سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن لانا چاہتے ہیں، سرتاج عزیز
وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں توازن لانا چاہتا ہے جو گذشتہ پانچ برسوں سے خرابی کا شکار ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ سابق حکومت کے دور میں ایک بھی سعودی وزیر پاکستان نہیں آئے تھے۔ جب سرتاج عزیز سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اپنا اسلحہ شام بھیج رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں شام سے متعلق کوئی مخصوص معاہدہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سعودی عرب کو چھوٹے ہتھیار اور جنگی طیارے فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ ہماری ہتھیاروں کی صعنت ترقی پا رہی ہے اور دنیا بھر کے ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ہتھیار فروخت ہوں۔ سعودی عرب کے لیے کیا مشکل ہے، دنیا بھر میں اسلحہ مل رہا ہے جہاں سے چاہیں خرید لیں، یہ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ بیٹھے بٹھائے شک کیا جائے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ایک یا دو ایسے ملک ہیں جو کہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، کیا ان پر پہلے ہی شک کرنا شروع کر دیں کہ پتہ نہیں پاکستان اس کی کیا قیمت دے رہا ہے؟ پتہ نہیں اس کا کیا مطلب ہے۔ ماضی کی فوجی حکومتوں نے رقم لے کر جو کچھ کیا ہو، سو کیا ہو، ہمارا تو ریکارڈ بڑا صاف ہے۔ سعودی حکام کی جانب سے حکومت پاکستان کو گذشتہ دنوں ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد پر پارلیمان کے اندر اور باہر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے شام کی صورتحال سے جوڑتے ہیں تو کچھ اسے خطے میں مبینہ طور پر بڑھتی ہوئی شیعہ سنی کشیدگی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے یاد دلایا کہ 1998ء میں بھی جوہری تجربات کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مدد کی تھی۔
شام سے متعلق پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے خارجہ امور کے مشیر نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی مکمل طور پر غیر جانبدار ہے، ہم نے جو پریس نوٹ جاری کیا تھا اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ عبوری اتھارٹی سے متعلق جو بات تھی وہ ہُوبہو وہی ہے جو جنیوا ون والی بات تھی۔ اس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی سے متعلق سوچ یہی ہے کہ ہم عدم مداخلت پر کاربند رہیں، اپنے گھر کو ٹھیک کریں۔ ہمارے بہت سے مسائل ہیں۔ ماضی میں ہم نے کسی اور ملک کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے مداخلت کی۔ ان تمام معاملات میں جن میں ہمارا براہ راست تعلق نہیں ہے، ان میں ہم غیر جانبدار رہے ہیں اور رہیں گے۔ اچانک ڈیڑھ ارب ڈالر دینے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی اشد ضرورت تھی، پچھلی حکومت بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بھی بڑا فرق چھوڑ کر گئی تھی۔