پاکستان

پاراچنار: بیرونی دہشت گردوں کی پسپائی / فوجی ہیلی کاپٹروں اور توپخانے کے حملے جاری ہیں

halicopterپاکستانی افواج کے ناجائز حملوں میں اب تک متعدد محب وطن پاکستانی شہید ہوگئے ہیں / فوج کے پاس حملے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
شیعہ مجاہدین نے بیرونی دہشت گردوں کو غصب شدہ علاقوں سے نکال باہر کردیا ہے اور ان سے ان کا آخری مورچہ ـ نرئے گاؤں ـ بھی آزاد کرالیا گیا ہے اور اب وہ افغان سرحد پر واقع پہاڑی مورچے سے علاقے کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر فوج کی طرف سے بیرونی دہشا گردوں پر حملہ کرنے کی بجائے  علاقے کے شیعہ علاقوں پر گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
سابقہ اطلاعات کے مطابق شیعہ شہداء کی تعداد 63 بتائی گئی تھی جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شہداء کی تعداد مذکورہ تعداد سے کم ہے اور بہت سے وہ افراد جو شہید تصور کئے جارہے تھے، اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ شہداء میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
دریں اثناء ریڈیو تہران کی پشتو سروس کے مطابق فوجی ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ سے اب تک 13 افراد شہید ہوگئے ہیں اور انھوں نے آج ایک رہائشی مکان کو بھی نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں 3 افراد شہید ہوگئے ہیں جبکہ ابنا کے ذرائع سے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اس وقت شلوزان کا کوہستانی علاقہ کلیئر ہوگیا ہے مگر فوج کے ہیلی کاپٹر اور اس کی بھاری آرٹلری کی گولہ باری جاری ہے جس کے لئے وہ کسی قسم کی وجہ یا جواز پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بظاہر طالبان دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار پاکستانی افواج کو شلوزان میں طالبان کی شدید ترین شکست ہضم نہیں ہوپا رہی اور وہ اندھادھند فائرنگ کرکے شیعہ محب وطن قبائل کو بغاوت پر اکسانے کی سازش پر کاربند نظر آرہی ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ جب بیرونی دہشت گرد خیوص گاؤں کو جلارہے تھے تو اپنے محب وطن شہریوں کے قتل اور ان کے گھروں کو نذر آتش کئے جانے پر فوج کی غیرت نہیں ابھری لیکن طالبان کو شکست ہوئی تو اب وہ فائرنگ بند کرنے پر نہیں آرہی جبکہ طالبان جاچکے ہیں اور علاقے کے مکین اپنے علاقے میں تعمیر نو کے کاموں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
شاید علاقے میں تعینات فوجی دستے مرکزی حکومت کو یہ بتانے کے لئے فائرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ گویا "وہ جنگ ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور کسی قسم کی کاروائی کا صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اس علاقے میں نئی جنگ شعلے بھڑکائے جائیں اور اگر کوئی کاروائی کرنی ہے اور پاکستانی فورسز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہیں تو وہ سرحدی پہاڑی پر ملک کے اقتدار اعلی پر حملے کرنے والے طالبان دہشت گردوں پر حملے کیوں نہیں کرتیں؟
علاقے کے عوام ـ جنہوں نے گذشتہ چار برسوں کے دوران گیارہ سو سے زائد عزیزوں کے جنازے اٹھائے ہیں اور انہیں اپنے بھائیوں اور بچوں کے قتل میں سرکاری ہاتھ بھی بارہا نظر آچکا ہے اور کبھی بھی حکومتی اقتدار اعلی کے خلاف کمربستہ نہیں ہوئے ہیں اور یہ ان کی زیرکی اور کیاست کی مسلمہ علامت ہے۔ اب بھی اپنی کیاست کا ثبوت دے رہے ہیں اور فوج کی ناجائز جارحیت کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ مرکز میں اعلی فوجی قیادت اس ناجائز اقدامات کا نوٹس لے اور عوام کے خلاف حملوں میں ملوث خودسر افسران کو ہٹا کر علاقے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے اور بدخواہ جان لیں کہ عوام اپنے گھر کی بہر قیمت حفاظت کریں گے۔
یاد رہے کہ فوج، ایف سی اور مقامی انتظامیہ سمیت پاکستان کے تمام ادارے قبائلی ایجنسیوں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور کرم ایجنسی کی شیعہ اکثریت کی وطن سے محبت کی بنا پر یہ تمام ادارے پوری آزادی کے ساتھ اس علاقے میں فعال ہیں اور مقامی لوگ انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ فوج اور ایف سی میں موجود بعض طالبان ٹائپ افسران مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات جاری رکھتے ہوئے اس علاقے کو بغاوت پر اکسانے کی سازشیں کررہے ہیں۔
مآخذ: ابنا

متعلقہ مضامین

Back to top button