سعودی عرب

سعودی شہریت یافتہ تکفیری دہشت گرد شام سے فرار کے خواہش مند ۔ سعودی شہریت کے حامل دہشت گرد مصفر کا خصوصی انٹر ویو

saudia03شام میں موجود ناصبی تکفیری گروہوں القاعدہ اور جبھۃ النصرہ سمیت فری سیرین آرمی کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف جنگ میں ملوث سعودی شہریت یافتہ ناصبی تکفیری دہشت گرد فرار کے خواہش مند ہیں۔

حال ہی میں ایم بی سی ٹی وی کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے القاعدہ دہشت گرد مصفر نے کہا ہے کہ شام میں جاری لڑائی میں بہت سے دہشت گرد فرار کے خواہش مند ہیں، مصفر کاکہنا ہے کہ شام سے فرار کرنے والے ان دہشت گردوں میں بڑی تعداد سعودی عرب کی شہریت رکھنے والے ناصبی تکفیری دہشت گردوں کی ہے۔
مصفر کاکہنا تھا کہ شام میں حکومت کے خلاف جاری دہشت گردوں کی اس لڑائی میں سعودی عرب کی شہریت رکھنے والے ناصبی تکفیری دہشت گرد و ں کی بڑی تعداد موجود ہے جو جنگ میں شریک ہے تاہم حال ہی میں ایک مسئلہ پیش آ رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام سعودی شہریت یافتہ دہشت گرد شام کی جنگ سے جان بچا کر جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں خطرہ ہے کہ فرار کی اس کوشش میں انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔
مصفر نے اس بات کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ شام سے واپس جانے کے بعد یہ تمام دہشت گرد کود سعودی عرب کی حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آسکتے ہیں۔
مصفر جو کہ خود ایک سعودی شہریت یافتہ دہشت گرد ہے کہ کاکہنا ہے کہ اس نے شام کے متعلق سوشل میڈیا پر فیس بک سمی ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس پر سعودی شیخ عدنان العرور کے لیکچر سنے تھے جس کے بعد وہ سعودی عرب سے شام کی جانب صرف شامی حکومت کے خلاف لڑائی میں شریک ہونے کے لئے آیا تھا۔
مصفر کا تعلق شام میں حکومت مخالف دہشت گرد گروہ احرار الشام سے ہے اور اس کاکہنا ہے کہ وہ شیخ عدنان کی باتوں سے کافی متاثر ہو کر شام پہنچا تھا اور یہاں آ کر احرار الشام نامی گروہ کے ساتھ منسلک ہوا تاہم یہاں چند ماہ رہنے کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ شیخ عدنان کی باتیں حقائق کے بر عکس ہیں۔
سعودی دہشت گرد مصفر کاکہنا ہے کہ وہ شام کی لڑائی میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتا ہے اور وہ اپنی ماں کی اپیل پر کہ جس نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے اور اپیل کی ہے کہ اس کا بیٹا واپس آ جائے تاہم وہ اپنے گھر واپس لوٹ کر جانا چاہتا ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں سعودی عرب کے ایک اخبار ’’وطن‘‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس وقت 14ooسعودی ناصبی تکفیری دہشت گرد شام میں عوام کو قتل کرنے اور بشارا لاسد کی حکومت کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عر ب سے جانے والے زیادہ تر دہشت گرد کم عمر اور نوجوان ہیں جنہیں سوشل میڈٖیا پر لیکچر ز اور ویڈیوز کے ذریعے ورغلا کر شام میں جہاد کے نام پر بھیجا گیا۔
مصفر نے کہا ہے کہ احرار الشام میں شامل تمام سعودی شہریت یافتہ دہشت گرد فی الفور لڑائی سے نکل کر واپس اپنے ملک جانا چاہتے ہیں تاہم یہ ان کے لئے ایک مشکل کام بن چکا ہے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ فرار کی کوشش میں یا تو وہ اب مار ے جائیں گے یا پھر گرفتار کر لئے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button