پاکستان

عاشورہ دھماکےکے دہشت گرد کراچی سٹی کورٹ سے فرار

4سٹی کورٹ میں دستی بموں سے حملے اور فائرنگ کے بعد حملہ آور، کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کو چھڑا کر لے گئے، دستی بموں کے دھماکوں اور شدید فائرنگ سے سٹی کورٹ میں بھگدڑ مچ گئی، فائرنگ سے دہشت گردوں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا اور فرار ہونے والا ایک ملزم دستی بم پھٹنے سے ہلاک ہوگیا۔فرار ہونے والے دو ملزمان زخمی حالت میں فرار ہوئے ہیں ،دستی بم کے دھماکوں سے سٹی کورٹ آئے ہوئے 3افراد بھی زخمی ہوگئے۔
سٹی کورٹ سے دستی بموں کے حملوں اور فائرنگ کے  بعد فرار ہونے والے کالعدم تنظیم کے دہشت گردوں کو اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ پولیس نے 24جنوری2010ء کو گرفتار کیا تھا،فرار ہونے کی کوشش میں ہلاک ہونے والا دہشت گرد شاہ مراد گلستان جوہر کا رہائشی تھا جبکہ فرار ہونے والا مرتضیٰ پاپوش نگر، شکیب نیو کراچی اور وزیر قائد آباد کا رہائشی تھا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ گرفتار کیے جانے والے ملزمان کو سب سے پہلے تیموریہ تھانے کی حدود میں ہونے والے بینک ڈکیتی کے بعد کیمرے سے ملنے والی تصاویر میں شناخت کیا گیا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے تمام مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چل رہے ہیں، ہفتے کو ملزمان کو کار چوری کے مقدمے میں مقامی عدالت میں پیشی کے لیے لایا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے ملزمان کو پیشی پر لائے جانے سے متعلق کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ ایس ایس پی نے بتایا کہ ہلاک و فرار ہونے والے ملزمان 8،9اور10محرم الحرام کو ہونے والے بم دھماکوں میں بھی ملوث تھے ،ملزمان کا تعلق جند الله سے ہے اور ان کی تنظیم کا رابطہ براہ راست القائدہ سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان کا کمانڈر القائدہ کا حمزہ جوفی عرف حاجی ممتاز ہے اور ان کی تنظیم بینک ڈکیتیوں سے حاصل ہونے والی رقم وزیرستان بھیجتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے گروہ کے ماسٹر مائنڈ حیدر بھائی اور رضا بھائی نامی دہشت گرد ہیں جو تاحال گرفتار نہیں کیے جاسکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے جتنی محنت کے بعد ان دہشت گردوں کو گرفتار کیا، جیل انتظامیہ کی غفلت کے باعث اتنے خطرناک ملزمان باآسانی فرار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ عاشورہ دھماکے کے الزام میں جب ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا تو بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا تھا کہ مذکورہ ملزمان اصل نہیں ہیں تاہم سٹی کورٹ سے ان کے ساتھیوں کی جانب سے حملہ کرکے انھیں چھڑا لینے کے واقعے سے ثابت ہوگیا کہ ملزمان کتنے خطرناک تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایس آئی یو پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش شروع کردی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سٹی کورٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی پر لائے جانے والے کالعدم جند الله کے دہشت گردوں شاہ مراد، وزیر، شکیب فاروقی اور مرتضیٰ کو پیشی کے بعد عدالت کے باہر مسجد بلال کے سامنے بٹھایا گیا تھا کہ اس دوران مسجد کے راستے سے حملہ آور سٹی کورٹ میں داخل ہوئے اور 3دستی بموں سے پولیس پر حملہ کردیااور فائرنگ شروع کردی۔ پولیس اہلکاروں نے ملزمان پر جوابی فائرنگ کی تاہم ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر جوڑیا بازار کی جانب فرار ہوگئے، ملزمان کی فائرنگ سے کورٹ پولیس کا اہلکار محمد شہباز ولد غلام رسول جاں بحق ہوگیا جبکہ سٹی کورٹ آئے ہوئے 3افراد سرفراز حسین، عثمان اور عبدالکلام زخمی ہوگئے۔ فائرنگ اور دھماکوں سے مسجد بلال کے شیشے ٹوٹ گئے اور دیوار کا پلاسٹر اکھڑ گیا۔ سٹی کورٹ کے اندر کھڑی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور گولیاں لگنے سے بھی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ ملزمان کے فرار ہونے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سٹی کورٹ کے اطراف سیکیورٹی اقدامات سخت کردیے اور جوڑیا بازار جانے والے راستے کا محاصرہ کرلیا۔ پولیس کے مطابق پولیس کانسٹیبل عمران ناظر اور کانسٹیبل شہباز کالعدم جند الله کے ملزمان کو پیشی کے لیے سٹی کورٹ کے ساوٴتھ بلاک میں عدالت نمبر5لے کر آئے جہاں سے پیشی کے بعد ملزمان کوڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سینٹرل کی عدالت میں پیشی کے لیے پہنچے اور پیشی کے بعد عدالت کے باہر بٹھایا ہوا تھا کہ ملزمان کے ساتھیوں نے دستی بموں سے حملہ کردیا اور فائرنگ شروع کردی۔ پولیس نے بتایا کہ دہشت گرد اپنے ساتھیوں کو پولیس کی حراست سے چھڑا کر جوڑیا بازار اور ایم اے جناح روڈ کی جانب فرار ہوگئے۔ پولیس نے ملزمان کا تعاقب شروع کردیا اس دوران رسالہ تھانے کی حدود محمدی مسجد نواب بیکری کے قریب فرار ہونے والے ملزمان اور پولیس کے درمیان ایک مرتبہ پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا۔ اس دوران عدالت سے فرار ہونے والے ایک ملزم شاہ مراد نے پولیس پر دستی بم سے حملہ کرنے کی کوشش کی تاہم بم اس کے ہاتھوں میں ہی پھٹ گیاجس کے نتیجے میں ملزم شاہ مراد موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دو ملزمان زخمی حالت میں فرارہوئے ہیں جن کی تلاش کے لیے شہر بھر کے اسپتالوں میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کے قبضے سے ایک دستی بم بھی ملا ہے جو پھٹ نہیں سکا جسے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔پولیس کے مطابق سٹی کورٹ سے پولیس کو ملزمان کا ایک نائن ایم ایم پستول اور ایک موبائل فون بھی ملا ہے، جسے پولیس نے تحویل میں لے کر اس پر کی جانے والی کالز کی تفصیلات جمع کرنا شروع کردی ہیں، اس سلسلے میں ڈی آئی جی ساوٴتھ اقبال محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ کالعدم جندا لله کے دہشت گردوں کی عدالت میں پیشی سے متعلق جیل انتظامیہ نے پہلے سے آگاہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے سٹی کورٹ میں سیکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے جاسکے۔ انھوں نے بتایا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے گی کہ جیل انتظامیہ نے اتنے خطرناک ملزمان کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سٹی کورٹ کے ساوٴتھ اور سینٹرل بلاک کے دروازوں سے داخل ہوئے تھے جبکہ ان کے چند ساتھی پہلے سے ہی سٹی کورٹ کے اندر موجود تھے۔ پولیس کا خیال ہے کہ ملزمان کی تعداد5تھی ، ہلاک ہونے والے دہشت گرد اور زخمیوں کو سول اسپتال پہنچائے جانے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے سول اسپتال میں سیکیورٹی کے اقدامات سخت کردیے ، سول اسپتال کے تمام گیٹ بند کردیئے گئے اور اسپتال کی ایمرجنسی سے تمام افراد کو باہر نکال دیا گیا، پولیس کے مطابق دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا پولیس اہلکار محمد شہباز کورٹ پولیس میں تعینات تھا اور اس کا آبائی تعلق بہاولپور سے تھا۔ سٹی کورٹ دھماکے میں زخمی ہونے والے سرفراز کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
{gallery}/2010/06/Jandullah{/gallery}

متعلقہ مضامین

Back to top button