پاکستان

دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کا سنی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں- ترجمان سنّی اتحاد کونسل

sic5سنی اتحاد کونسل پاکستان کے کے مرکزی رہنما ارشد جاوید مصطفائی نے اعلان کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل فرقہ وارانہ قتل و غارت کے خلاف جمعہ 22 نومبر کو ملک گیر ’’یومِ امن و محبت‘‘ منائے گی۔ اس روز ملک بھر میں اہلسنّت کی اڑھائی لاکھ مساجد میں ’’اسلام امن و سلامتی کا علمبردار‘‘ کے موضوع پر خطباتِ جمعہ ہوں گے اور علمائے اہلسنّت قتل ناحق کے خلاف اور انسانی جان کی حرمت کے حق میں تقریریں کریں گے اور جمعہ کے اجتماعات میں سانحۂ راولپنڈی کے خلاف مذمتی قردادیں پیش کی جائیں گی سانحۂ راولپنڈی کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستان عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ فساد فی الارض سب سے بڑا گناہ اور جرم ہے۔ تمام مکاتب فکر زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کا اصول اپنائیں۔ ’’اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں‘‘ کی روش اختیار کرنا ہو گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی جمعیت علماء پاکستان ضلع قصورکے صدر علامہ علی حسن رضوی کی قیادت میں ملنے والے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا اہلسنّت پرامن ہیں اور قوم کو پرامن رہنے کا پیغام دیتے ہیں سانحۂ راولپنڈی سنی شیعہ نہیں شیعہ دیوبندی جھگڑا ہے۔ اہلسنّت صوفیا کے نظریات اور تعلیمات کے امین ہیں۔ اہل حق فتنہ و فساد، فرقہ واریت اور مسلکی منافرت پھیلانے کی ہر کوشش کو ناکام بنائیں گے۔ حکومت غیرملکی اسلحہ اور ڈالر سے ملک عزیز کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی جماعتوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نبٹے کیونکہ اس کے بغیر ملک میں امن و امان کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے سے روکا جائے گا تمام مسائل کی جڑ کالعدم تنظیمیں ہیں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حکومت کی سستی کی وجہ سے سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت کا نام استعمال کر رہی ہے حکومت اور عدلیہ کو چاہیے کہ سپاہ صحابہ کو نئے نام سے کام کرنے سے روکیں، ملک میں آگ لگی ہے اور وزیراعظم کو غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں، نفرتیں پھیلانے والے قومی مجرم ہیں، ملک میں آگ اور خون کے کھیل کو روکنے کے لیے قومی قیادت اپنا کردار ادا ک

پاکستان میں مذھبی تکفیری خارجی گروہ اپنے نظریات کے مطابق پاکستانی معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے پروپیگنڈے کی ہر شکل کے استعمال میں مسلسل مصروف ہے-اس خارجی گروپ نے 80 ء کی دھائی میں پاکستان کے اندر ریاستی اداروں میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے تناسب بارے ایک ایسا پروپیگنڈا کرنا شروع کیا جس کا مقصد ایک طرف تو یہ دکھانا تھا کہ “شیعہ برادری”اس ملک کے پالیسی ساز اداروں پر اپنی گرفت رکھتی ہے-دوسری طرف اس گرفت کو فرض کرکے یہ تصور پیش کیا گیا کہ پاکستان کی نوکر شاہی اور اس کے سیاسی و سماجی ڈھانچوں پر اثر انداز ہونے والے شیعہ ایرانی حکومت اور ریاست کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں-
اس مذھبی تکفیری خارجی گروپ نے پاکستان کو سنّی سٹیٹ بنانے کا نعرہ لگاکر پاکستان کو عملی اور فکری اعتبار سے دوسرا سعودیہ عرب بنانے کا منصوبہ بنایا اور شیعہ ہی کے نہیں بلکہ حقیقی اہل سنت المعروف بریلوی کے مذھبی ثقافتی ورثے کو مشرکانہ اور کافرانہ عمل قرار دے ڈالا-اس خارجی گروپ کی اول دن سے کوشش ہے کہ ایک طرف تو شیعہ برادری کو اپنے آئمہ اہل بیت اور دیگر متبرک و مقدس ہستیوں کے یوم ہائے ولادت و یوم ہائے وفات پر جشن اور تعزیت کی مجالس و جلوس برپا کرنے کی اجازت نہ ملے اور وہ آزادانہ طریقے سے اپنے شعائر مذھبی پر عمل نہ کرسکیں-دوسری جانب یہ سواد اعظم پاکستان اہل سنت بریلوی کے میلاد النبی کے جلسے جلوس،گیارھویں شریف کی محافل،اولیائے کرام کے ایام وفات پر ہونے والی عرس کی تقریبات اور میلے بھی بند کرڈالیں-یہ سب بدعت اور شرک کے زمرے میں ڈال کر دونوں مسالک کو عملی
طور پر ختم کردیا جائے-
یادش بخیر!میں یاد کراتا چلوں کہ 80ء کی دھائی میں جمعیت اہلحدیث پاکستان کے بانی صدر علامہ احسان اللہی ظہیر نے شیعہ اور اہل سنت کے خلاف دو کتابیں “الشیعہ” اور “البریلویہ”کے نام سے لکھی تھیں-اور ان دنوں ہی امام کعبہ عبداللہ ابن سبیل پاکستان کے دیوبندی اور وہابی مدارس کا دورے پر دورے فرمارہے تھے-یہی وہ دور تھا جب جنرل ضیاءالحق کی آمریت اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے بعض حکام نے سعودی عرب کے ساتھ ملکر باقاعدہ پاکستان کے اندر سلفی وہابیت اور تکفیری خارجیت کو گود لے لیا تھا اور “سنّی ازم”کے نام سے خارجیت کو زبردستی پاکستانی مذھبی کلچر کی جگہ دینے کی کوششوں سے آنکھیں بند کرلیں-پاکستان کی گلیاں،سڑکیں،محلے،مساجد اور مدارس اس خارجی تکفیری گروہ کی سنّی و شیعہ مخالف جلسے و جلوسوں سے گونجنے لگے اور ملک بھر میں بازاروں،مکانوں،اسکولوں،کالجوں الغرض جہاں دیوار نظر آئی مذھبی منافرت اور کفر کے لکھے فتوے نما نعروں سے اٹ گئے-
تکفیری-خارجی گروہ سپاہ صحابہ پاکستان کے نام سے پورے ملک میں شیعہ اور بریلویوں کے خلاف مہم چلا رہا تھا اور مذھبی مناظرہ بازی کی بنیاد پر یہ اکثریت کی حمائت حاصل کرنے میں جب ناکام ہوگیا اور شیعہ-سنّی سماجی بانڈز کو توڑنے میں ناکام رہا تو اس کے مسلح دھشت گردوں نے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کرڈالا-اور اہل سنت بریلوی کی مساجد پر بندوق کی دھونس کے ساتھ قبضے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا-
یہ انفرادی ٹارگٹ کلنگ 90ء کی دھائی میں اپنے عروج پر پہنچی اور پھر یہ ایک باقاعدہ نسل کشی تک پہنچ گئی-جب مشرف دور میں سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی عائد کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ سپاہ محمد پر بھی پابندی عائد کی گئی تو ریاست نے سپاہ محمد پر پابندی کا حقیقی اطلاق کیا لیکن سپاہ صحابہ پاکستان کو نئے نام سے کام کرنے کی اجازت مل گئی اور جب اس پر شور ہوا تو اس پر پابندی لگائی گئی لیکن بعد میں پھر نئے نام سے اس کی رجسٹریشن بطور سیاسی جماعت کرلی گئی-
اس مرتبہ تکفیری-خارجی گروہ اہل سنت والجماعت کے نام سے پارٹی بناکر سامنے آیا اور اس نے اپنے آپ ہی اپنے آپ کو سنّیوں کا ترجمان بنا ڈالا اور خود کو سنّی کاز کا علمبردار بتانا شروع کیا-
اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے والی تکفیری –خارجی تنظیم نے ایران،عراق،شام ،جنوبی لبنان کے اندر سنّی برادری پر ہونے والے مظالم کی جھوٹی داستانوں کو سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کردیا اور سعودی عرب کی شیڈو وار کو مڈل ایسٹ سے آگے پاکستان تک لانے کا منظم منصوبہ بنایا-اور اس کے لیے بہت ضروری تھا کہ پاکستان میں شیعہ-سنّی منافرت پھیلائی جائے-اور اہل سنت والجماعت کے نام سے کام کرنے والی سپاہ صحابہ پاکستان اس منافرت کو پھیلاکر شیعہ-سنّی خانہ جنگی تک لیجانے کی خواہش رکھتی ہے اور اس سول وار میں وہ سنّیوں کے نام سے بننے والے کیمپ کی قیادت اپنے ہاتھ رکھکر شیعہ اور اہل سنت بریلوی دونوں سے جان چھڑانا چاہتی ہے-
راولپنڈی کا سانحہ جو سنّی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا رضوی قادری کے بقول ایک جعلی ہولو کاسٹ بنانے کی کوشش تھی-خارجی-تکفیری گروپ شیعہ کی نسل کشی جیسے گھناؤنے جرم کو چھپانے اور شیعہ برادری اور سنّی بریلوی سے تعلق رکھنے والے دھشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کے مقتولین کے خون کے نشانات کو اپنے دامن سے صاف کرنے کے لیے “سنّیوں کے نام پر اپنی مظلومیت “کا تاثر پختہ کرنے کا ڈرامہ رچانا چاہتی تھی-اور عوام میں یہ تاثر پختہ کرنا چاہتی تھی کہ شیعہ برادری پاکستان کے اندر ظلم اور مذھبی بنیادوں پر خارجی –تکفیری دھشت گردوں کا نشانہ نہیں بلکہ ایک ظالم کمیونٹی ہے اور اس کمیونٹی کا ایجنڈا سنّی مخالف ہے اور یہ کمیونٹی دھشت گردوں کی حامی ہے-اہل سنت بریلویوں کو بھڑکانے اور مشتعل کرکے شیعہ کمیونٹی کے خلاف موب وائلنس کا ارتکاب کرنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ افسانہ گھڑا گیا کہ شیعہ اپنے محرم کے جلوسوں میں بازار میں عین چوک میں خلفائے راشدین کی شان اقدس میں غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہیں-اور خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیھم کے نام اگر کسی دیوار پر لکھے ہوں تو ان پر نعوذ باللہ ان پر جوتے برساتے اور تھوک پھینکتے ہیں-جیسے شیعہ برادری کوئی دماغی خلل اور پاگل پن کا شکار لوگوں پر مشتمل ہو-سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں میں ایسے جھوٹے اور غلیظ الزامات کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے خود ساختہ واقعات گھڑے گئے اور جب انکوائری ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ نام نہاد اہل سنت والجماعت کے گوئبلز کی کارستانی تھی-
راولپنڈی کی جامعہ تعلیم القران کو آگ لگانے اور کتب ہائے مقدسہ کو جلانے کی سازش بھی بقول سنّی اتحاد کونسل شیعہ-سنّی فساد اور جنگ کرانے کی سازش تھی-اور اس سازش کا ایک مقصد اہل تشیع اور اہل سنت بریلوی کے جلوس ہائے محرم و ربیع الاول پر پابندی عائد کرنا تھا-کیونکہ اس سازش کے فوری بعد تکفیری-خارجی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان اور ان کی حامی جماعتوں اور جہادی-تکفیری صحافیوں،کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے مذھبی جلوسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا
کس قدر دیدہ دلیری ہے کہ جو جماعت اور جو گروہ پاکستان کے اندر مذھبی منافرت کی ماں ہے اور جو پاکستان میں تفرقہ بازی کا باوا آدم ہے اس پر پابندی لگائے جانے کی بجائے نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار اور زبردست قسم کے مذھبی جبر کے سائے میں زندگی بسر کرنے والوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے- جاوید چوہدری روزنامہ ایکسپریس میں ،حامد میر اپنے کالم کنکریاں میں اور کئی نام نہاد سیاست دان اور تجزیہ کار ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کو جاری کردہ بیانات میں اسی مطالبے کی گردان کرتے نظر آتے ہیں-بظاہر ہر ایک مذھبی جلسے اور جلوس کو پبلک میں کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن صاف ظاہر ہے کہ ٹارگٹ شیعہ اور اہل سنت بریلوی کے مذھبی جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا ہے- سپاہ صحابہ پاکستان کے صدر محمد احمد لدھیانوی نے حامد میر کے ٹاک شو اور اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر ایک نئی دلیل اختیار کی-انہوں نے یہ افسانہ گھڑا کہ محرم کے جلسے جلوس پاکستانی معشیت کو نقصان پہنچاتے ہیں-وہ حامد میر کے جیو ٹی وی پر چلنے والے پروگرام “کپیٹل ٹاک”میں دیدہ دلیری سے یہ مفروضہ ایسے پکّے منہ سے آگے بڑھارہے تھے جیسے وہ ایک تکفیری خارجی فرقہ پرست ملاّ نہ ہوں بلکہ پاکستانی معشیت کے ماہر دوسرے خرم حسین/جمال ناصر /اشفاق خان ہوں- جیو نیوز پر پروگرام “آج کامران خان کے ساتھ “میں کامران خان نے معاشی ماہرین سے رائے لی تو انہوں نے محرم کے ماہ میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے اور کئی سیکٹرز کی سیل بڑھنے اور لاکھوں لوگوں کو کام ملنے کا سبب قرار دیا-https://www.facebook.com/photo.php?v=214858948697026 “آج کامران خان کے ساتھ “میں کامران خان نے بہت تفصیل سے ملّا لدھیانوی کی شرارت کو بے نقاب کیا محرم ایک مکمل ثقافتی متنوع رنگوں کے ساتھ ملکر تشکیل پاتا ہے اور اس کلرفل نیس کو لانے کے لیے بہت سی معاشی سرگرمیوں کو عروج ملتا ہے-اس کے برعکس اہل سنت والجماعت یعنی خارجی-تکفیری گروہ مذھبی بنیادوں پر پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے جن دھشت گرد نیٹ ورکس کی حمائت کرتی ہے ان کی دھشت گردی نے پاکستان کی معشیت کا بھٹہ بٹھایا اور آج تک خارجی اور تکفیری جہادی صحافیوں اور ملاّ لدھیانوی کے منہ سے یہ مطالبہ کسی نے نہیں سنا کہ ان دھشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے-

lubpak

متعلقہ مضامین

Back to top button