لبنان

اسلامی تحریک مزاحمت ہر جارحیت کی سرکوبی کے لئے تیار ہے

nasrallah_hassan_حزب اللہ لبنان کی سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کل کی روز جنوبی لبنان پر صہیونی جارحیت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسلامی تحریک مزاحمت ہر جارح کی سرکوبی کے لئے پوری طرح تیار ہے اور اگر اسرائیل نے جارحیت کی تو اس کے ہاتھ کاٹ دےگی۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے 2006 کی 33 روزہ جنگ میں صہیونی ریاست کے خلاف اسلامی مزاحمت تحریک کی فتح کی چوتھی سالگرہ کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی لبنان پر کل کی صہیونی جارحیت کی طرف اشارہ کیا  اور کہا: لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر رونما ہونے والا واقعہ لبنان کی قومی فوج کی شجاعت کا ثبوت تھا؛ لبنان پر صہیونی جارحیت بند نہیں ہوئی ہے اور العدیسہ کی علاقے میں لبنانی افواج کے افسروں اور جوانوں نے صہیونی فوجیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور میں صراحت کی ساتھ کہتا ہوں کہ اگر کہیں لبنانی افواج کو جارحیت کا سامنا ہو اور تحریک مزاحمت بھی اس علاقے میں موجود ہو یا اس سے مدد کی درخواست کی جائے تو یہ تحریک ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گی اور اسرائیل کو فیصلہ کن جواب دے گی۔
انھوں نے کہا کہ لبنان کی سالمیت، سرزمین، ملت، امن و امان، باشندوں اور بچوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ جاری ہے اور اسلامی مزاحمت تحریک بھی پوری طرح تیار ہے۔
انھوں نے کہا صہیونی ریاست کی طرف سے کل کا حملہ جارحیت کا ایک مصداق تھا اور فطری سے بات تھی کہ لبنانی فوج نے محدود وسائل کے باوجود اس جارحیت کا مقابلہ کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے شہداء اور مجروحین کی قربانی دی۔
انھوں نے کہا کہ فوج، قوم اور تحریک مزاحمت پر مشتمل ہم لبنانیوں کو معاصر تاریخ کا عظیم تجربہ حاصل ہے جس کے بل بوتے پر ہم نے تاریخی کامیابیان حاصل کیں۔
انھوں نے ایک لبنانی خبرنگار کی شہادت کے بارے میں کہا کہ لبنانی خبرنگاروں کی شہادت کوئی عجیب بات نہیں ہے اور جو واقعہ جنوبی سرحدوں پر رونما ہوا، کوئی چھوٹا واقعہ نہ تھا کیونکہ یہ واقعہ اس امر کا سبب بنا کہ ہمارے عوام اور ہمارے دوست اور ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ "ہم نے کس طرح عمل کیا اور اس کے بعد ہمیں کس طرح عمل کرنا چاہئے؟ جھڑپوں کے ابتدائی لمحات سے ہی مزاحمت کی فورسز ہائی الرٹ تھیں اور انھوں نے پورے انضباط اور ڈسپلن کے ساتھ ان واقعات کی نگرانی کی؛ ہم بھی اپنے بھائیوں اور جنوب میں تحریک مزاحمت کے راہنماؤں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ہم نے ان سے کہا کہ "حکم کے منتظر رہیں” کیونکہ حکمت، مصلحت اور وفاداری کا تقاضا تھا کہ تحریک مزاحمت اپنے آپ کو افواج لبنان کے حوالی کردے اور اس نے ایسا ہی کیا کیونکہ مسلح افواج ہی ان جھڑپوں کی نگران تھیں۔
سیدحسن نصر اللہ نے کہا: حزب اللہ نے لبنانی فوج کے کمانڈر سے رابطہ کرکے کہا کہ ہم علاقے میں موجود ہیں اور تیار ہیں اور ہمارا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے؛ ہم نے جناب صدر، پارلمنٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم سے بھی رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ ہم حالات کا مشاہدہ کرکے دکھ درد سہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی حرکت نہیں کرتے، تحریک مزاحمت انضباط کے ساتھ عمل کرے گی لیکن پوری طرح تیار ہے اور لبنانی افواج کی کمانڈ کے تابع ہے۔
انھوں نے کہا: بہر صورت اسرائیلی دشمن کو لبنان کا پیغام بالکل دو ٹوک تھا، یہ پیغام خون سے لکھا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ "لبنان اپنی مقدس سرزمین کے ایک چھپے پر بھی کسی بھی جارحیت کے ساتھ رواداری کی راہ نہیں اپنائے گا اور پوری شجاعت کے ساتھ ہر جارحیت کا مقابلہ کرے گا؛ لبنان صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اس کے روبرو ہونے سے خائف نہیں ہوتا اور لبنانی افواج مورچے اور پناہگاہ کے بغیر بھی صہیونی ریاست کی جارحیت کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا: ہمارے دشمن کی بیشرمی کی انتہا ہے کہ اس نے لبنانی فوج کو جھڑپوں کا باعث قرار دیا اور لبنان کی حکومت اس مسئلے کی ذمہ دار ہے اور یہ جو لبنان کی فوج نے اس جارحیت کا مقابلہ کیا ہے ہماری لئے حیرت انگیز ہے۔
انھوں نے کہا کہ جنوبی سرحدوں میں ہونے والی جھڑپوں کا ایک پیغام یہ تھا کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت تحریک پوری طرح تیار اور افواج لبنان کے ساتھ ہے اور
تیسرا پیغام یہ تھا کہ لبنانی قوم العدیسہ، کَفَر کلا اور فرنٹ لائن کے تمام قصبوں میں ثابت قدم ہے اور عزم راسخ کے ساتھ اپنی سرزمین پر استوار رہتی ہے اور ان کی صہیونی آبادیوں کے باشندوں کی طرح بزدل نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: کل کے روز "فوج ـ قوم ـ اور مزاحمت تحریک” کا فارمولا ایک بار پھر مستحکم ہوگیا جیسا کہ جولائی 2006 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
انھوں نے کہا: آج لبنانی فوج کے ٹھکانے ٹینکوں کی گولہ باری کا نشانہ بنے گو کہ کہا گیا ہے کہ اس حملے میں گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے بہر حال اس حملے میں لبنانی فوج کے اہلکاروں سمیت بعض سول باشندے بھی شہید اور زخمی ہوئے۔
انھوں نے کہا: تحریک مزاحمت کے نوجوان العدیسہ، کفر کلا اور اطراف کے علاقوں میں موجود تھے مگر ان سے کہا گیا تھا کہ اپنے جذبات قابو میں رکھیں کیونکہ ہم خود بھی لبنانی فوج کے تابع تھے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: مجھے امید ہے کہ تمام سیاستدان، حکام، علماء، لبنانی، عرب اور دنیا والے ہمیں تقویت پہنچائیں کیونکہ ہم نے اقدار، اخلاق، ذمہ داریوں اور وعدوں سے انحراف نہیں کیا۔
انھوں نے کہا: لبنانی فوج کے افسران اور جوان انسانی لحاظ سے ہمارے بھائی، بچے، باپ، دوست اور عزیز ہیں اور قومی لحاظ سے وہ تمام لبنانیوں کی شرافت و عزت اور سربلندی کی علامت ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے لبنان پر صہیونی ریاست کی جارحیت کے مصادیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جارحیتیں لبنان کے استقلال اور سالمیت کی پامالی کی علامت ہیں اور 14 اگست 2006 سے لے کر اب تک صہیونیوں نے 7000 ہزار بار سے زائد قرار داد نمبر 1701 کے خلاف ورزی کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا والے بدستور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور سلامتی کونسل ـ جس نے قرار داد نمبر 1701 منظور کر رکھی ہے ـ ابھی تک اپنی قرارداد کا احترام کرانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتی اور اس عرصے میں کسی نے بھی بین الاقوامی قراردادوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کرنے کی جرأت نہیں کی ہے۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے 33 روزہ جنگ کی چوتھی سالگرہ کے حوالے سے کہا: مسلسل جارحیت کا ایک مصداق لبنان کے جنوبی علاقوں میں وہ نیپام بم ہیں جو صہیونی ریاست نے بچھائے ہوئے ہیں اور یہ بم دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور ظاہر ہے کہ بین الاقوامی امن فورسز "یونیفل” بھی اس سلسلے میں رپورپیں بھیج رہی ہیں اور یہ رپورٹیں ذرائع ابلاغ پر بھی آتی ہیں۔
انھوں نے کہا: جنوب لبنان میں صہیونیوں کے نیپام بموں نے اب تک 306 لبنانیوں کو زخمی کیا ہے اور کئی افراد کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے ہیں جبکہ ان بموں کے پھٹنے سے اب تک 44 سے زائد مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوگئے ہیں۔
انھوں نے لبنان میں صہیونی ریاست کی حالیہ جاسوسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: لبنان کے ٹیلی مواصلات میں صہیونی ریاست کی دراندازی نہ صرف اسرائیلیوں کو اطلاعاتی تسلط دے دیتی ہے بلکہ انہیں لبنان کے مواصلات کنٹرول کرنے کے حوالے سے کافی طاقت بخشتی ہے؛ لبنان کے انجنئروں اور ٹکنیشنوں کو اس سلسلے میں عوام کے سامنے وضاحت کرنی چاہئے تا کہ لوگ بھی محتاط رہیں اور اس مسئلے سے آگہی حاصل کریں۔
انھوں نے کہا کہ حالیہ دو برسوں کے دوران 200 سے زیادہ اسرائیلی جاسوسوں کا سراغ لگایا گیا ہے جن میں سے بعض کو نہایت اہم اور خطرناک ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کٹھ پتلی جاسوسوں کا سراغ لگانے سے دشمن اور اس کی انٹیلی جنس کو زبردست زک پہنچی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم ان جاسوسوں میں سے بعض کے لئے پھانسی کی سزا کے خواہاں تھے اور خدا کا شکر ہے کہ ان میں سے بعض کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور ہمیں اس حوالے سے زیادہ منتظر نہیں رکھا جانا چاہئے کیونکہ ہم ایک حقیقی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button