عراق

آیت الله محسن الحکیم (ره) کا وہابی عالم بن باز سے زبردست مناظرہ

mohsin al hakimوھابی حضرات ظواہر قرآن کو حجت مانتے ہیں، یعنی قرآن کے جو الفاظ ہیں ان کا ظاہری معنیٰ ہی حجت رکھتا ہے اور ان کے عقیدے کے مطابق ان کی تاویل یعنی کا باطنی معنیٰ بیان کرنا درست نہیں ھے۔ عالم تشیع کے ایک بہت جید عالم دین اور مرجع تقلید حضرت آیت الله العظمیٰ محسن الحکیم مرحوم جب زیارت بیت الله الحرام کیلئے مشرف ہوئے تو سعودی مفتی وھابی ”عالم بن باز” ان سے ملاقات کیلئے آیا۔ بن باز وهابیت کی تبلیغ میں مہارت رکھتا تھا اور مفتی بھی تھا۔ یہ مفتی آنکھوں سے نابینا تھا۔

اُس نے مختصر ابتدائی گفتگو کے بعد آیت الله حکیم سے کہا:
آپ شیعه علماء آیات قرآن کی تأویل کیوں کرتے ہیں؟
آیت اللہ حکیم نے جواب دیا :مگر اِس میں کیا قباحت ھے ؟
بن باز نے کہا: اس تاویل کرنے میں بہت اعتراض اور اشکال ھے!
آیت الله حکیم نے اُس سے کہا:
ممکن ہے کہ بعض آیات قرآن کیلئے ہم لازمی تأویل کنریں.
بن باز نے دوبارہ کہا: یہ کام کسی بھی وجہ سے لازمی نہیں ہے.
آیت الله حکیم : شاید تاویل کرنا لازمی اور ضروری ہو اور بن باز اِس بات پر اصرار کر رھا تھا کہ تاویل کرنا کسی صورت ضروری نہیں ھے!

آیت الله حکیم نے آخر میں ایک جملہ کہا:
ممکن ھے کہ قرآنی آیات کی تاویل کرنا لازمی ہو مثلاً یہ آیه شریفه کہتی ہے:
من کان فی هذه اعمیٰ فهو فی الاخره اعمی و اضل سبیل،[ اسراء/ 72]”جو کوئی بھی اس دنیا میں اندھا اور کور است وہ آخرت میں بھی اندھا اور (دوسروں کی نسبت )زیادہ گمراہ ھے!”

اگر ہم اس آیت کی تأویل نہ کریں اور اس میں بیان شدہ کوری اور اندھے پن کا ظاھری معنیٰ لیں تو اس آیت کا معنیٰ یہ ہو گا که آپ جو اس دنیا میں اپنی چشم کی کوری میں مبتلا ہیں اور نابینا ہیں، آخرت آخرت میں بھی اندھے اور نا بینا ہوں گے!!. لیکن اگر اس اندھے پن کی تأویل کنیم اور اس کے ظاھری معنیٰ کے بجائے اس کا باطنی معنیٰ مراد لیں کہ جو بھی اس جهان میں دل کے اندھے پن یا کوری دل میں مبتلا ہو جائے وہ آخرت میں بھی دل سے اندھا اور گمراهی ھے بلکه زیادی گمراہ است.

مفتی بن باز آیت اللہ حکیم کا یہ دندان شکن جواب سن کر ناراض ہو گیا اور کھڑا ہو گیا اور محفل کر ترک کرتے ہوئے نارضگی کے عالم میں کہنے لگا:
تم علمائے شیعہ سے تو کسی صورت بحث نہیں کی جاسکتی ھے!!

متعلقہ مضامین

Back to top button