عراق

عراق میں عمارحکیم کے جدت عمل کا خیر مقدم

amar hakim1حال ہی میں عمارحکیم نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ارادہ ہے کہ ملک میں حالیہ تشدد کی تازہ لہر کے خاتمے اور اس کے حل کے لئے عراق کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور قبائیلی گروہوں کی شراکت سے ملک گیر وسیع اجلاس بلایا جائے ۔ عراق کے کردستان الائنس کے رکن ” شوان طہ ” نے عمار حکیم کی اس تجویز کی بھرپور حمایت کے ساتھہ وضاحت کی ہے کہ اس ملک کے سیاسی دھڑوں کے پاس باہمی گفتگو کے لئے اس اجلاس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ یہ موقف ایسی صورت حال میں سامنے آیا ہے کہ کردستان کی اسلامی پارٹی نے بھی عمار حکیم کی اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس اجلاس کے انعقاد پر زور دیا ہے ۔ حکومت قانون ، عراق ترکمن محاذ ، عراقیہ الائنس سے وابستہ ” راہ عمل ” دھڑہ ، شہری دھڑہ ، اور عراق کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی عمار حکیم کی جانب سے ملک گیر وسیع قومی اجلاس منعقد کئے جانے کی بھرپور حمایت کی ہے اور اس کو ملک میں جاری سیاسی بحران سے باہر نکلنےکے لئے تنہا راہ قرار دیا ہے ۔ عراق میں کئی مہینوں سے سیاسی بحران جاری ہے ، اس بحران کا کچھہ حصہ اس ملک میں چند قومیتی اختلافات کی بناپر وجود میں آیا ہے اور یہ چند قومیتی اختلافات نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ عراق کے سماج کی سطح پر ظاہر ہوئے ہیں ۔ سیاسی سطح پر بغداد حکومت میں شامل گروہوں کے درمیان پرانے اور پوشیدہ اختلافات کا دوبارہ سامنے آنا کہ جس نے عملی طورپر اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں ایک طرح کا سیاسی بحران پیدا کردیا ہے ۔ وزراء اور عراق کی پارلیمنٹ و حکومت میں کردوں سے وابستہ نمایندوں کے درمیان اختلافات و باہمی آشتی کے عمل کا دھرایا جانا اور اس ملک کی حکومتی اداروں کے درمیان جاری چپقلش عراق کے سیاسی ماحول میں کشیدگی کا باعث بنی ہے ۔ اجتماعی لحاظ سے بھی عراق کے بعض شہروں کے قدیمی علاقوں کہ جہاں اندرونی اور بیرونی عناصر کی سرگرمیا ں جاری رہی ہیں میں سماجی بدامنی کا بڑھتا ہوا رواج ، ان سازشوں کا حصہ ہے اور ان سازشوں نے عراق کی ارضی سالمیت کو نشانہ بنا رکھا ہے ۔ اس صورت حال کے جاری رہنے کے ساتھہ ساتھہ عراق کے بعض سیاسی سلسلوں کی جانب سے اشتعال انگیزی پر مبنی مسائل کے پیش کئے جانے نے اس صورت حال کو پورے ملک پر مسلط کردیا ہے اس بناپر اس ملک کے علماءکرام ، مراجع عظام ، اور عراق کے سیاستدانوں نے بھی اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے کیونکہ وہ عراق کے مستقبل کو خطرے میں دیکھہ رہے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں عمار حکیم نے قومی سطح کے مذاکرات کی تجویز پیش کرکے کہ جس میں اس ملک کے تمام سیاسی و مذہبی اور قومی گروہ شریک ہوں ، ملکی مفادات کو درپیش خطرات کی طرف نشاندہی کی ہے اور ساتھہ ہی ساتھہ کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے تمام سیاسی و مذہبی گروہوں کے نظریات سامنے آجائیں اور اس بحران سے نکلنے کے لئے مناسب راہ حل نکل سکے ۔ عراق کے سیاسی و مذہبی گروہوں کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کا ایک میز پر بیٹھنا یقینا عراق میں جاری کشیدگی کی فضا سے باہر نکلنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ لیکن ابھی انتظار کرنا پڑے گا کہ عمار حکیم کی تجویز کا عراق کے سیاسی ومذہبی اور قبائیلی رہنما کس طرح کا جواب دیتے ہیں اور اس جدت عمل کا کس طرح خیرمقدم کرتے ہیں بحرحال وہ چیز کہ جو مسلم ہے یہ ہے کہ اس وقت عراق کو باہمی اتحاد و یکجہتی اور سیاسی ومذہبی گروہوں کے درمیان باہمی رابطوں کی اشد ضرورت ہے اور اس ہی ذریعے سے اس ملک کی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ اور اس راستے میں ذاتی اور گروہی مصلحتوں کو ملکی مفادات پر قربان کرنے کی بھی ضرورت ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button