٹنے کے لئے پر تول رہی ہوتی ہے تو کبوتر یہ سوچ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ آنکھیں بند کرلینے سے شاید خطرہ ٹل جاتا ہے۔
یہ رپورٹ بھی آچکی ہے کہ لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ نامی کالعدم گروہوں کو بھی داعش میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جاچکی ہے۔اگر ان ساری خبروں کو ملا کر دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب بھی داعش کا ہدف نظر آتا ہے۔مذکورہ کالعدم گروہ کی قیادت صوبہ پنجاب سے کی جاتی ہے۔لاہور مناواں ٹریننگ سینٹراور دیگر اہم اور حساس مقامات پر دہشت گرد حملے ، حتیٰ کہ داتا دربار پر بھی خود کش حملہ ، یہ سب کچھ صوبہ پنجاب کے صوبائی صدر مقام لاہور میں ہی وقوع پذیر ہوئے تھے۔چوہدری نثار کی قومی سلامتی پالیسی اپنے ابتدائی مہینوں میں ہی ناکام ہوچکی تھی۔سانحہ پشاور کے بعد عمران خان اور نواز شریف سمیت وہ احمق نظریہ ساز بھی سدھر جائیں جنہیں افغانستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ یعنی تزویراتی گہرائی نظر آتی رہی ہے۔افغانستان پاکستان کی تزویراتی ڈیتھ یعنی موت ثابت ہوا ہے اور یہاں تکفیری طالبان اور پاکستان میں سپاہ صحابہ جیسے گروہ موت کے سوداگر۔
آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو رد عمل بھی کہیں پر بھی کسی بھی وقت ہوسکتا تھا، یہ کیوں فراموش کیا گیا؟۔وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کوسنجیدگی کے ساتھ دہشت گرد بلی کے آگے کبوتر کی طرح آنکھیںبند کرلینے والی پالیسی سے اجتناب کرنا ہوگا۔اگر دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق سخت عملی اقدامات فوری طور پر نہ کئے گئے تو آئندہ دہشت گرد سمندری حدود اور فضائی حدود سے بھی حملہ آور ہونے کا سوچیں گے۔حکومت سے درخواست ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور کی دفاعی پالیسی کونظر انداز نہ کریں ۔پاکستان کوبھارت جیسے ہمسایہ ملک سے ہی نہیں بلکہ اندرونی طور پر مسلح انتہاپسندوں یعنی مذکورہ دہشت گردوں سے بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button