سعودی عرب

سعودیہ کے مفتی کی اپنی 5 سالہ بیٹی کیساتھ زیادتی، جان سے مار دیا

سعودیہ کے مفتی کی اپنی 5 سالہ بیٹی کیساتھ زیادتی، جان سے مار دیاشیعت نیوز (ریاض) سعودیہ کے مفتی فيحان الغامدی کی اپنی 5 سالہ بیٹی کے ساتھ جنسی درندگی، بدترین تشدد کے بعد جان سے مار دیا۔ تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی ایک عدالت نے وہابی مفتی جانب سے کی اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی اور بدترین تشدد کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اتارنے کا جرم ثابت ہونے پر ایک وہابی مذہبی شخصیت فيحان الغامدی کو آٹھ سال قید جبکہ آٹھ سو کوڑوں کی سزا سنائی ہے۔ مقامی اور عالمی سطح پر شدید عوامی ردعمل کا باعث بننے والے اس مقدمے میں عدالت نے فيحان الغامدی کو اپنی سابقہ بیوی اور بچی کی ماں کو بطور خون بہا دس لاکھ ریال ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بچی کی ماں کے وکیل ترکی الرشید نے بتایا کہ مدعی نے ہرجانے کے طور پر ایک کروڑ ریال کا مطالبہ کیا تھا۔ الرشید کے مطابق اس جرم میں غامدی کی مدد کرنے والی اس کی دوسری بیوی کو عدالت نے دس مہینے قید اور ایک سو پچاس کوڑوں کی سزا سنائی۔ وکیل نے بتایا کہ غامدی اپنی پانچ سالہ بیٹی لمی کے ریپ اور قتل کا مجرم ثابت ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ شدید زخمی لمی کو پچیس دسمبر، دو ہزار گیارہ میں ہسپتال داخل کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا کہ لمی کی کھوپڑی، پسلیاں اور بایاں ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، اس کے علاوہ بچی کے جسم پر زخموں اور جلنے کے نشانات بھی تھے۔ لمی کئی مہینے ہسپتال میں علاج کے بعد انتقال کر گئی تھی۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں اسلام کے خلاف ایسے ہی وہابی و سلفی مفتی اسلام کو بدنام کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ انسانیت کو دین کا درس دینے والے خود ایسے گھٹیا اور پست کام میں ملوث ہیں کہ دوسروں کی اصلاح کرنا ممکن ہی نہیں۔ یاد رہے کہ ایسا گھٹیا اور پست فطرت کام صرف بے ضمیر انسان ہی کر سکتا ہے۔ باضمیر انسان ایسے کام کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ جبکہ اگر عدالت کو دیکھا جائے تو اس نے اتنے بڑے جرم کی سزا بہت معمولی قرار دی ہے کہ جو آدمی اپنی بیٹی سے فعل حرام کا مرتکب بھی ہے اور اس کو قتل بھی کرتا ہے۔ تو اس کی سزا اسلامی قانون کے مطابق کم از کم سزائے موت بنتی ہے جو کہ سعودی عدالت نے مجرم کو سزائے موت نہ دے کر دوسروں کو بھی ایسے جرم کرنے کے لئے ایک حوصلہ دیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مزید براں اگر ایسے ہی گناہ کا مرتکب کسی اور فرقے کا سادہ سے آدمی یا عالم دین ہو تا تو نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی ہوتی اور اور نہ دین کے رکھوالوں کی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button