لشکر جھنگوی کے خلاف آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ جوئی نہیں، ہومین رائٹس واچ
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں بالخصوص ہزارہ برادری کے قتل پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے یہ بات 62 صفحوں پر مشتمل اپنی رپورٹ ’ہم زندہ لاشیں ہیں: پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ہلاکتیں‘ میں کہی ہے۔
ہیومن رائٹس کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے: ’حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہزارہ اور دوسری شیعہ برادری کے قتلِ عام پر بے عملی نہ صرف اپنے ہی شہریوں سے بے حسی اور بے وفائی ہے بلکہ اس کا مطلب جرائم کو جاری رہنے میں حصہ دار بننا ہے۔‘ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سنہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ اموات کے حوالے سے سب سے زیادہ خونریزی جنوری اور فروری سنہ 2013 میں ہوئی جب شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اموات محض دو حملوں میں ہوئیں، جن میں سے ایک سنوکر کلب کا واقعہ تھا اور دوسرا سبزی منڈی حملہ۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام عسکری گروہ، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، بالخصوص لشکر جھنگوی، ان کا احتساب کیا جائے اور ان کو غیر مسلح اور منتشر کیا جائے۔
رمضان علی، شکار ہونے والے کا بھائی
میں اپنی دکان سے حملے سے دس منٹ قبل روانہ ہوا۔ ایک ہی قطار میں ہزارہ شیعہ برادری کی چار دکانیں تھیں۔ چاروں پر اکٹھا حملہ ہوا اور چھ سے سات لوگ موٹر سائیکل پر آئے اور فائر کھول دیا۔ انھوں نے نہ صرف ان ہزارہ افراد کو مار دیا جو دکان کے اندر کام کر رہے تھے بلکہ ان کو بھی جو پیچھے سٹور روم میں کام کر رہے تھے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ حملے سے دو دن قبل کوئی شخص پٹھان دکاندار کے پاس آیا جس کی دکان چار دکانیں نیچے تھی اور اس سے پوچھا کہ ہزارہ کی کون سی دکانیں ہیں۔ حملہ آور ٹھیک سے جانتے تھے کہ کتنے ہزارہ ان دکانوں میں کام کرتے تھے اور کہاں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر مسلسل جاری حملوں نے پانچ لاکھ کے قریب افراد کو خوف میں زندگی بسر کرنے اور اپنی نقل و حرکت محدود کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ’اس وجہ سے ان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے کافی تعداد میں ہزارہ برادری کے افراد پاکستان سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ہیومن رائٹس واچ نے سو سے زیادہ بچ جانے والے افراد و متاثرہ خاندانوں کے اراکین، قانون نافذ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں اور خون مختار ماہرین سے انٹرویو کیے۔ ہیومن رائٹس کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکام لشکر جھنگوی کی جانب سے تشدد کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور ہزارہ برادری خوف و ہراس کی فضا میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ پاکستانی حکام کا یہ کہنا ہے کہ ان کے حقوق کو محدود کرنا دراصل ان کے زندہ رہنے کی قیمت ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں متعین فوجی اور غیر فوجی سکیورٹی فورسز نے ہزارہ برادری پر حملوں کی تفتیش کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی آئندہ کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔