پاکستان

شاہ فیصل کے پارکنس اور کمر درد سے تنگ بیٹے سعود الفیصل کا دورہ پاکستان

al faisal pakistan visit74 سالہ پارکنس اور کمر درد کے مستقل عارضے میں مبتلا دنیا کے سب سے زیادہ مدت سے چلے آرہے سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود بن فیصل بن عبدالعزیز آل سعود سابق سعودی کنگ شاہ فیصل کے بیٹے ہیں اور پاکستان کا دورہ کررہے ہیں-وہ سعود الفیصل کے نام سے جانے جاتے ہیں
سعودی عرب کی کسی ہائی پروفائل شخصیت نے 6-سال کے بعد پاکستان کا دورہ کیا ہے جبکہ سابق حکومت کے دور میں سعودی عرب کی کسی بھی بڑی اہم شخصیت نے پاکستان کا نہ تو دورہ کیا اور نہ ہی پاکستان کو ماضی کی طرح مفت تیل یا معشیت کو سہارا دینے کے لیے بڑی امداد کا اعلان کیا
کہا جاتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے شیعہ مذھبی پس منظر،ان کی جانب سے ایک سنّی بریلوی ممبر قومی اسمبلی کو وفاقی وزیر مذھبی امور بنائے جانے ،رویت ہلال کمیٹی کا چئیرمین ایک بریلوی سنّی کو برقرار رکھنے اور پھر ایران سے اقتصادی تعلقات اور گیس پائپ لائن جیسے معاہدے کرنے کی وجہ سے سابق حکومت کے سعودی عرب سے تعلقات سرد رہے
جبکہ سابق حکومت نے شام ،لبنان،بحرین کے ایشوز پر بھی سعودی عرب کی موافقت سے گریز کیا اور سابق حکومت مڈل ایسٹ میں عرب بہار انقلاب کے حق میں نظر آتی رہی جس سے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھے
سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل شریف خاندان سے بہت قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور شاید بہت سے لوگ بھول گئے ہوں تو ان کو یاد کرادیا جائے کہ یہ سعود الفیصل تھے جنھوں نے فروری 2010ء میں امریکی جنرل جونز پر پاکستان کے اندر طالبان سمیت تمام جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر تنقید کی تھی اور پاکستان آرمی کے وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں آپریشن کو اس کی ساکھ کے لیے خطرناک قرار دیا تھا
سعود الفیصل وہ آدمی ہیں جنھوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے امریکی اور دیگر یوروپی طاقتوں کی فوج اور پیپلز پارٹی کی بات چیت کے دوران نواز شریف کو شامل نہ کرنے پر تنقید کی تھی اور نواز شریف کو قابل اعتماد ساتھی قرار دیا تھا
ایک طرف تو سعودی وزیر خارجہ خود بہت طاقتور شخصیت ہیں دوسری طرف سعودی عرب کے موجودہ کنگ عبداللہ سے ان کے گہرے مراسم اور ذاتی دوستی ہے اور دونوں خارجہ معاملات میں یکساں خیالات کے مالک ہیں –اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا دورہ پاکستان ایک طرح سے شاہ عبداللہ کا دورہ پاکستان ہے
سعود الفیصل سعودی عرب کی شام،ایران،لبنان،بحرین ،عراق پر پالیسی کے خالق گردانے جاتے ہیں،جب سعودی عرب نے اپنی افواج بحرین میں داخل کی تھیں تو یہ سعود الفیصل تھے جو یورپ کے خصوصی دورے پر روانہ ہوئے تھے اور یوروپی حکومتوں سے سعودی عرب کی بحرین میں مداخلت کی پالیسی پر مدد کی درخواست کی تھی
سعود الفیصل نے 31 مارچ 2013ء میں شام کے حوالے سے بہت کھل کر سامنے آئے اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ
شام میں باغیوں کو مسلح کرنا اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنا سعودی عرب اپنا فرض اور اولین ٹاسک خیال کرتا ہے اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے تک یہ مدد جاری رہے گی
سعود الفیصل نے یورپ اور امریکہ کو ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کرنے،تیل اور بینکنگ انڈسٹری کو تباہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ مہم چلائی اور جب سابق کنگ فہد نے ایران اور اسرائیل پر قدرے نرم موقف اپنانے کی کوشش کی تو ان سے سعود الفیصل کے تعلقات قدرے سرد ہوگئے
سعود الفیصل پاکستان کے دورے پر ایسے وقت آئے ہیں جب سعودی عرب کے ایران،شام،لبنان،بحرین کے ایشوز پر اختیار کئے ہوئے موقف سے امریکہ اور یورپ کے اکثر ممالک اتفاق نہیں کرتے
سعودیہ عرب کے مصر کی فوجی حکومت کے بارے میں جو خیالات ہیں ان سے بھی امریکی اختلاف کرتے نظر آتے ہیں اور عراق کے معاملے پر بھی دونوں ملکوں میں اختلاف موجود ہے
سعودیہ عرب اس حوالے سے چین،روس سے بھی فاصلے پر کھڑا ہے جبکہ پاکستان کی نئی حکومت جس کی سربراہی میاں محمد نواز شریف کررہے ہیں وہ بھی امریکہ کی جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی سے کافی اختلاف رکھتی ہے اور اس کا جھکاؤ طالبان سمیت ان قوتوں کی جانب ہے جو اس خطے کے اندر دھشت گردی کا منبع گردانی جاتی ہیں
موجود نواز حکومت نے سعودی عرب کی حکومت کو خوش کرنے کے لیے ایک طرف تو وفاقی وزیر برائے مذھبی امور دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے اس فرد کو بنایا ہے جس نے سعودی عرب سے اپنی نیاز مندی کو کبھی چھپایا نہیں ہے جبکہ میاں نواز شریف،شہباز شریف اور چوہدری نثار جیسے مسلم ليگ کے اہم رہنماء بریلوی سنّی اور شیعہ جماعتوں اور افراد سے اپنے فاصلے بڑھا چکے ہیں اور اپنا وزن مکمل طور پر دیوبندی اور وہابی جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے
نواز حکومت نے ایران-پاکستان گیس پائپ لآئن پر پہلے دن سے پیش رفت نہ کرنے کی پالیسی اپنا کر بھی سعودیہ عرب کو مثبت پیغام بھیجا
آج جب سعودی وزیر خارجہ نواز شریف وزیر اعظم پاکستان،صدر مملکت ممنون حسین اور مشیر وزیر خارجہ سے ملاقات کررہے تھے تو پاکستان کا سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ورلڈ پر انگریزی ٹاک شو “ویویوز آن نیوز”میں اینکر پرسن اور ان کے مدعو تجزیہ نگار برملا یہ کہہ رہے تھے کہ
“زرداری رجیم کو سعودی عرب نے گھاس تک نہ ڈالی اور اب سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات بحال ہوگئے ہیں جبکہ اینکر یہ کہتا رہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی شام پر پالیسی نواز حکومت کے آنے کے بعد ایک ہوگئی ہے”
سرکاری ٹی وی،ریڈیو کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پرائیوٹ پریس بھی سعود الفیصل کی شان میں قصیدے پڑھتا رہا اور اس کو تاریخ ساز دورہ قرار دیا جاتا رہا جبکہ کچھ عرصہ پہلے ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف کے دورے کو پریس اور حکومت کی جانب سے وہ پذیرائی نہ ملی جو سعود الفیصل کو دی جاتی رہی
سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے پاکستان میں وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جب یہ کہا کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا اصول دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنا ہے اور پاکستان کے معاملات میں بھی وہ مداخلت نہیں کرتے تو اس سے بہت صحافیوں کے چہرے پر جو معنی خیز مسکراہٹ آئی وہ اس بیان کی مضحکہ خیزی کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی تھی
سعودی عرب 6سال کے بعد پاکستان کے انرجی بحران،معشیت کی ڈوبتی ناؤ بچانے کے لیے دونوں ملکوں کی مشترکہ کمیٹی بنانے کی جو تجویز سعود الفیصل کی جانب سے آئی ہے اس کے پس پردہ نواز حکومت نے سعودیہ عرب کے لیے کیا کچھ کرنے کی حامی بھری ہے اس حوالے سے سرکاری طرف سے تو ایک لفظ بھی سامنے نہیں آیا لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے سعودیہ عرب پاکستان سے گذرے موسم گرما میں ہی شام کے لیے ایک سریع الحرکت باغی فوج کو تربیت دینے ،نیوکلیائی ہتھیاروں کی ڈیل جیسی خبریں سامنے آچکی ہیں
سعودیہ عرب ،کالعدم دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد جماعتوں اور سعودیہ نواز مذھبی جماعتوں سے نواز حکومت کی بڑھتی ہوئی قربتوں سے پاکستان کے شیعہ،سنّی،ہندؤ،احمدی،عیسائی ،سیکولر اور لبرل قوتوں میں تحفظات اور خدشات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے
سعود الفیصل کی اعلی سطح کے وفد کے ساتھ پاکستان آمد اور نواز حکومت کی اس کے آگے سجدہ ریزی نیک فال نہیں ہے
پاکستان میں شیعہ،سنّی سیاسی مذھبی جماعتوں اور پی پی پی و ایے این پی جیسی سیکولر ،لبرل جماعتوں کو اس موقعہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھا کر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنی چاہئیے اور سعودیہ عرب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے

متعلقہ مضامین

Back to top button