یمن

یمنی حکومت وہابیوں ، القاعدہ اورسلفیون کی مدد سے شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں لگ گئ ہے

shiite-houthi-300x225 (1)

یمن میں جاری جنگ کئی مہینے گذرجانے کے بعد نہ صرف یہ کہ کم نہيں ہوئي ہے بلکہ سعودی عرب  امریکہ اورخود یمنی حکومت کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس میں مزید شدت آتی جارہی ہے یہ جنگ گذشتہ برس اگست میں شروع ہوئي تھی جس کا مقصد شمالی یمن کے علاقے کے شیعہ باشندوں کا صفایا کرنا تھا ۔ جنگ شروع ہونے کے بعد ہی امریکہ نے یمن کی جنگ میں براہ راست مداخلت شروع کردی ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تباہ کن ایسے ملک میں جاری ہے

 جس کا شمار عرب دنیاکے سب سے غریب ملکوں میں ہوتا ہے اس طرح مذکورہ جنگ کے نتیجے میں یمن کے عوام کودوہری اورشدید مشکلات کا سامنا ہے ۔شمالی یمن کے باشندے اپنے اقتصادی سماجی اورمذہبی حقوق کا مطالبہ کررہے ہيں اس کے علاوہ ان علاقوں کے  عوام کواس بات پربھی اعتراض ہے کہ یمن کی حکومت کیوں امریکہ کی تابع فرمان بنی ہوئی ہے۔ شمالی یمن کے باشندوں کے خلاف اس سے پہلے کے برسوں میں بھی یمن کی فوج کاروائی کرچکی ہے چنانچہ موجودہ کاورائی کوچھٹی جنگی کاروائی کہا جاتا ہے۔شمالی یمن کے الحوثی گروہ کی موجودہ جنگ میں کامیابی کے بعد سعودی عرب کی فوج  براہ راست اس جنگ میں یمنی باشندوں کے خلاف کود پڑی اورگذشتہ نومبرسے تووہ براہ راست طورپریمنی باشندوں پرظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے جبکہ سعودی عرب کے جنگی طیارے توگذشتہ اگست میں جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے کے بعد سے ہی شمالی یمن کے باشندوں پربم برسارہے ہيں جبکہ گذشتہ دسبمر ونومبرسے امریکہ نے بھی شمالی صوبہ صعدہ میں الحوثی گروہ کے ٹھکانوں پربمباری شروع کردی ہے لیکن الحوثی گروہ نے جوچھاپہ مارجنگ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے اورپہاڑی علاقوں سے جوسعودی عرب سے ملنے والی سرحدوں کے قریب واقع ہیں اپنی دفاعی کاروائیوں کواچھی طریقے سے انجام دیا ہے اوراس کے نتیجے میں انہیں کامیابیاں بھی مل رہی ہیں ۔اس میں شک نہيں کہ یمن کی جنگ میں امریکہ اورسعودی عرب کی مداخلت ایک آزاد وخودمختار کی ارضي سالمیت اوراقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یمنی حکومت صعدہ صوبے کے شیعہ مسلمانوں پرغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے اس اہم معاملہ کونظراندازکررہی ہے ۔ یمنی حکومت پہلے دن سے ہی تدبیرودوراندیشی کا مظاہرہ کرکے اس مسئلہ کوبات چیت کے ذریعہ حل کرسکتی تھی اوربہت سے بے گناہ لوگوں کا خون بہنے سے بچ جاتا اورآج بھی جب الحوثی گروہ مذاکرات کے لئے تیار ہے اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ شمالی یمن کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ حل ہوسکتا ہے ۔ اب تک ایران قطراورترکی جیسے بعض ممالک اوراسی طرح یمن سے باہرکے متعدد ممتازعلماء نے یمنی حکومت اورالحوثی گروہ کے درمیان ثالثي کی پیش کش کی ہے ۔ جنگ کے میدان میں اس گروہ کی کامیابی کے بعد یہ بات سب کومعلوم ہے کہ اب جنگ کا جاری رہنا کسی بھی صورت میں یمنی حکومت کے نفع میں نہیں ہے اوربات چیت ہی مسئلہ کا  بہترین حل  ہے ۔پچھلے دنوں یمن کی ایک اورمشکل نے جس نے بحران کومزید پیچیدہ کردیا ہے وہ یمن میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا امکان ہے واشنگٹن نے اعلان کردیا ہے کہ جس شخص نے کریسمس کے دن امریکی مسافرطیارے کواغواء کرنے کی کوشش کی تھی اس نے یمن میں ٹریننگ حاصل کی تھی اسی دعوے کی بنیاد پرہی امریکی ذرائع ابلاغ نے ان دنوں اپنا رخ یمن کی طرف کرلیا ہے اس سلسلے میں امریکی ذرائع ابلاغ نے یمن میں القاعدہ کی موجودگی امریکہ کے لئے خطرات اوراس سے متعلق جھوٹی سچی خبریں بڑھا چڑھا کرپیش کرنے کا عمل بہت  تیزکردیا ہے ۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن میں القاعدہ کی موجودگی کا امریکی دعوی تیسراسلامی ملک پرقبضہ کرنے کا امریکی بہانہ ہے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعدامریکہ جب بھی کسی ملک میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے توالقاعدہ کے خطرات کا مسئلہ اٹھا دیتا ہے ۔ القاعدہ ہویا طالبان دونوں ہی گروہ انیس سواسی کے  عشرے میں افغانستان پرسابق سویت یونین کے قبضے کے دوران امریکہ کے ہی تیار کردہ گروہ ہيں یہ بات سبھی جانتے ہيں کہ اس وقت عرب اورغیرعرب ممالک کے بہت سے جنگجوجنھیں اس وقت مجاہدین کا نام دیا گیا افغانستان بھیجے گئے ۔ ان جنگجوؤں کوامریکہ پاکستان اورسعودی عرب کی طرف سے اسلحہ جاتی تربیتی اورمالی مدد فراہم کی گئی اورپھر انھوں نے سابق سویت یونین کے خلاف جنگ کی ۔لیکن افغانستان سے سابق سویت یونین کی فوجوں کے نکل جانے کے بعد انہی جنگجوؤں کی ایک خاصی تعداد  افغانستان میں ہی رہ گئي جہاں انھوں نے ملک میں داخلی جنگ شروع کردی اورالقاعدہ وطالبان انہی افراد کے نام سے وجود میں آئی جن کے نظریات متعصبانہ جاہلانہ اورتنگ نظرانہ ہيں اورافغانستان پرطالبان کے قبضے کے دوران سب نے ان گروہوں کے افکار واقدامات کا بخوبی مشاہدہ بھی کیا ہے اب ایسا لگتا ہے کہ جن گروہوں کوامریکہ نے پروان چڑھایا تھا اب وہی خود ان کے لئے درد سربن گئے ہيں ۔یمن میں جولوگ القاعدہ کے نام پرسرگرمیاں انجام دے رہے ہیں وہ ایسے عناصر ہيں جوافغانستان سے پلٹے ہیں ۔افغانستان میں سابق جنگجؤں کے ساتھ امریکہ کے سابقہ تعلقات وتعاون کے پیش نظراس نتیجے پرپہنچا جاسکتا ہے کہ القاعدہ اورطالبان کا امریکہ کے ساتھ کوئی خاص تضاد نہيں ہے اوراب تک ان گروہوں نے جتنے بھی اقدامات کئے ہيں ان سب کا فائدہ براہ راست امریکہ کوہی پہنچا ہے اورنتیجے میں مغربی ملکوں اوران کے ذرائع ابلاغ کواسلام اوراس کی الہی تعلیمات کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا بہت زیادہ موقع ملا ہے ۔ یہاں پرسب سے زیادہ افسوس ناک امریہ ہے کہ مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ متعصب اوررجعت پسندگروہ طالبان کواسلام کا سمبل بنا کرپیش کرتے ہيں اورپھر اسلام کی اعلی تعلیمات کوہدف تنقید بناتے ہيں اوریوں وہ نتیجہ نکالتے ہيں کہ اسلام تشدد اوررجعت پسندی پریقین رکھتا ہے دوسری طرف امریکی حکومت بھی اس طرح کے افراد کی اسلامی ملکوں میں موجودگی کوخطرہ بنا کرپیش کرتی ہے اورپھر ان ملکوں میں اپنی مداخلت کا راستہ ہموارکرتی ہے ۔ان تمام باتوں کے باوجو ایسا نظرآتا ہے کہ امریکہ کویمن میں فوجی مداخلت کرنے کی راہ میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔یمن کی حکومت پہلے شیعوں کے تعاون سے سلفیوں اورالقاعدہ کا مقابلہ کرتی تھی لیکن گيارہ ستمبرکے واقعات اورامریکہ کی جانب یمنی حکومت کے رجحان کے بعد معاملہ الٹا ہوگیا اورصنعا کی حکومت نے اب وہابیوں ، القاعدہ کے عناصر اورسلفیون کی مدد سے  شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں لگ گئ ہے کیونکہ شمالی یمن کے باشندے خاص طورپرالحوثي گروہ امریکہ کے ساتھ یمنی حکومت کے گہرے اورقریبی تعلقات کی مخالفت کرتا ہے الحوثي گروہ کے نظریاتی لیڈر سید حسین الحوثي اپنے اسی امریکہ وصہیونیت مخالف نظریات کی وجہ سے ہی یمنی حکومت کے فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔اس درمیان جوخبریں موصول ہورہی ہيں ان کے مطابق یمنی حکومت اس وقت القاعدہ کے افراد کوشمالی یمن کے باشندوں کا قتل عام کرنے کے لئے استعمال کررہی ہےاسی لئے یمنی حکومت اپنے ملک میں القاعدہ کے خلاف کوئي کاروائي کرنےميں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ اس سلسلے میں امریکی تحقیقی ادارے بروکینگزنے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ علی عبداللہ صالح کی حکومت القاعدہ کے بارے میں دوہرے معیار کی پالیسی اپنا ئے ہوئے ہے یہ ادارہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ یمنی حکومت اس وقت القاعدہ کوشمالی یمن کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے کا  بہترین ذریعہ سمجھتی ہے اس کے علاوہ امریکہ کویمن میں فوجی مداخلت کرنے میں اس لئے بھی مشکلات کا سامنا ہے کہ پورے یمن کے لوگ امریکہ مخالف جذبات رکھتے ہيں چند دنوں قبل یمن کے علماء نے اپنے ایک اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ اگرامریکہ نے ان کے ملک میں فوجی مداخلت کی تو وہ یمن میں ہرطرح کی غیرملکی فوجی مداخلت کے خلاف جہاد کا اعلان کردیں گے  ۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button