عراق

عراق کے سنی علماء عمامے اتار کر فوج کے ہمراہ جہاد کرنے کو تیار

sunniullmaعراق کے وزیراعظم نوری المالکی نے کہا ہے کہ آیت اللہ سیستانی کے فتویٰ کے بعد دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور دہشت گردوں کے لیے اب ہلاکت اور فرار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ یاد رہےآیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے جہاد دفاعی کا حکم جاری کیا ہے، جسے واجب کفائی قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف معروف اہل سنت عالم دین مفتی امینی نے کہا ہے کہ داعش کے اس گروہ کا اہل سنت والجماعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی فوج کہے گی، ہم عمامہ اتار کر فوجی کی وردی پہن کر ان دشمنان ملک و ملت سے جہاد کریں گے۔
اس وقت سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی اپیل پر عراقی سنی شیعہ عوام باہر نکل آئے ہیں اور دہشت گردوں کے چنگل سے اپنے ملک کا چپہ چپہ چھڑانے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے کمربستہ ہوچکے ہیں۔ اس وقت تک 15 لاکھ سے زیادہ عراقی عوام رضا کارانہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ آزمائی کے لیے اپنا نام لکھوا چکے ہیں، جبکہ ذمے دار حکام کا یہ کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں عوام، رضاکارانہ طور پر اپنا نام لکھوانے کے لیے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے یہ تعداد 15 لاکھ سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو جائے گی۔ اس کے لیے حکومت نے بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ علاقے کی خاندانی حکومتیں جہاں ایک طرف داعش کو دہشت گرد گروہ قرار دے رہی ہیں، وہیں پر عراق کی داخلی صورت حال کو شیعہ سنی تناظر میں پیش کر رہی ہیں۔11 اہل سنت علماء کو موصل میں داعش دہشت گرد اپنی بیعت نہ کرنے پر سفاکانہ طریقے سے قتل کرچکے ہیں، جن میں موصل کی سنی جامع مسجد کے امام بھی شامل ہیں۔
اردن کے دہشت گرد گروہوں نے بھی داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اگر ان ہمسایہ ممالک نے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں سے اپنی حقیقی لاتعلقی کا اظہار نہ کیا تو اس کے نتائج خود انھیں بھی جلد بھگتنا پڑیں گے۔
شام میں داعش سمیت تمام گروہ تین برس تک اپنی قسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ وہاں تو انھیں واضح طور پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی لیکن وہاں آخر کار انھیں پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تکفیری دہشت گرد عراق میں جمع ہو رہے ہیں۔ انھیں عراق میں شام سے زیادہ عبرت ناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔عراق کے حالات کو سنبھلنے میں اتنی دیر نہیں لگے گی جتنی شام کے حالات کو سنبھلنے میں لگی ہے۔ اسی طرح عراق میں دہشت گردوں کی شکست کے ہمہ گیر مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ اچھا ہوگیا کہ شام کے فوری بعد اب یہ تمام گروہ عراق میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور عراق کی ابھرتی ہوئی عوامی مزاحمت ان کے مقابلے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک ہی مرتبہ اس سرزمین پر ان کا صفایا ہوجانے کے بعد عرب خطے میں ایک نئی طاقتور عوامی اسلامی ریاست ابھرے گی، جو نئی اسلامی بیداری کا سرچشمہ بن جائے گی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button