مشرق وسطی
اوبامہ کی مکارانہ چال
![obama_iraq](images/stories/2010/06/obama_iraq.jpg)
امریکی صدر باراک اوبامہ کی طرف سے یہ درخواست ایک ایسے وقت آئی ہے جب عراق میں متعدد ایسے گروہ ہيں جن کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے بعض سیاسی گروہوں کوعراق کی آئندہ حکومت سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہے ۔ صدر گروہ کی ایک رہنما محترمہ مہا الدوری نے العالم سے اپنی گفتگومیں کہا کہ چونکہ صدرگروہ عراق پر امریکی قبضے کا سخت مخالف ہے اس لئے امریکہ کوشش کررہا ہے کہ صدر گروہ کوآئندہ بننے والی حکومت سے دور رکھا جائے ۔ اس درمیان عراق کے نیشنل الائنس کے ایک رہنما جمعہ العطوانی نے بھی کہا ہے کہ امریکہ، عمار حکیم کےدھڑے نیشنل الائنس کو بھی آئندہ حکومت سے دور رکھنے کی کوشش کررہا ہے امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ عراقی حکومت، ایاد علاوی کی العراقیہ جماعت ، کردوں کے اتحاد اورنوری مالکی کے اتحاد، حکومت قانون جیسے دھڑے مل کربنائيں جمعہ العطوان کا کہنا ہے کہ امریکہ ایسا کرکے حکومت بننے کے بعد صدرگروہ کے رہنماؤں کوگرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اسی لئے عراق میں بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایک تشہیراتی اقدام کے تحت اوراپنی ناکامیوں پرپردہ ڈالنے کے لئے عراق کے شیعہ مرجع تقلید کا سہارالینے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح وہ عراق میں اپنی مداخلت پربھی پردہ ڈال سکے۔
اس درمیان روزنامہ القدس العربی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ عراق کے بارے میں باراک اوبامہ اورجارج بش کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہيں ہے بظاہر جوفرق ہے وہ یہ کہ جارج بش طاقت اورتشدد کا استعمال کرتے تھے اور باراک اوبامہ سافٹ پاور کا استعمال کرتے ہيں مگردونوں کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے عراق پر قبضہ برقراررکھنا اوراس ملک کی دولت وثروت کو لوٹنا ۔