شیعہ نسل کشی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے اتوار کو احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کردیا
مجلس وحدت مسلمین نے کراچی میں بڑھتی ہوئی شیعہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کے طور پر اتوار کو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔جمعرات کے روز پریس کانفرنس میں ایم ڈبلیو ایم رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت کالعدم یزیدی دہشت گردتنظیموں پر کریک ڈاؤن کرے ،نواز لیگی حکومت ملک گیر فوجی آپریشن کا حکم دے، کالعدم یزیدی تکفیری گروہوں کے دفاتر اور دیگر املاک کو سرکاری قبضے میں لے، لٹریچر اور اسلحہ ضبط کرکے انہیں سرعام پھانسی کی سزا دے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ اعجاز بہشتی، علی حسین نقوی اور علامہ مبشر حسن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک بھر اور خاص طور پر کراچی میں جاری شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی نے غمزدہ کردیا ہے۔شہداء کے ورثاء ہماری جانب امید افزا نظروں سے دیکھتے ہیں۔ شہدائے اسلام ناب محمدی کے مقدس لہو سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ ان کے قاتل کالعدم یزیدی تکفیری دہشت گرد ٹولوں اور ان کے سرپرست نااہل حکمرانوں کی مذمت کی جائے اور ان کے خلاف احتجاج کو جاری رکھا جائے۔ اس لئے مجلس وحدت مسلمین کے قائد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اعلان کے مطابق شیعہ نسل کشی کے خلاف جاری احتجاج کے دوسرے مرحلے میں اتوار یکم جون کو سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی سندھ حکومت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ اس احتجاج کو آغاز نمائش چورنگی پر ریلی سے کیا جائے گا۔ یہاں سے ریلی سی ایم ہاؤس تک جائے گی۔اور وہاں یعنی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جائیگا۔ عوام ریلی اور دھرنے میں بھرپور شرکت کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کے قائدین ان اجتماعات سے خطاب فرمائیں گے۔دھرنے کے لئے سی ایم ہاؤس کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے تاکہ پی پی پی کی قیادت اور حکومت کو یاد دلایا جائے کہ اس اہم عہدے پر کسی ایسے اہل شخص کی ضرورت ہے جو پرامن احتجاج کرنے والوں کا راستہ روکنے کے بجائے دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے پولیس اور رینجرز کو استعمال کرے۔ آج پولیس اساتذہ کو سی ایم ہاؤس نہیں جانے دے رہی ، اگر احتجاج نہ کیا گیا کل کو سی ایم ہاؤس کے دروازے سندھ میں آباد پاکستان کے سارے شہریوں کے لئے بند کردیئے جائیں گے۔ پی پی پی کے قائدین آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سن لیں کہ اگر شیعہ نسل کشی نہ رکی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو تیسرے مرحلے میں احتجاج نوابشاہ کے زرداری ہاؤس، لاڑکانہ میں نودیرو ہاؤس اور کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے ہوگا۔دہشت گردی کے خلاف پارٹی منشورمیں لکھ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ منشور پر عمل کرنا ہی ایک واقعی عوامی پارٹی کا کارنامہ ہوتا ہے۔جھوٹے وعدوں سے عوام کو بہلانے والے سن لیں کہ عوام کے پاس متبادل آپشنز موجود ہیں اور وہ آپ کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ آئینی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے عوام کا تحفظ کریں ورنہ ناکامی قبول کرتے ہوئے حکومت سے دستبرداری کا اعلان کریں۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کراچی میں بیٹھ کر ایک رسمی اعلان کے ذریعے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو اس آپریشن کا کیپٹن بنایا گیا۔لیکن اس ٹارگٹڈ آپریشن کے 9 مہینوں میں بھی کراچی میں نا امنی کا راج رہا، دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز، جرائم پیشہ افراد اور خاص طور پر کالعدم یزیدی تکفیری دہشت گرد ٹولے بے جرم و خطا پاکستانی شہریوں کا قتل عام کرتے رہے۔آپریشن تو ان کو ٹارگٹ کرنے میں مکمل ناکام رہا لیکن وہ چن چن کر شیعہ مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے رہے اور تا حال کررہے ہیں۔
آپریشن کو تقریباً 9ماہ ہونے کو آئے ہیں میں آج تک 125سے زائد شیعہ مسلمان ہدف بنا کر شہید کئے جاچکے ہیں۔ان شہدا ء میں شیعہ علماء و ذاکرین، ڈاکٹرز ، انجینیئرز، وکلاء، سرکاری افسران، معلمین او دکانداروں سمیت ر تاجر سبھی شامل ہیں۔ خاص طور سے کاروباری حضرات اب کالعدم یزیدی تکفیری دہشت گرد ٹولوں کا نیا ہدف ہیں۔یہ رجحان پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کراچی کے کئی خاندانوں کی اقتصادی نسل کشی کے بھی مترادف ہے۔
ایک جانب شیعہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا خاص طور سے ہدف بنانے والے دہشت گرد ہیں۔اور دوسری جانب ایک نااہل و ناکام حکومت ہے جس کی بنیادی آئینی ذمے داری میں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت بھی ایک اہم فریضے کے طو ر پر شامل ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کراچی آئے اور امن و امان پرایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیالیکن افسوس صد افسوس کہ اس اجلاس میں شیعہ مسلمانوں کی نمائندہ کسی جماعت کو یا رہنما کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ دہشت گردی کے شکار شیعہ مسلمانوں کو اس اجلاس میں نہ بلا کر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سعودی نمک خوار ہونے کا ثبوت دیا۔معلوم ہوا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی تحفے کے بدلے میں انہیں مزید کون کون سی پاکستان دشمن خدمات انجام دینا ہوں گی۔شیعہ مسلمانوں کو امن و امان کے اجلاس میں شرکت کی دعوت نہ دے کر نواز لیگی حکومت نے قوم کو واضح پیغام دیا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں نہ کہ دہشت گردی کے شکار پاکستانیوں کے ساتھ۔یہ پیغام وہ شروع دن سے دیتے آرہے تھے اورامن کے نام پر وہ دہشت گردوں کو دہشت گردی کا ایک اور چانس دینا چاہتے ہیں۔
لیکن نوازلیگی وفاقی اور صوبائی حکومتیں، خیبر پختونخواہ کی تحریک انصاف حکومت اورسندھ کی پی پی پی حکومت کو ہم تاریخ کا یہ سبق پڑھ کر سنادیتے ہیں اور یہی پیغام ریاستی اداروں کے لئے بھی ہے کہ ان دہشت گردوں سے چشم پوشی کرنا یا ان کی سرپرستی کرنا جو پاکستان کے باوفا اور غیرت مند شہریوں کے دامن میں آگ لگارہے ہیں، وہ یہ یاد رکھیں کہ یہ آگ ان کے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ماضی قریب میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن تاریخ سے سبق سیکھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔بے نظیر بھٹو بھی انہی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں، مفتی حسن جان دیوبندی کو بھی ان دہشت گردوں نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر قتل کیا۔انہوں نے بشیر بلور کو بھی نہیں بخشا۔
مجلس وحدت مسلمین کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ذاتی مفادات کی خاطر ملک دشمنوں اور انسانیت دشمنوں کی سرپرستی کرنے کی جو مذموم پالیسی حکمرانوں نے اختیار کر رکھی ہے، اس سے ملکی سالمیت اور سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے۔سندھ حکومت کا سربراہ ایک نااہل شخص ہے اور بدقسمتی سے وہی نااہل شخص ہی وزیر داخلہ بھی ہے۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اس روش کو ترک کریں جس کے تحت دہشت گروں کو قوت اور طاقت مل رہی ہے۔ وہ کالعدم یزیدی تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں کسی بھی بہانے سے اجتماع کرنے کی اجازت نہ دیں۔ ذرائع ابلاغ ان کا بائیکاٹ کرے۔نااہل حکمران تبدیل کرکے اہل افراد کی تقرری عمل میں لائی جائے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی غیر جمہوری طریقے سے نااہل حکمرانوں کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یا تو یہ حکمران آئینی ذمے داری نبھاتے ہوئے دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیں تاکہ ان کی اہلیت ثابت ہو ورنہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ مطلوبہ آئینی اہلیت کے حامل افراد یہ ذمے داریاں سنبھالیں۔