ایران
مؤمنین کے حقوق کی رعایت اور امام صادق (ع) کی حدیث کی تشریح

آپ نے مندرجہ ذیل حدیث شریف کا حوالہ دیا جو "ابان بن تغلب” سے نقل ہوئی ہے:
«عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَعَرَضَ لِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا كَانَ سَأَلَنِي الذَّهَابَ مَعَهُ فِي حَاجَةٍ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَذْهَبَ إِلَيْهِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ إِذْ أَشَارَ إِلَيَّ أَيْضاً فَرَآهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا أَبَانُ إِيَّاكَ يُرِيدُ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قُلْتُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ هُوَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِ قُلْتُ فَأَقْطَعُ الطَّوَافَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ إِنْ كَانَ طَوَافَ الْفَرِيضَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ فَقَالَ يَا أَبَانُ دَعْهُ لَا تَرِدْهُ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ۔۔۔»(شافي، جلد 1، حديث 1506)
یہی حدیث الکافی میں یوں نقل ہوئی ہے:
في الكافي، عن ابان بن تغلب، قال: «كنت اطوف مع ابيعبدالله (ع) فعرض لي رجل من اصحابنا كان سالني الذهاب معه في حاجة»۔
ابان بن تغلب کہتے ہیں: ہمارے دوستوں میں سے ایک شیعہ برادر نے مجھ سے کہا تھا کہ ایک حاجت کے لئے اس کے ساتھ چلوں اور اس کے لئے ایک کام انجام دوں۔
اب ابان بن تغلب امام صادق علیہ السلام کے ساتھ خانہ خدا کا طواف کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ طواف کے اثناء میں ہی اسی برادر نے اشارہ کرکے مجھے اپنے پاس بلایا "فكرهت ان ادع اباعبدالله (ع) و اذهب اليه” پس اچھا نہ لگا کہ امام علیہ السلام کو چھوڑ دوں اور اس بھائی کے پاس چلا جاؤں اور اس کا کام سرانجام دوں۔
کتنا برا اقبال ہی انسان کی لئی کہ وہ امام معصوم (ع) کی ساتھ طواف خانہ کعبہ بجالائی۔
"فبينا انا اطوف اذ اشار الي ايضا”؛ ہم طواف کررہے تھے کہ ایک بار پھر اسی مقام پر پہنچے جہاں وہ برادر دور کھڑا ہوا تھا اور اس نے ایک بار پھر اشارہ کرکے مجھے اپنی جانب بلالیا؛ "فرآه ابوعبدالله (ع)”؛ اس بار اس پر امام علیہ السلام کی نظر پڑی اور آپ (ع) نے اسے دیکھ لیا۔
"فقال يا ابان اياك يريد هذا”؛ امام علیہ السلام نے مجھ سے سوال فرمایا: کیا اس شخص کو تم سے کوئی کام ہے؟ "قلت نعم۔قال فمن هو؟” میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: یہ شخص ہے کون؟” "فقلت رجل من اصحابنا” میں نے عرض کیا کہ وہ ہمارے دوستوں میں سے ہے اور ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے ہے”؛ "قال هو علي مثل ما انت عليه؟” فرمایا: کیا امامت کے بارے میں اس کے بھی وہی عقائد ہیں جو تھمارے ہیں؟”؛ "قلت نعم۔ قال فاذهب اليه” — میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: "پس جاؤ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے”؛ "قلت فاقطع الطواف؟ کیا میں طواف قطع کردوں؟”
فرمایا: ہاں طواف کو قطع کرو۔
اب آپ اس فقیہ کو دیکھ لیں، ابان ایک فقیہ ہیں اور اس موقع سے استفادہ کرکے ایک مسئلہ بھی سکیھنا چاہتے ہیں؛ پوچھتے ہیں: میں عبادت میں مصروف ہوں اور طواف کررہا ہوں تو کیا میں طواف کو قطع کردوں؟ "قال نعم”؛ امام (ع) نے فرمایا: ہاں! طواف کو قطع کرو۔
"قلت و ان كان طواف الفريضة؟” میں نے عرض کیا: میں طواف کو قطع کردوں خواہ وہ طواف فرضی طواف ہی کیوں نہ ہو؟
فرمایا: ہاں! حتی فرضی اور واجب طواف کے وسط میں بھی اگر کسی بھائی کو تم سے کوئی کام ہو؛ تم سے کوئی درخواست کررہا ہو؛ طواف کو قطع کرکے اس کے پاس چلا جاؤ اور اس کا کام سرانجام دو۔
"قال فذهبت معه”؛ ابان نے کہا: پس میں امام (ع) سے الگ ہوکر اس شخص کی ساتھ چلا گیا۔
"ثمّ دخلت عليه بعد فسألته فقلت اخبرني عن حقّ المؤمن علي المؤمن”؛ اس [مؤمن بھائی کی حاجت روائی] کے بعد میں ایک بار پھر بھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے مؤمن کے حقوق کے بارے میں امام علیہ السلام سے سوال کیا اور عرض کیا "مجھے مؤمن پر مؤمن کے حقوق کے بارے میں بتائیں؛ میں نے پوچھا کہ یہ کیسا حق ہے جس کا تقاضا یہ ہو کہ انسان طواف واجب کو ترک کرکے چلاجائے؟
[فقال: يا ابان] «دعه لاتردَّه»؛ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سوال کو نظرانداز کرو اور اسے نہ دہراؤ۔
"قلت بلي جعلت فداك”؛ میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں؛ کیوں نہ دہراؤں؟ میں ان حقوق سے آگہی حاصل کرنا جاہتا ہوں؛ یوں ابان نے اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے مؤمنین کے حقوق بیان فرمائے۔
یہ جو امام (ع) نے فرمایا: مزید مت پوچھو اور مت دہراؤ اس کا سبب بھی یہ تھا کہ "جب تم مؤمنین کے حقوق سے آگہی حاصل کروگے تو تمہاری ذمہ داریاں بھی بھاری ہوجائیں گی اور جب تم جان لوگے تو ان پر عمل کرنا واجب ہوجائے گا۔ یہاں روایت بہت مفصل ہے جسے ہم نقل نہیں کرتے۔ اسی طرح کی ایک روایت معلی بن خنیس سے منقول ہے جس میں معلی بن خنیس امام علیہ السلام سے دریافت کرتے ہیں کہ مؤمن کے مؤمن پر کیا حقوق ہیں؟
اس روایت کی تفصیلات اور اس کے لوازمات کی بارے میں مفصل بحثیں ہوئی ہیں لیکن روایت کا یہ حصہ ہمارے لئے اہم تھا جس کے تحت مؤمنین کے حقوق کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے جس کے لئے انسان کو طواف واجب تک بیچ میں ہی چھوڑ کر مؤمن بھائی کی مدد کے لئے جانا پڑتا ہے۔
ابنا