پاکستان

ملی یکجہتی کونسل، فرقہ پرستوں ملی یکجہتی کونسل، فرقہ پرستوں کے لئے حوصلہ شکن

qomi yakjati cuncilفرقہ پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر ہمیشہ ایک اقلیتی ٹولہ دہشت گردی اور قتل و غارتگری میں ملوث رہا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے مسالک کے درمیان اختلافات سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ اختلافات کبھی بھی اس نوعیت کے نہیں رہے کہ کسی فرقے کے ماننے والے نے دوسرے فرقے کے خلاف انتہائی قدم اٹھایا ہو، اور جب کبھی ایسا ہوا ہے تو اس کے پیچھے مذھب نہیں بلکہ سیاسی عزائم اور حکومتوں کا ہاتھ رہا ہے۔ مختلف مسالک اور فرقوں میں بٹے ہونے کے باوجود مسلمان عوام ہر جگہ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں، پاکستان کو ہی لے لیجئے کہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سیکڑوں شیعہ مسلمان نہایت ہی بے دردی کے ساتھ شہید کئے جاچکے ہیں، سنی اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مفاہمت آمیز زندگی گذار رہے ہیں۔ عالمی سامراجی قوتوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کی جانب سے ان دونوں فرقوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں، لیکن ان کو اس میں ذرا برابر کامیابی نہیں ملی۔ دونوں مسالک کے سنجیدہ لوگ، علما اور دانشور حضرات ہمیشہ ہی اقلیتی ٹولے سے دور رہے اور ان کے غیر اسلامی اقدامات کی کبھی بھی انہوں نے تائید و حمایت نہیں کی بلکہ اس کے برعکس ان شخصیات کی طرف سے فرقہ وارانہ ھماھنگی اور اتحاد بین المسلمین کی کوششیں کی جاتی رہیں بلا شبہ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ اور اب ایک بار پھر ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی اہم سیاسی و دینی جماعتوں نے ملک میں مختلف مسالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے قیام، فرقہ واریت کے خاتمے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد اور اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے اس کونسل کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا اعلان جماعت اسلامی کے زیراہتمام اتحاد امت و اسلامی یکجہتی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کانفرنس میں اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جبکہ قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ کانفرنس کا اعلامیہ شرکاء کانفرنس کی نمائندہ آٹھ رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر تیار کیا۔ کانفرنس میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اور موجودہ امیر سید منور حسن سمیت علامہ ساجد نقوی، علامہ محمد امین شہیدی، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، اور ثاقب اکبر نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ مرکزی تنظیم سازی کیلئے قاضی حسین احمد کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ کمیٹی کے اراکین کا فیصلہ قاضی حسین احمد دیگر قائدین و تنظیموں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔ قاضی حسین احمد نے کانفرنس کے دوران مختلف مواقع اور اختتام پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کا سفر ایم ایم اے اور دفاع پاکستان کے مراحل طے کرتا ہوا آج پھر ملی یکجہتی کونسل تک پہنچا ہے۔ یہ تمام خوش آئند مراحل دینی قیادت کے باہمی رابطوں سے ہی ممکن ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا مقصد فرقہ واریت کا خاتمہ اور مسلکی اختلافات مٹانا ہے، اسلام میں کسی کلمہ گو کو کافر کہنا قابل نفرت اور غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناموس رسالت ص، عظمت صحابہ، اہل بیت ع سے بغض اور مشترکات کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر تمام مسالک کا اتفاق ہے۔ مسالک کے درمیان اختلافات فروعی ہیں، جبکہ مشترکات کثرت سے ہیں۔ ان مشترکات پر اتحاد ممکن ہے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور مسالک کے اختلافات کے خاتمے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کرانے کیلئے ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے، یہ تحریک چلانے کیلئے دینی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں گی، یہ کمیٹیاں امت کے درمیان مشترکات پر اتحاد کیلئے تجاویز مرتب کریں گی۔ کشیدگی کے خاتمے کیلئے فسادات والے علاقوں میں مختلف مسالک کے علماء کرام کے مشترکہ وفود بھجوائے جائیں گے۔ ایک کمیٹی خطبہ جمعہ کیلئے مشترکہ نکات تیار کرے گی۔ اس موقع پر انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے 23 اپریل 1995ء کو فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے بنائے گئے 17 نکاتی ضابطہ اخلاق کو میڈیا کے نمائندگان کو پڑھ کر سنایا۔ جے یو آئی (ف) کے حافظ حسین احمد نے کہا کہ دینی قیادت کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنے کیلئے بھی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ امریکہ افغانستان سے مار کھا کر نکل رہا ہے لیکن خطے سے نہیں جانا چاہے گا۔ اگر افغانستان سے نکلا تو بلوچستان میں ٹھکانہ بنانے کی کوشش کر ے گا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے بنائی جا رہی ہے۔ جمعیت اہل حدیث کے سربراہ ابتسام الہی ظہیر نے دینی جماعتوں کے اتحاد کیلئے قاضی حسین احمد کی کوششوں کی توصیف اور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دینی قوتوں کو سکیولر جماعتوں اور اشخاص کے مقابلے میں دینی جماعتوں اور قائدین کی حمایت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں مخالف مسالک کے ماننے والوں کو کافر قرار دینے کے خلاف فتوؤں کے خلاف فتوے جاری ہونے چاہیں۔ واضح رہے کہ اس کانفرنس میں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے کسی فرد کو دعوت نہیں دی گئی تھی، اجلاس بلانے سے قبل جب قاضی حسین احمد نے تمام تنظیموں کو دعوت دینے کا آغاز کیا تھا تو اس وقت شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے قاضی حسین احمد پر واضح کیا تھا کہ وہ اس صورت میں کانفرنس میں شریک ہونگے کہ سپاہ صحابہ اور تکفیری گروہوں کو دعوت نہ دی جائے، جو ملک میں تفرقے اور انتشار کا باعث ہیں اور شیعہ کو کافر سمجھتے ہوئے فتوے جاری کرتے ہیں۔ اس پر قاضی حسین احمد نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا شخص شریک نہیں گا۔ اس کانفرنس نے ثابت کر دیا کہ ملک میں کوئی بھی مذہبی جماعت انتہا پسند گروہ کو اپنے ساتھ بیٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کے لئے بلائے گئے اس اجلاس میں، مولانا فضل ارحمن اور مولانا سمیع الحق نے باضابطہ دعوت دئیے جانے باوجود شرکت نہیں کی کہ جس کی ان دونوں لیڈروں کی طرف سے کوئی معقول وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔ بہرحال توقع کی جارہی کہ ملی یکجہتی کونسل کی بحالی کا اعلان، مفاہمت اور بھائی چارے پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا جبکہ اقلیتی فرقہ پرست ٹولے پر سخت گراں گذرے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button