مشرق وسطی

شام: القلمون کے شہروں میں زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں

car assad victoryرپورٹ کے مطابق شامی فوجی دستے خاص فوجی حکمت عملی کے تحت دو علاقوں سے عدرا میں داخل ہوئے اور شہر کے مشرقی علاقے کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا اور اس علاقے میں موجود متعدد خاندانوں کو پرامن مقامات پر منتقل کیا۔
شہر کا مکمل محاصرہ ہونے کے بعد مختلف علاقوں میں جھڑپیں ہورہی ہیں اور جیش الاسلام کے بےشمار دہشت گرد سرکاری دستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔
شام کے ایک عسکری ماہر علی مقصود نے العالم کو بتایا: شہر میں دہشت گردی کرنے والے تکفیریوں کی مدد کے لئے بہت سے مسلح دہشت گرد دستے مشرقی علاقے سے عدرا کی طرف آرہے تھے اور وہ در حقیقت فرانسیسیوں کے قبرستان کے مغرب سے شہر کی طرف آرہے تھے جو الضمیر کے مغرب میں واقع ہے جبکہ سرکاری دستوں کا حملہ بھی اسی سمت سے ہونا تھا چنانچہ دہشت گردوں کو شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہر قسم کے اقدام کے لئے تیار فوجی دستوں کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے ساتھیوں کی مدد کو آنے والے تمام دہشت گرد ہلاک کردیئے گئے۔
ادھر جرائم پیشہ تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش سے وابستہ الفرقان نامی ادارے نے بعض تصاویر انٹرنیٹ پر شائع کی ہیں جن میں داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں عدرا کے باشندوں کی سربریدہ لاشیں دکھائی گئی ہیں۔
اس صنعتی شہر کے رہائشی علاقے میں ان مزدوروں اور ان کے خاندانوں نے پناہ لے رکھی ہے جو جنگ زدہ محلوں سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں اور اسی علاقے میں ایسے بےشمار خاندان بھی دکھائی دے رہے ہیں جو دوسرے جنگ زدہ علاقوں سے یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں۔
ادھر القلمون کے علاقے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس علاقے کے شہروں اور قصبوں میں زندگی کی رونقیں لوٹ کر آرہی ہیں اور قارہ، دیر عطیہ اور النبک نامی شہروں کے باشندے دہشت گردوں کا صفایا ہونے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ کر آئے ہیں؛ جبکہ سرکاری افواج القلمون کے اہم شہر یبرود پر حملہ کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ یبرود مسلح دہشت گردوں کی اہم پناہگاہ سمجھا جاتا ہے اور حال ہی میں سعودی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے سرغنوں نے اسی شہر میں ملاقات کی تھی اور حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے متحد ہونے کا اعلان کیا تھا، اس ملاقات نیز اتحاد کے تمام اخراجات سعودی انٹیلجنس چیف بندر بن سلطان نے برداشت کئے۔
واضح رہے کہ قارہ، دیر عطیہ اور النبک پر سرکاری کنٹرول کے بعد بیشتر دہشت گرد فرار ہوکر ریما کے زرعی علاقے میں چھپ گئے تھے جنہیں وہاں فوج کی شدید کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی تعداد میں دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر یبرود کی طرف فرار ہوئے۔ اور اب یبرود فوجی کاروائی کا اگلا ہدف قرار پایا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button