آل سعود شیعہ آبادی کا توازن بگاڑنے کے لئے صہیونیوں کی حکمت عملی پر عمل پیرا
"قدسنا خبر ایجنسی” کے ڈائریکٹر اور مشرق وسطی کے امور کے تجزیہ نگار "مہدی شکیبائی” نے فارس خبر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: سولہویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت نے حجاز کے بعض علاقوں پر قبضہ کیا اور اہل تشیع کے خلاف پابندیوں میں اضافہ ہوا اور سعودی حکمرانی قائم ہونے کے بعد یہ پابندیاں اور محدودیتیں عروج پر پہنچیں۔ آل سعود کی حکمرانی کے بعد اہل تشیع کی سرکوبی اور انہیں معاشرے میں کسی بھی مرکزی کردار سے محروم کرنا حکمرانوں کے ایجنڈے کا حصہ بن گیا اور درحقیقت شیعہ نسل کشی عبدالعزیز آل سعود کی سربراہی میں آل سعود کی سلطنت کی سیاسی اور بنیادی ترجیحات میں شامل ہوئی
انھوں نے کہا: اس سلسلے میں سعودیوں کی دیگر پالیسیاں یہ ہیں:
شیعہ علاقوں میں کاشتکاری اور زراعت کا ڈھانچہ تباہ کیا جارہا ہے؛ اہل تشیع کا تجارتی نظام تباہ کیا جارہا ہے؛ اہل تشیع کے املاک و اموال اور دولت و ثروت کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ غیر شیعہ تاجروں کو شیعہ تاجروں کے ساتھ لین دین سے منع کیا جارہا ہے اور ان تمام اقدامات کا مقصد صرف یہی ہے کہ شیعہ اکثریتی علاقوں کی آبادی کا توازن بگاڑدیا جائے. ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کو دینی اور مذہبی اعمال و عبادات سے منع کیا جارہا ہے؛ ان کی مساجد بند کی جارہی ہیں؛ انہیں نئی مساجد اور حتی قبرستانوں کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جارہی اور ان اقدامات میں حال ہی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو پالیسی آل سعود نے اہل تشیع کے خلاف اپنا رکھی ہے عیناً وہی پالیسی ہے جو صہیونی ریاست مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کی خلاف اپنائے ہوئی ہے۔
فلسطین کی مغربی کناری اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صہیونی ٹاؤن شپس کی تعمیر اور املاک کی ضبطی 1948 میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد سے صہیونیوں کی دائمی پالیسی ہے؛ صہیونی ریاست مختلف فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو دنیا کے مختلف علاقوں سے اکٹھا کرکے ان علاقوں میں بساتی رہی ہے اور اس طرح کئی علاقوں کی آبادی اس وقت صہیونی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کہا: سعودی عرب بھی شیعہ علاقوں میں بالکل یہی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور سعودیوں نے اس سلسلے میں بھی صہیونیوں سے سبق سیکھا ہے سعودی حکمران شیعیان اہل بیت (ع) کے خلاف بالکل وہی اقدامات عمل میں لارہے ہیں جو صہیونی حکمران مسلمانوں کے خلاف عمل میں لارہی ہے۔