پاکستان

عالم اسلام قائد حریت حضرت امام حسین علیہ السلام کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشنائی حاصل کرے۔ علامہ ساجد علی نقوی

sajid naqviمحسن انسانیت، نواسہ رسول اکرم (ص)، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات بابرکات نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کے لئے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے جس سے جدوجہد آزادی، ظلم و ناانصافی و آمریت کے خلاف قیام، حریت فکر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ سسکتی انسانیت اپنی مذہبی و بنیادی ضروریات کے حصول اور اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے اس مینارہ نور سے فیض حاصل کرسکتی ہے۔ کربلا کے بعد یہ اصول طے ہوگیا کہ رہتی دنیا تک آزادی کی جدوجہد ہو یا ظلم و ناانصافی کے خلاف قیام، آمریت کے خلاف مزاحمت ہو یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی۔ ہر مرحلے میں سیدالشہداء(ع) کی ذات اور کردار کو رہنماء تسلیم کیا جائے گا اور اپنی جدوجہد کی بنیاد حسین (ع)کی سیرت اور اصولوں کو مدنظر رکھ کر رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جتنی تحریکوں، جدوجہد اور انقلابات نے فکر حسینی سے صحیح استفادہ کیا وہ دنیا پر غالب ہوئے اور اپنے اہداف میں کامیاب و کامران ہوئے۔

امام عالی مقام (ع)کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت سے امام عالی مقام کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن محسن انسانیت سید الشہداء(ع) کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ (ع)کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لئے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی ہے اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ وملک آپ(ع) کی سیرت سے استفادہ کررہی ہے۔

عالم اسلام قائد حریت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشنائی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کرکے اپنی اخروی نجات کا سامان بھی فراہم کرسکتا ہے۔ پیروان حسین (ع)نے ماضی کے تمام ادوار کی طرح اس دور میں بھی مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا سنہری باب رقم کیا ہے۔

آئین پاکستان نے تمام شہریوں کو آئینی و قانونی، مذہبی و شہری و بنیادی حقوق کے سلسلے میں یکساں تحفظ فراہم کیا ہے لہذا جلوس عزاداری سید الشہداء(ع)کو محدود کرنے، ان پر بے جا پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں سے جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق پر زد پڑے گی وہاں بے پناہ مسائل سے دوچار پاکستانی معاشرے میں ایسے مسائل جنم لیں گے جو ہمیں پاکستانی اساس، اتحاد ووحدت اور بھائی چارے کی فضا سے دور کرکے اسلام دشمن قوتوں کی کامیابی کا سبب بنیں گے لہذٰا ذمہ دار پاکستانی حکمرانوں کی اولین ترجیح پاکستانی شہریوں کے مذہبی و آئینی حقوق، جلوس ہائے عزاداری اور مجالس کے انعقاد کے دیانت دارانہ تحفظ کو یقینی بنانا ہونی چاہئے اس سے معاشرے میں ناانصافی و انتشار کی فضا ختم اور اتحاد و وحدت کو فروغ حاصل ہوگا۔

پاکستان میں بنیادی حقوق کی پامالی، امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال، اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کے پیش نظر حکومت اور اسلامیان پاکستان کی ذمہ داریوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اس صورت حال میں کربلا کے معرکہ حق و باطل کے روح رواں، قائد حریت حضرت امام حسین علیہ السلام کی فکر انگیز تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرکے سیسہ پلائی دیوار بن کر سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کو محفوظ و مامون کیا جاسکتا ہے۔ زندہ و بیداری ہی تحریک سید الشہداء کا شعار ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات کو اتحاد و اخوت کا مظاہرہ کرکے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام و قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے اور کربلا کا آفاقی پیغام پوری دنیا میں روشنی پھیلا سکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button