شام میں کشیدگی ختم کرنے کے لئے تہران کانفرنس
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں شام میں امن و آشتی کے قیام کے لئے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔
اس اجلاس میں شام کے قومی مصالحت کے وزیر سمیت مختلف سیاسی، قومی، لسانی اور قبائلی رہنما نے شرکت کی اور یہ پہلا موقع ہے کہ بشار اسد حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں نے براہ راست مذاکرات کئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے افتتاحی خطاب میں کہا ہےکہ تہران میں شام کے قومی مذاکرات حقیقت میں شام کے عوام کے دشمنوں اور دہشتگردوں کی شام میں کھلی مداخلت کا ٹھوس جواب ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمنوں اور دہشتگردوں نے شام کی قوم اور اس کی پرانی تہذیب کو نشانہ بنایا ہے۔
وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے شام کے گروہوں کے قومی مذاکرات کی نشست میں مزید کہا کہ اس نشست کا نعرہ "تشدد نہیں جمہوریت ہاں” ہے ۔
انھوں نے کہا کہ تہران نشست کا مقصد شام میں امن قائم کرنا اور شام کو صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے دوبارہ تیار کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم ایسے حال میں تہران میں جمع ہوئے ہیں جب صہیونی ریاست غزہ پر حملے کررہی ہے اور تمام عالمی اصولوں اور قوانین کو پامال کررہی ہے۔
علی اکبرصالحی نے کہا کہ اگر یہ اجلاس کامیاب رہے تو ایران شام کے گروہوں اور حکومت کے درمیاں سنجیدہ مذاکرات کرانے کی غرض سے تہران میں سیکریٹريٹ قائم کرنے کو تیار ہے۔
تہران میں مقیم تجزیہ نگار ڈاکٹر جعفر رضی خان نے اس کانفرنس کے اہداف و مقاصد کے حوالے سے ریڈيو تہران کو انٹرویو کے دوران تہران اور دوحہ کانفرنس کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران کانفرنس شام کے عوام کی امنگوں اور خود ان کی اپنی آراء کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی کیونکہ اس میں شامل مختلف سیاسی، مذہبی، قومی، لسانی اور قبائلی نمائندے شامی عوام کی نمائندگی کررہے ہیں جبکہ کچھ عرصہ پہلے دوحہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس امریکہ اور اسکے بعض عرب اتحادیوں کی ایما پر منعقد ہوئی اور اس میں شام سے باہر رہنے والے نام نہاد عوامی رہنماؤں نے شرکت کی۔ دوحہ اجلاس کا ہدف تشدد کی حمایت اور شام میں بدامنی کو پروان چڑھانا تھا۔ دوحہ کانفرنس امریکی اور اسرائیلی ایجنڈا تھا جبکہ تہران میں منعقدہ حالیہ کانفرنس مثبت اہداف اور خود شامیوں کی آراء کی روشنی میں منعقد ہورہی ہے اور یہ شامی عوام کا ایجنڈا ہے۔
ادھر خطے کی حالیہ صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام میں بشاراسد کی حکومت کی تبدیلی اور شام میں بدامنی کا مقصد اسرائیل کو ایک بڑے خطرے سے نجات دلانا ہے، امریکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کا خواہاں ہے جبکہ ایران، شام، لبنان اور عراق اس راستے میں رکاوٹ ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ عالمی سامراج مختلف بہانوں سے ایران، شام، لبنان اور عراق میں شیطانی چالیں چل رہا ہے۔ امریکہ اور اسکے حواری اسرائیل کے حلاف مزاحمت کی بنیاد اور جڑ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کو تو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا سکا ہے اب مزاحمت تحریک کی شاخوں یعنی شام اور حماس کو کاٹ کر مزاحمت کے شجر سایہ دار کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اس اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پہلے کی طرح اب بھی شکست سامراج کا مقدر بنے گی۔