عراق

عراق میں بدامنی، ملوث کون؟

iraq violence1عراق میں کچھ عرصےتک کسی قدر امن عامہ کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد ان دنوں ایک بار پھر بدامنی کے واقعات میں شدت پیدا ہوگئي ہے۔ تین جولائی کو دیوانیہ اور کربلا میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات بلاشبہ حالیہ دنوں میں ہونے والے بدترین دہشتگردانہ واقعات تھے۔ ان شہروں میں کل کے بم دھماکوں میں ایک سو سے زیادہ عراقی شہری جاں بحق اور زخمی ہوگۓ ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی عراق میں کل ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کی مذمت کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عراق کو دوبارہ بدامنی کا شکار کیوں کیا گيا ہے اور ان دہشتگردانہ واقعات میں کون لوگ ملوث ہیں؟ 

اس میں شک نہیں کہ عراق کو بدامنی اور عدم استحکام سے دوچار کرنا اور اس ملک میں فرقہ واریت اور قبائلی جنگ کو ہوا دینا بدامنی کے ان واقعات کا اصل مقصد ہے۔ جب سے عراق میں طارق الہاشمی پر مقدمہ چلائے جانے کی بات کی جارہی ہےاس وقت سے بعض قوتیں عراق کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنےکی کوشش کررہی ہیں تاکہ بغداد حکومت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ نوری مالکی کی حکومت کے آگے بھی سوالیہ نشان لگا دیں۔
اس وقت جو عراقی جماعتیں نوری مالکی کی مخالفت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کروانے کے لۓ کوشاں ہیں ان کے اس طرح کے واقعات میں ملوث ہونے کو بھی آسانی کے ساتھ مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ بعض سیاسی حلقے سعودی عرب جیسے خطے کے بعض ممالک کو بھی عراق کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں ملوث قرار دے رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سعودی عرب اور قطر یورپ کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے لبنان ، شام اور عراق جیسے خطے کے بعص ممالک میں بدامنی پھیلا کر ان ممالک کے بارے میں امریکی سناریو پر عملدرآمد کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
جن ممالک میں قومی اور مذہبی تعصبات شدید ہیں ان میں فرقہ وارانہ اور قبائلی اختلافات کو ہوا دینا ایسے ممالک کے سلسلے میں سعودی عرب اور قطر کے مخاصمانہ اقدامات کا حصہ ہے جن سے وہ دشمنی رکھتے ہیں۔
سعودی عرب ، قطر اور امریکہ نے حالیہ مہینوں کے دوران عراق اور شام کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ عراق کی جانب سے شام مخالف محاذ کا ساتھ نہ دیۓ جانے کی وجہ سے بھی خطے کے بعض عرب ممالک کی عراق دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس بات کے پیش نظر عراق کی بہت سی سیاسی شخصیات اور سیاستدانوں نے عراق میں بدامنی کے واقعات کو خطے کے بعض عرب ممالک خصوصا سعودی عرب کے مخاصمانہ اقدامات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
سعودی عرب کا شمار خطے کے ان ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے نوری مالکی کی حکومت کی تشکیل کے بعد سے کبھی بھی عراق میں عہدوں کی تقسیم کے بارے میں اپنی ناراضگی کو چھپایا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کے بحران کے نتیجے میں خطے کی موجودہ خاص صورتحال کے پیش نظر ریاض نے خطے کے بعض ممالک کے خلاف اپنے مخاصمانہ اقدامات میں اضافہ کردیا ہے۔ اس سب کے باوجود ایک چیز واضح ہے ۔ وہ یہ کہ خطے کے کسی بھی ملک میں بدامنی پورے خطے کے لۓ نقصان دہ ہوگی حتی سعودی عرب اور قطر جیسے امریکہ کے حلقہ بگوش بھی خطے کے بعض ممالک میں پیدا ہونے والی بدامنی کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button