پاکستان

پاکستان میں شیعہ نسل کشی جاری ہے اور پاکستانی میڈیا اس سے انکاری ہے

qaberاکیس جنوری 2014ء کو لاہور میں معروف ادیب،ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید جب اپنی کار میں اپنے گھر کی طرف جارہے تھے تو ان پر دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کردی جس سے اصغر ندیم سید شدید زخمی ہوگئے اصغر ندیم سید پر یہ قاتلانہ حملہ کرنے والے مبینہ طور پر دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیم کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ پاکستان کے اندر یعہ برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز،انجینیرز،بزنس مین ،مذھبی علماء،استاد ،سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہیں اور پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا ایک پروسس جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اصغر ندیم سید پر قاتلانہ حملے کی خبر آج پاکستان کہ ہر چھوٹے بڑے اردو اور انگریزی اخبار میں شایع ہوئی ہے لیکن ایک تو کسی بھی اخبار نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ چونکہ اصغر ندیم سید ایک شیعہ ہیں اس لیے ان کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اس سے قبل 16 جنوری 2014ء کو دن دیہاڑے لاہور کی معروف فردوس مارکیٹ کے نزدیک سید ٹیکنالوجیز کے سی ای او کو اس وقت گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا جب وہ وہاں سے اپنی ہنڈا سوک کار میں گزر رہے تھے ان کو بھی دو موٹر سائیکل سوار دھشت گردوں نے شہید کیا لیکن سید علی جسن قزلباش جوکہ ایک معروف شیعہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے عزیز و اقارب بھی اس قتل کی وجہ ان کا شیعہ ہونا قرار دے رہے تھے تو ہمارے اردو میڈیا نے تو اس قتل کی خبر تک نہ چلائی جبکہ انگریزی اخبارات میں ایکسپریس ٹرائبون کو چھوڑ کر باقی تمام اخبارات نے فردوس مارکیٹ میں ہونے والے اس دن دیہاڑے فرقہ وارانہ دھشت گردی کے واقعے کو فرقہ وارانہ دھشت گردی اور شیعہ نسل کشی کی واردات لکھنے سے احتراز برتا اور اسے معمول کی خبر کا درجہ دیتے ہوئے سٹی پیجز میں شایع کیا انگریزی اور اردو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ایک طرف تو “شیعہ نسل کشی ” جیسے لفظ لکھنے سے احتراز برتتا ہے اور قتل ہونے والوں کی مذھبی شناخت لکھنے سے بھی گریز کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اس میڈیا نے دھشت گردوں کی دیوبندی تکفیری خارجی شناخت کا لفظ لکھنے کو اپنے لیے ممنوعہ لفظ بنا رکھا ہے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے انگریزی اداریہ نگار علی عباس تاج نے انگریزی میڈیا کے اخبارات کی شیعہ بزنس مین “علی حسن قزلباش ” کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے کی جانے والی رپورٹنگ پر ایک تفصیلی تنقیدی اداریہ لکھا ہے اور اس اداریہ میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح “انگریزی روزنامہ “دی نیشن ” نے علی حسن قزلباش کی ٹارگٹ کلنگ پر جو ہیڈ لائن لگائی اس سے گینگ وار میں کسی آدمی کے مارے جانے کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور اس سے کہیں بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ ایک شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ تھی علی عباس تاج کا کہنا ہے کہ نیشن سے ہٹ کر باقی کے انگریزی روزناموں نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کی شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر خبروں کو شایع کرنے کا جو طریقہ ہے وہ “شیعہ نسل کشی ” سے انکار پر مبنی ہے جبکہ ان خبروں کا جو ڈسکورس ہے وہ قاتلوں اور دھشت گردوں کی شناخت کو بھی چھپاتا ہے پاکستانی میڈیا کی روش یہ بھی ہے کہ وہ شیعہ نسل کشی کی وارداتوں کی خبروں کا فالو اپ بھی بہت کم چلاتا ہے اور خاص طور پر گرفتار ہونے والے افراد کی مذھبی شناخت پر پردہ ڈالتا ہے اور وہ ان مدارس کی نشاندھی بھی نہیں کرتا جہاں سے بعض اوقات قاتل برآمد ہوجاتا

متعلقہ مضامین

Back to top button