سعودی عرب

سعودی عرب دنیا کا خوفناک ترین سیاسی قید خانہ ہے

suadi 1آل سعود کی عملداری میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اتنی شدید ہے کہ اس کی جیلیں دنیا کی خوفناک ترین جیلوں میں تبدیل ہوچکی ہیں کیونکہ اس ملک میں کسی پر الزام لگانا کافی ہوتا ہے اور جس پر الزام لگتا ہے اس کو کوئی بھی حق نہیں دیا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق مصری قانوندان "محسن البہنسی” نے کل بدھ کے روز العالم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں شہریوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی ان کے حقوق کی پامالی کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ یہاں کوئی بھی شخص پرامن انداز سے گرفتار نہیں ہوتا بلکہ ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں یا خوف و ہراس کرنے والی دوسری روشوں سے انہیں گرفتار کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب میں گرفتار افراد کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی قانون نافذ نہیں کیا جاتا اور کسی ضابطے پر عملدرآمد نہيںsuadi2 کیا جاتا؛ یہاں وزارت داخلہ آل سعود کے بنائے ہوئے اپنے قوانین و ضوابط کو بھی کلی طور پر نظر انداز کرتے ہیں اور اس ملک میں گرفتار ہونے والے شخص کو وکیل کا حق
ہرگز نہيں دیا جاتا۔
انھوں نے کہا: سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کو خاص طور پر آزار و اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے بنیادی حقوق مسلسل اور بلا ناغہ پامال کئے جاتے ہیں اور یہ صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں تمام قیدیوں بالخصوص سیاسی قیدیوں کے مسلمہ حقوق کی پامالی پیشگی منصوبے اور مقررہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔
البہنسی نے کہا: اعلی سعودی اہلکار اس ملک کی جیلوں میں انسانی حقوق کی وسیع پامالی سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ان خطرناک اقدامات کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے؛ [سوال: کیا سعودی حکمران اپنے آپ کے اپنے ہی اقدامات سے روکیں گے!؟]انھوں نے کہا کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کی دو قسمین ہیں:
1۔ حقوق بلاواسطہ پامالی؛ وہ یوں کہ: قیدیوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے، انہیں لمبے عرصے تک قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے [یہ قید تنہائی کبھی کئی مہینوں تک جاری رہتی ہے]، انہیں طویل مدت تک سونے نہیں دیا جاتا؛ حفظان صحت کے حوالے سے ان کا خیال نہیں رکھا جاتا اور انہیں صفائی ستھرائی کا موقع دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے ماحول کی صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے؛ انہیں اپنے اہل خانہ سےsuadi3 رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور کوئی بھی جیل میں ان سے نہیں مل سکتا اور سب سے زيادہ وحشیانہ اور غیر اسلامی اور غیر انسانی حربہ یہ کہ ان سے ناکردہ گناہوں کے اعتراف لینے یا انہیں روحانی اذيت پہنچانے کے لئے ان کے اہل خانہ کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
2۔ حقوق کی بالواسطہ پامالی: قیدیوں کو روحانی اور نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے؛ انہیں حیثیت و آبرو کی بربادی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور انہیں ایسے کمروں کے قریب رکھا جاتا ہے جہاں دوسرے قیدیوں کو ٹارچر کیا جارہا ہوتا ہے تا کہ ان کی آہ و فریاد سن کر دباؤ میں آئیں، ناکردہ جرائم کا اعتراف کریں یا کم از کم زیادہ سے زیادہ دکھ و تکلیف میں مبتلا ہوجائیں۔ [یہاں اعتراف جرم ہی کافی ہے کیونکہ نہ کوئی عدالت ہے اور نہ کوئی وکیل اور نہ ہی قیدی کو کبھی مجسٹریٹ یا جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے]۔
البہنسی نے کہا: سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کرگئی اور سیاسی قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد 2 کروڑ آبادی کے ملک ميں بہت ہی بڑی تعداد ہے۔
انھوں نے کہا: سعودی عرب کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زيادہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور ان جیلوں میں قیدیوں کی اکثریت متعدی اور وائرل بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
البہنسی [جو بظاہر بحرین میں دنیا کے سب سے کم عمر سیاسی قیدی 11 سالہ علی حسن کی حالت سے بے خبر ہیں] نے کہا کہ سعودی عرب میں گرفتاری کے وقت شدید ترین اور ہولناک ترین روشیں اپنائی جاتی ہیں جس کی مثال دنیا کے کم عمر ترین سیاسی قیدی "ثامر بن عبد الكريم بن يوسف الخضر” ہیں [جن کا تعلق اہل سنت سے ہے اور القصیم یونیورسٹی میں تیسرے سال کے طالبعلم تھے اور آل سعود کی مطلق العنانیت کے خلاف سرگرم عمل تھے] جن کو گرفتار کرنے کے لئے سعودی سیکورٹی والوں نے ہتھیار استعمال کئے اور پھر لوگوں کے سامنے ان کو زمین پر گرایا، نہایت وحشیانہ انداز سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ لئے اور آنکھیں پر بھی پٹی باندھ لی اور انہیں نامعلوم مقام کی طرف منتقل کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

اس میں شک نہیں ہے کہ سعودی حکمران عالم اسلام کے اکثر حکمرانوں کی مانند سو فیصد سیکولر ہیں وہ کسی بھی اخلاقی اور اسلامی ضابطے کے پابند نہیں ہیں اور ان کے فساد، فحشاء اور بدعنوانیوں کے دنیا جہان میں چرچے ہیں لیکن رائے عامہ کو دھوکا دینے کے لئے وہsuadi4 خادم الحرمین کہلواتے ہيں اور ان سے وابستہ وہابی مفتی ان کی تمام غلط کاریوں کو اسلامی رنگ دینے کا فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں اور انہیں اہل سنت کے قائدین کا نام دیتے ہیں اور جب وہ اہل تشیع پر ظلم کرتے ہیں تو مفتی حکمرانوں سے ہم آہنگ ہوکر سنی معترضین کا منہ بند کرنے کے لئے فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعہ ان کے دشمن ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی جیلوں میں حبس بے جا کاٹنے والے 30 ہزار سیاسی قیدیوں میں مطلق اکثریت اہل سنت کی ہے اس ملک میں سنی، شیعہ اور غیر مسلم سب کے سب آل سعود اور آل سعود کے گھر کی لونڈی "وہابیت” کے چنگل میں اسیر ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button