مشرق وسطی

اوبامہ کی مکارانہ چال

obama_iraqعراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل کے طولانی ہونے کے بعد امریکی صدر باراک اوبامہ نے عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے نام جن کوعراقی عوام میں بہت زیادہ احترام حاصل ہے ایک خط ارسال کرکے درخواست کی ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل کے عمل میں مداخلت کریں، اورجلد سے جلد نئی حکومت بنائے جانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں ۔ امریکی صدر نے اپنے اس خط میں سن دوہزارچھ کےعراق کے بحران کوختم کرنے ميں عراق کی شیعہ مرجعیت کے اہم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آيت اللہ سیستانی وہ واحد شخصیت ہیں جو عراق کے موجودہ بحران کوحل کرسکتے ہيں ۔ اس درمیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی عراق میں اقوام متحد کے خصوصی ایلچی ایڈملکرٹ کی رپورٹ سننے کے بعد عراقی پارلیمان کے ممبران سے کہا ہے کہ وہ بنیادی آئین کے مطابق جلد سے جلد حکومت سازی کے عمل کویقینی بنائيں جس میں عراق کے سبھی گروہوں کونمائندگی حاصل ہو۔
امریکی صدر باراک اوبامہ کی طرف سے یہ درخواست ایک ایسے وقت آئی ہے جب عراق میں متعدد ایسے گروہ ہيں جن کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے بعض سیاسی گروہوں کوعراق کی آئندہ حکومت سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے ۔ صدر گروہ کی ایک رہنما محترمہ مہا الدوری نے العالم سے اپنی گفتگومیں کہا کہ چونکہ صدرگروہ عراق پر امریکی قبضے کا سخت مخالف ہے اس لئے امریکہ کوشش کررہا ہے کہ صدر گروہ کوآئندہ بننے والی حکومت سے دور رکھا جائے ۔ اس درمیان عراق کے نیشنل الائنس کے ایک رہنما جمعہ العطوانی نے بھی کہا ہے کہ امریکہ، عمار حکیم کےدھڑے نیشنل الائنس کو بھی آئندہ حکومت سے دور رکھنے کی کوشش کررہا ہے امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ عراقی حکومت، ایاد علاوی کی العراقیہ جماعت ، کردوں کے اتحاد اورنوری مالکی کے اتحاد، حکومت قانون جیسے دھڑے مل کربنائيں جمعہ العطوان کا کہنا ہے کہ امریکہ ایسا کرکے حکومت بننے کے بعد صدرگروہ کے رہنماؤں کوگرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اسی لئے عراق میں بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایک تشہیراتی اقدام کے تحت اوراپنی ناکامیوں پرپردہ ڈالنے کے لئے عراق کے شیعہ مرجع تقلید کا سہارالینے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح وہ عراق میں اپنی مداخلت پربھی پردہ ڈال سکے۔
اس درمیان روزنامہ القدس العربی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ عراق کے بارے میں باراک اوبامہ اورجارج بش کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہيں ہے بظاہر جوفرق ہے وہ یہ کہ جارج بش طاقت اورتشدد کا استعمال کرتے تھے اور باراک اوبامہ سافٹ پاور کا استعمال کرتے ہيں مگردونوں کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے عراق پر قبضہ برقراررکھنا اوراس ملک کی دولت وثروت کو لوٹنا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button