پاکستان
عاشورہ دھماکےکے دہشت گرد کراچی سٹی کورٹ سے فرار
![4](images/stories/2010/06/Jandullah/4.jpg)
تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی پر لائے جانے والے کالعدم جند الله کے دہشت گردوں شاہ مراد، وزیر، شکیب فاروقی اور مرتضیٰ کو پیشی کے بعد عدالت کے باہر مسجد بلال کے سامنے بٹھایا گیا تھا کہ اس دوران مسجد کے راستے سے حملہ آور سٹی کورٹ میں داخل ہوئے اور 3دستی بموں سے پولیس پر حملہ کردیااور فائرنگ شروع کردی۔ پولیس اہلکاروں نے ملزمان پر جوابی فائرنگ کی تاہم ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر جوڑیا بازار کی جانب فرار ہوگئے، ملزمان کی فائرنگ سے کورٹ پولیس کا اہلکار محمد شہباز ولد غلام رسول جاں بحق ہوگیا جبکہ سٹی کورٹ آئے ہوئے 3افراد سرفراز حسین، عثمان اور عبدالکلام زخمی ہوگئے۔ فائرنگ اور دھماکوں سے مسجد بلال کے شیشے ٹوٹ گئے اور دیوار کا پلاسٹر اکھڑ گیا۔ سٹی کورٹ کے اندر کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گولیاں لگنے سے بھی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ ملزمان کے فرار ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سٹی کورٹ کے اطراف سیکیورٹی اقدامات سخت کردیے اور جوڑیا بازار جانے والے راستے کا محاصرہ کرلیا۔ پولیس کے مطابق پولیس کانسٹیبل عمران ناظر اور کانسٹیبل شہباز کالعدم جند الله کے ملزمان کو پیشی کے لیے سٹی کورٹ کے ساوٴتھ بلاک میں عدالت نمبر5لے کر آئے جہاں سے پیشی کے بعد ملزمان کوڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی کے لیے پہنچے اور پیشی کے بعد عدالت کے باہر بٹھایا ہوا تھا کہ ملزمان کے ساتھیوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا اور فائرنگ شروع کردی۔ پولیس نے بتایا کہ دہشت گرد اپنے ساتھیوں کو پولیس کی حراست سے چھڑا کر جوڑیا بازار اور ایم اے جناح روڈ کی جانب فرار ہوگئے۔ پولیس نے ملزمان کا تعاقب شروع کردیا اس دوران رسالہ تھانے کی حدود محمدی مسجد نواب بیکری کے قریب فرار ہونے والے ملزمان اور پولیس کے درمیان ایک مرتبہ پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا۔ اس دوران عدالت سے فرار ہونے والے ایک ملزم شاہ مراد نے پولیس پر دستی بم سے حملہ کرنے کی کوشش کی تاہم بم اس کے ہاتھوں میں ہی پھٹ گیاجس کے نتیجے میں ملزم شاہ مراد موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دو ملزمان زخمی حالت میں فرارہوئے ہیں جن کی تلاش کے لیے شہر بھر کے اسپتالوں میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کے قبضے سے ایک دستی بم بھی ملا ہے جو پھٹ نہیں سکا جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔پولیس کے مطابق سٹی کورٹ سے پولیس کو ملزمان کا ایک نائن ایم ایم پستول اور ایک موبائل فون بھی ملا ہے، جسے پولیس نے تحویل میں لے کر اس پر کی جانے والی کالز کی تفصیلات جمع کرنا شروع کردی ہیں، اس سلسلے میں ڈی آئی جی ساوٴتھ اقبال محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ کالعدم جندا لله کے دہشت گردوں کی عدالت میں پیشی سے متعلق جیل انتظامیہ نے پہلے سے آگاہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے سٹی کورٹ میں سیکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے جاسکے۔ انھوں نے بتایا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ جیل انتظامیہ نے اتنے خطرناک ملزمان کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سٹی کورٹ کے ساوٴتھ اور سینٹرل بلاک کے دروازوں سے داخل ہوئے تھے جبکہ ان کے چند ساتھی پہلے سے ہی سٹی کورٹ کے اندر موجود تھے۔ پولیس کا خیال ہے کہ ملزمان کی تعداد5تھی ، ہلاک ہونے والے دہشت گرد اور زخمیوں کو سول اسپتال پہنچائے جانے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سول اسپتال میں سیکیورٹی کے اقدامات سخت کردیے ، سول اسپتال کے تمام گیٹ بند کردیئے گئے اور اسپتال کی ایمرجنسی سے تمام افراد کو باہر نکال دیا گیا، پولیس کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا پولیس اہلکار محمد شہباز کورٹ پولیس میں تعینات تھا اور اس کا آبائی تعلق بہاولپور سے تھا۔ سٹی کورٹ دھماکے میں زخمی ہونے والے سرفراز کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
{gallery}/2010/06/Jandullah{/gallery}