پاکستان

نواز شریف کا دورہ کوئٹہ اور امن وامان کی مخدوش صورتحال!!!

nawaz ijlasکوئٹہ امن کی تلاش میں ہے، آئے روز بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے اس شہر کی خوبصورتی کو خون سے گہنا دیا ہے۔ ہزارہ شیعہ برادری جو گذشتہ تقریباً پندرہ برسوں سے مذہبی انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے، آئے روز لاشوں پر لاشیں اٹھانے پر مجبور ہے لیکن اس ملک میں امن کے قیام کیلئے نہ تو حکومتیں سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اب تو ملک میں آئے روز ہونے والے بم دھماکوں نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں مکمل طور پر دہشتگردوں کی رٹ قائم ہوچکی ہے اور ان کا سکہ چل رہا ہے کیونکہ وہ جب، جہاں اور جس وقت چاہیں دھماکے کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں، لیکن اس مقابلے میں ریاستی اداروں کی کارکردگی زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ صرف کوئٹہ شہر میں گذشتہ دس سال سے جتنے بھی واقعات ہوئے ان کی تحقیقات اور ملوث عناصر کی عدم گرفتاری نے ریاستی اداروں کی صلاحتیوں کا پول کھول دیا ہے۔ جو گرفتار ہوئے انہیں جیل سے فرار کروا دیا گیا۔

حالیہ سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ کا پہلا دورہ کرکے قوم کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں سنجیدہ ہیں، انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا رضوی کی قیادت میں ہزارہ شیعہ برادری کے وفد سے ملاقات کی اور انہیں امن وامان کے قیام کیلئے حکومتی کاوشوں سے آگاہ کیا۔ لیکن سوال وہی ہے کہ ان کی حکومت کے پاس وہ کیا جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ کوئٹہ میں امن کی فاختہ اڑا پائیں گے۔ کیونکہ جناب تو ہزاروں معصوم انسانوں کے قاتلوں سے مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کر پائیں گے۔ دوسرا یہ کہ جن لوگوں سے مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے ان کی شرائط پر عمل درآمد کون کریگا کیونکہ یہ گمراہ لوگ نہ تو آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی عدلیہ اور جھنڈے کو مانتے ہیں، ایسے میں مذاکرات کو کیسے کامیاب بنایا جاسکتا ہے، شائد اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات تو طالبان سے کئے جائیں گے لیکن لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے کیسے نمٹا جائیگا، اس حوالے سے نواز حکومت نے کوئی حکمت عملی تاحال بیان نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ فرقہ پرست عناصر سے سوائے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کوئٹہ سمیت ملک بھر میں ملت تشیع کا قتل عام جاری رہے گا اور قوی امکان ہے کہ اب کی بار صبر کے پیمانے لبریز ہو جائیں اور ملک میں بڑی سطح پر ان واقعات کا ردعمل بھی سامنے آنا شروع ہوجائے۔ لٰہذا حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور ان فرقہ پرستوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ریاست کو واضح کرنا ہوگا کہ اس کی صبر کی حد کیا ہے؟، کون کس حد تک جائیگا تو ریاست اسے باغی اور ریاست مخالف قرار دیکر آپریشن کریگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button