ایران

رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا نماز عید میں خطبے سے خطاب

shiitenews ayyat ulla ali khamnaiخطبہ اوّل
بسمہ اللّٰہ الرحمٰن الرَّحیم۔
الحمد للّہ ربّ العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضیّن۔
    میں آپ نماز گزار بہن بھائیوں اور امت مسلمہ کی خدمت میں عید سعید فطر کی تہنیت و تبریک پیش کرتا ہوں اوراس مبارک موقع پر خداکی بارگاہ میں دست دعا ہوں کہ ِاس شریف اور مبارک دن اپنی رحمت اور فضل و کرم کو تمام دنیا کے مسلمانوں کے شامل حال فرمائے ،اُن کی ماہ رمضان کی اطاعت و عبادات کو بہترین شکل میں قبول کرے اور اِس دن کو امت مسلمہ کےلئے حقیقی عید قرار دے۔
ماہ رمضان کے قیمتی نتائج!
    اِس ماہ مبارک رمضان میں بہت سے لوگوں کو اِس بات کی توفیق و سعادت حاصل ہوئی کہ اُنہوں نے بہت سے قیمتی نتائج کو حاصل کیا اور یہ ایسے نتائج ہیں جو آئندہ ماہ رمضان تک کے تمام عرصے بلکہ بعض مواقع پر اُن کی پوری عمر کے لیے برکت کا سبب ہوں گے ۔
    کچھ لوگوں نے قرآن سے اُنس والفت کا رشتہ جوڑا ،قرآنی تعلیمات سے بہرہ مند ہوئے اور اُن میں تدبر کیا ،کچھ لوگوں نے خداوند ِ عالم سے مناجات اور اُنس کو اپنے لیے انتخاب کیا اور اپنے قلوب کو نورانی بنایا ۔لوگوں نے روزہ رکھے اور اور روزوں کے ذریعے اپنے نفس میں ایک خاص قسم کی نورانیت و پاکیزگی پیداکی اور یہی نورانیت و پاکیزگی اُن کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں بہت ہی برکتوں کا سبب بنے گی ۔
نفس کی پاکیزگی و نورانیت کا فائدہ!
    نفس کی یہ پاکیزگی و طہارت اور نورانیت ‘انسان کو مثبت فکر اور نیک اندیشی عطاکرتی ہے اور حسد،بخل ،تکبر اور شہوت جیسی روحانی بیماریوں سے نفس کو پاک کرتی ہے۔انسان کے نفس میں نورانیت اور پاکیزگی کی پیداہونا معاشرے میں روحی اور معنوی امن وسکون کے اسباب کو مہیا کرتا ہے ،دلوں کو ایک دوسرے سے قریب کرتا ہے ،اہل ایمان کو ایک دوسرے کی نسبت مہربان بناتا ہے اور ایک باایمان معاشرے میں ایک دوسرے کےلئے رحمدلی کے جذبات کو وسعت بخشتا ہے ۔ یہ سب ماہ مبارک رمضان کے نتائج ہیں جو کامیاب اورسعادت لوگوں کے شامل حال ہوئے ہیں ۔
تقویٰ کا مقصداپنے نفس کو لگام دینا ہے !
    اِس خدائی مہینے کا ایک اور نتیجہ تقویٰ ہے کہ جس کے لیے سورہ بقرہ آیت 183میں ارشاد پاک ہے :”لعلّکم تَتَّقُوْنَ ”شایدتم متقی بنو !کسی شاعر کے بقول ”دستی کہ عنان خویش گیرد”یعنی جو ہاتھ اپنی لگام خود تھام لے ! تقویٰ کا معنی یہی ہے ۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کی لگام و مہار کو اپنے ہاتھوں میں لیتاہے لیکن اگر ہم اپنی لگام کو تھام سکیں ،اپنے آپ کو لگام دے کر مہار کرسکیں اور خود کو بدکنے اور خود کو خداوند عالم کے حرام کردہ کاموں کو انجام دینے اور حدود کو پامال کرنے سے روک سکیں تو یہ بہت بڑا ہنر ہے ۔
تقویٰ کا حقیقی مطلب!
    تقویٰ یعنی خدا کی قائم کردہ صراط مستقیم پر حرکت کرنے اور قدم اُٹھانے میں اپنی مراقبت ، تقویٰ یعنی علم و معرفت اور بصیرت کے حصول اور اِس علم و معرفت اور بصیرت کی روشنی میں قدم اُٹھانا ۔خوش بختی سے ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہوں نے اِن برکتوں کو کسب کیا ہے ۔مختلف مجالس ،تلاوت قرآن ،ذکرودعاؤں کی محفلوں اور شب قدر کے اعمال میں نوجوان مردو زن اور معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ضیافت الٰہی کے اِس دستر خوان سے بہرہ مند ہوئے ۔
ماہ رمضان کے روحانی نتائج کی حفاظت کا عزم! 
ایک زمانہ تھا کہ شاعر کہتا تھا :
دستی کہ عنان خویش گیرد؛    امروز در آستین کسی نیست
”وہ ہاتھ جو اپنی لگام خود تھامے ۔        یہ ہاتھ کسی آستین میں موجود نہیں ہے ”
    لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی لگام کو تھامنے والے ہاتھ آج بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن جو چیز یہاں بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم ماہ رمضان کے اِن نتائج کی حفاظت کریں ،ماہ رمضان سے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اُسے محفوظ بنائیں اور اِس بات کا موقع نہ آنے دیں کہ گناہ کی بجلی’ ماہ رمضان سے حاصل ہونے والے روحانی نتائج کی فصل کو جلا کر راکھ کردے۔ ہمیں چاہئے کہ راہ خدا ،خداکی جانب توجہ ،نفس کی نورانیت و پاکیزگی ،قرآن سے اُنس ،خدا سے درد دل کرنے اور دل کی باتیں کہنے اور خداوند عالم سے مسلسل رابطہ جوڑنے کے دروازے کو اپنے لیے کھلا رکھیں ۔ اگر آپ خداسے باتیں کریں گے تو خدابھی اُس کے جواب میںآپ سے باتیں کرے گا ۔”فَاذْکُرُوْنِیْ ۤ اَذْکُرْکُمْ”یعنی ‘تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔
خطبہ د وّم
یوم القدس میں بھر پور شرکت کرنے پر
امت مسلمہ کا شکریہ
     دوسرے خطبے میں ہم اپنی اور دنیا کی موجودہ حالت کی جانب اشارہ کریں گے ۔سب سے پہلے یوم القدس کے مظاہروں میں عوام کی بھر پور شرکت پر اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔میں اِس قابل نہیں ہوں کہ اپنی قوم کا شکریہ اداکروں ،اِس لیے کہ میں کسی چیز کا مالک و صاحب نہیں ہوں!یوم القدس میں شرکت عوام سے مربوط ہے اور اُنہوں نے اِس راہ میں صحیح قدم اُٹھایا۔ضروری ہے کہ ہم خدا کا شکر ادا کریں ،عوام کی بصیرت اور ہمت و حوصلے کا کہ جو اُس نے ہمارے عوام کے دلوں میں ڈالا ہے ۔اِس سال یوم القدس کے مظاہرے بہت ہی عظیم الشان تھے۔
    خطے میں رونما ہونے والے واقعات اِس بات کا سبب بنے کہ دوسری مسلمان اقوام نے سالہائے گذشتہ سے زیادہ اِس سال عالمی سامراج کے خلاف کھل کر اپنی نفرت و بیزاری کا اعلان کیا ۔ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم ظالم و خوانخوار صہیونیوں کے ظلم و شر سے فلسطینیوں اور خطے کے عوام کو دور فرمائے گا۔
نیک اعمال کی بجا آوری ،
خداکی عطاکردہ توفیق ہے 
    اِسی طرح ماہ رمضان کی روحانی محفلوں میں عوام کی بھر پور شرکت پر ہم خدا کے شاکر ہیں ۔اِن روحانی اجتماعات میں لوگوں کی کثیر تعداد ‘خداکی رحمت و لطف کی نشانی ہے۔جب بھی آپ یہ دیکھیں کہ خداجب آپ کو توفیق دیتاہے کہ آپ کوئی نیک کام انجام دیں تو خداکا شکر اداکریں ۔نیک کام کی بجا آوری اِس بات کی علامت ہے کہ خدانے آپ پر اپنا لطف و کرم کیا ہے اور آپ پر توجہ کرتاہے اور آپ کو توفیق دیتاہے۔ لیکن جب ہمیں کسی نیک کام کی توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے تو ہمیں پریشان ہونا چاہئے ،ہمیں خداکی پناہ طلب کرنی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ہم سے ایسا کون سا گناہ سرزدہواہے کہ جس کی وجہ سے خداوند عالم نے نیک اعمال کی بجاآوری کی توفیق کو ہم سے چھین لیا ہے!
اُمت مسلمہ کا اقتدار حاصل کرنا
    دنیائے اسلام میں گذشتہ چند ماہ میں بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے کہ جن کے توسط سے اُمت مسلمہ نے اپنی عوامی طاقت کی عظمت و قدرت کو تمام دنیا اور تاریخ کے سامنے پیش کیا ۔اِس سے قبل 32سال پہلے ایرانی قوم نے اپنی عوامی طاقت و عظمت اور اقتدار کو دکھایا تھا ۔ہماری عوام جان ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان عمل میں کودی اور ایک بہت بڑا انقلاب لائی کہ جس نے نہ صرف خطے کی بلکہ ایک معنی میں دنیا کی تاریخ کو تبدیل کردیا ۔
قوموں کی طاقت و قدرت کا سرچشمہ!
    آج بھی لوگ میدان عمل میں موجود ہیں ۔خطے کے مختلف اقوام کی میدان عمل میں موجودگی نے بہت سی مسدود راہوں اور بند دروازوں کو کھولا ہے ۔کون تصور کرسکتاتھا کہ خطے میں امریکا اور صہیونزم کے گماشتے یکے بعد دیگرے سقوط کرنے لگے گیں ؟!کون سوچ سکتاتھا کہ کہ ایک ہاتھ ایسا بھی ہے جو اِن بتوں کو پاش پاش کرسکتاہے ؟!لیکن یہ ہاتھ موجود ہے اور یہ قوموں کی طاقت و قدرت کا ہاتھ ہے !سب کو چاہئے کہ امت مسلمہ کو اِس نگاہ و زاویے سے دیکھیں ۔
    اُمت مسلمہ ایک ایسے ہی مضبوط و توانا ہاتھ کی مالک ہے کہ جو ذکر الٰہی، تکبیر بلند کرنے اور خداکے نام کو زبان پر لانے پر بھروسہ کرتاہے ۔اقوام نے یہ اقتدار حاصل کیا اور بہت عظیم کام انجام دیا ۔توجہ رہے کہ حکومتوں کی نابودی اور ایجنٹوں کے ہٹ جانے سے مسائل کا خاتمہ نہیں ہواہے اور نہ ہی ہوگا۔یہ تو ایک آغاز ہے ، ایک طولانی سفر کا آغاز! یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں اقوام کو بہت ہوشیار رہنے کی 
ضرورت ہے ۔ہمیں اِس سلسلے میں بہت زیادہ تجربات حاصل ہےں ۔
    اسلامی انقلاب کی کامیابی اور حکومت کی تشکیل کے بعد منافق اور دوست کے لبادے میں دشمن اپنے اپنے بلوں سے نکل آئے تاکہ راہ نفوذ حاصل کرسکیں اور حربوں اور چالوں سے انقلاب پرقبضہ کرسکیںاور موجودہ حالات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کریں ۔لیکن قوم کی ہوشیاری اور امام خمینی ؒ کی رہبری و قیادت نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
انقلابی مسلمان ہوشیار رہیں!
    مصر ،لیبیا،تیونس اور یمن سمیت دوسرے ممالک میں مسلمانوں کو اِسی ہوشیاری کی اشد ضرورت ہے ۔وہ اِس بات کا موقع نہ آنے دیں کہ اُنہیں حاصل ہونے والی تاریخی کامیابی کو دشمن اغواء کرلے ۔وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں اور فراموش نہ کریں کھ جو لوگ آج لیبیا کی سیاست میں آگے آگے ہیں اور خود کو اہل سیاست اور تمام مسائل و انقلاب کا مالک و صاحب قرار دیتے ہیں،یہ وہی افراد ہیں جو چند دن قبل تک لیبی قوم پر ظلم وستم کرنے والے افراد کے ہم پیالہ وہم نوالہ تھے !آج یہ لوگ میدان میں کود پڑے ہیں اور حالات کو اپنے مفادات کے تحفظ میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔قوموں کو ہوشیار و بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
بحرین کی مظلوم عوام پر ظلم و جفا 
اور 
غریب صومالیہ کی صورتحال!
    ایک اور بات یہ ہے کہ ہم بحرین کی داخلی صورتحال سے بہت پریشان ہیں، اِس لیے کہ بحرینی عوام پر ظلم و جفا ہورہاہے ۔اُن سے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اُن میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوتا ۔بحرینی قوم ایک مظلوم قوم ہے۔لیکن یاد رکھےے کہ ہر حرکت و قدم اُس وقت خداکے لیے ہوتاہے جب انسان کا مصمم عزم و ارادہ اُس کے ہمراہ ہو ۔بحرینی عوام کی یہ تحریک یقینا کامیاب ہوگی ۔یہ قانون فطرت تمام جگہ صادق آئے گا اور بحرین میں بھی پوراہوکر رہے گا۔
    آخری نکتہ صومالیہ کے بارے میں ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے دل کو لاحق سب سے بڑی پریشانی اور غم ،صومالی عوام کا ہے ۔ہماری عوام نے الحمدوللہ بہت مدد کی لیکن اِس سے زیادہ ان کی امداد کرنی چاہئے تاکہ اُن کی یہ پریشانی برطرف ہوجائے۔
والسلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ترجمہ :سید صادق رضا تقوی 

متعلقہ مضامین

Back to top button