پاکستان

۔یہ کیسے طالبان ہیں ؟ ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔

SHIITENEWS_TALBAN۔طالبان کے ہاتھوں اغوا افراد نے  طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی  مظالم پر مبنی انکشافات کر ڈالے۔
تفصیلات کے مطابق ۲۵مارچ کو لوئر کرم بگن سے دن دیہاڑے سیکورٹی فورسز کے چیک پوسٹ سے چند قدم کے فاصلے پر طالبان کے ہاتھوں اغوا افراد جن میں سے ۲۶ افراد کو تین ماہ کے بعد گزشتہ دنوں رہا کر دیا گیا تھا۔ان رہا افراد نے اتوار کے دن ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے  طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی  مظالم پر مبنی انکشافات کر ڈالے۔
طالبان کی قید میں تقریبا تین ماہ رہنے والے افراد نے کہا کہ اغوا کے وقت جن افراد نے طالبان کے ساتھ جانے سے انکار کیا انہیں موقع پر ہی سڑک پر گولیوں سے بھون دیا گیا،جب کہ جائے ورادات پر موجود لوئر کرم بگن  کے مقامی افراد بشمول سیکورٹی فورسز بھی خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کر کے اس جرم میں برابر کے شریک تھے۔اس کے بعد طالبان نے ہمیں وہاں کھڑی ڈبل کیبن گاڑیوں میں ڈال کر ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی،اور جب ہماری آنکھیں کھول دی گئیں تو ہم ایک بڑے غار یا چھوٹے پہاڑ  کی تہہ پر بننے والے سرنگ میں موجود تھے ۔پھر ہمیںاس سورنگ و غار میں طالبان کی طرف سے بنائے ہوئے مختلف  تنگ و تاریک کمروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح تقسیم کرکے رکھا گیا۔جہاں ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگ طالبان کے امیر فضل سعید کے مہمان ہیں۔اور یہاں صرف طالبان کے امیر کا حکم چلتا ہے،حتی کہ حکومتی اہلکار بشمول فاٹا کے پارلیمانی لیڈر منیر اورکزئی بھی طالبان کے امیر فضل سعید کے تابع اور باقاعدگی سے امیر صاحب کو چندہ دیتے ہیں۔اغوا افراد میں سے ایک نے کہا کہ میں نے سوال اٹھایا کہ کیا اسلام اور قبائلی روایات میں مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جس پر طالبان نے مجھے کلاشنکوف کے بھٹ سے مارتے کر دھکا دیا۔اسی طرح اغوا کے وقت دوران مزاحمت طالبان کی فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہونے والے دو افراد نے کہا کہ انہوں نے زخموں کو اپنی قمیص پھاڑ کر باندھ دیا تھا اور تین ماہ کے دوران طالبان نے انہیں نہ تو کوئی دوائی دی اور نہ ہی ڈاکٹر کا بندوبست کیا۔ اسی طرح کھانے کے وقت انہیں انتہائی خراب خوراک جس طرح جانوروں کو چارہ ڈالا جاتا ہے ،سے بھی بدتر طریقے سے خوارک پھنک کر رزق کی بے حرمتی کرکے دی جاتی رہی۔تین ماہ کے دوران سر کے بال تو کیا حتی کہ ڈھاڑی بنانے کی اجازت تک نہ دی گئی۔اور نہ ہی ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔ طالبان کی قید میں تین ماہ تک مظالم کا شکار بننے والے افراد نے سوالیہ انداز میں کہا کی یہ کون سا اسلام اور کیسے طالبان ہیں ۔۔۔؟؟؟ ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔۔۔
رہائی کے متعلق پوچھے گئیے ایک سوال کے جواب میں ان افراد نے کہا کہ رہائی سے ایک دن پہلے طالبان کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے امیر صاحب فضل سعید جیت گئے اور آپ لوگ و حکومت ہار گئی،کیونکہ حکومت نے ہمارے تمام مطالبات کروڑوں روپے کے تاوان کے علاوہ جیلوں میں قید طالبان کمانڈروں بشمول امیر صاحب فضل سعید کے بھائی کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسلئے کل آپ لوگوں کو حکومت کے حوالے کیا جائیگا۔اس لئے ہمیں غار میں اپنے تنگ و تاریک  کمروں سے باہر نکال کر دوبارہ آنکھوں پر پٹیاں ڈال کر ڈبل کیبن گاڑیوں میں بٹھایا گیا۔اس موقع پر ایک جوان نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ تین ماہ تک غار میں اپنے تنگ و تاریک  کمرے میں رہ کر ہمیں یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ ساتھ والے کمرے میں کون قید ہوگا،لیکن جس دن ہمیں رہائی کے لئے اپنے کمرے سے باہر لے جایا جا رہاتھا تو میں نے باہر سے ساتھ والے کمرے پر نظر دوڑائی جس میں کئ افراد بشمول دو بچے بھی نظر آئے،جن کی عمریں بمشکل دس سال تک ہونگی،جب کہ اب تک ہمارے کچھ اغوا افراد طالبان کی قید میں ہیں۔
ایک بڑے غار یا چھوٹے پہاڑ  کی تہہ پر بننے والے سرنگ  کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہ یہ کس علاقے میں تھا،ان افراد نے جواب میں کہا کہ ہم وثوق سے تو نہیں بتا سکتے لیکن رہائی کے وقت جب ہم نے اس غار کو دیکھا اور پھر آنکھوں پر پٹیاں ڈال کر جتنے وقت میں ہمیں ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل تک پہنچایا گیا۔گاڑی میں اتنا وقت و فاصلہ اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کی بارڈر پر موجود پہاڑی علاقے یا پھر لوئر کرم و شمالی وزیرستان کے بارڈر پر موجود علاقہ ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button