ایران

قم کے علماء اور طلباء و فضلاء کی رہبر معظم سے ملاقات

Aytullah-khameiniرہبر معظم نے کریمہ اہل بیت سیدہ فاطمہ معصومہ (س) کے حرم میں ہزاروں علماء، فضلاء اور طلباء کی مجمع سے خطاب فرمایا جسے اہالیان قم نے منشور حوزات علمیہ کا عنوان دیا۔
ق، 13 ذى‌القعدہ 1431 کو قم کے علماء، فضلاء اور طلباء کی اکثریت نے حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای ـ حفظہ اللہ تعالی ـ سے ملاقات کی۔ رہبر معظم نے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب فرمایا
 13 ذى‌القعدہ 1431
متن خطاب:
بسم‌اللَّہ‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّہ ربّ العالمين و الصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم محمّد و على آله  الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌۔
السّلام عليك ايّتها السّيّدة يا فاطمة المعصومة يا بنت موسى‌بن‌جعفر عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المعصومين افضل الصّلاة و السّلام‌۔
حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ آلاف التحیة و الثناء) اور آپ (ع) کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی ولادت با سعادت سے ہماری یہ عظیم ملاقات ـ جسے اساتذہ، بزرگ علماء اور حوزہ علمیہ قم کے عزیز طلباء کی موجودگی نے عظمت بخشی ہے ـ کی معاصرت، ہمیں ان دو بھائی بہن کی عظیم اور مبارک حرکت اور ان دو بزرگوں کی با معنی ہجرت کی یاد دلاتی ہے جو بلا شک ملت ایران اور تشیع کی تاریخ میں ایک تعمیری اور مؤثر حرکت و ہجرت کے عنوان سے ثبت ہوئی ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ قم کے قم ہونے اور اس تاریخی و مذہبی شہر کے عظمت پانے میں حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا کردار ایسا ہے جس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ یہ بزرگوار خاتون اور اہل بیت (ع) کے دامن میں پروان چڑھنے والی یہ نوجوان بی بی ائمہ علیہم السلام کے اصحاب و اعوان کے ہمراہ مختلف شہروں سے گذر کر راستے میں تمام علاقوں میں معرفت اور ولایت کا بیج بوکر قم تشریف لائیں اور آپ (س) کی تشریف آوری کے باعث جابر و ظالم حکمرانوں کے اس تاریک اور ظلمانی دور میں شہر قم اہل بیت (ع) کے معارف و تعلیمات  کے مرکز کے طور چمکنے لگا اور ایسے مرکز میں تبدیل ہوا جو اہل بیت (ع) کے علوم و معارف کے انوار کو مشرق سے مغرب تک پوری دنیائے اسلام میں پھیلا رہا ہے۔
آج بھی دنیائے اسلام کا معرفتی مرکز شہر قم ہے۔ آج بھی اسی دور اول کی مانند، قم ایسا فعال اور متحرک قلب ہے جو امت اسلامی کے پیکر میں معرفت، بصیرت، بیداری اور آگہی کا خون بھر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے۔ ابتدائی ایام میں شیعہ فقہ اور شیعہ تعلیمات اور پیروان اہل بیت (ع) کی پہلی کتابیں اسی شہر سے نکلیں۔ فقہاء، علماء اور محدثین کے لئے قابل اعتماد اور بنیادی کتابیں شہر قم میں قم کے حوزہ علمیہ کے توسط سے میدان میں آئیں۔ محمد بن احمد بن یحیی کی کتاب "نوادر الحكمۃ”، صفار کی کتاب "بصائر الدرجات” علی بن بابویہ قمی کی کتاب «الشرائع»، برقی کی کتاب «المحاسن»، احمد بن محمد بن عيسى کی کتابیں اور دسیوں بلکہ سینکڑوں دیگر کتابیں اسی شہر میں معرض وجود میں آئیں۔ اس شہر میں ایسی شخصیات پروان چڑھیں کہ جب وہ عالم اسلام کے مختلف علاقوں کا سفر اختیار کرتے ان کی محافل فیض کی محافل ہوا کرتی تھیں۔ شیخ صدوق (رضوان اللہ علیہ)، جو اس عظیم حرکت کی تیسری اور چوتھی نسل میں سے ہیں، جب بغداد پہنچے تو اس وقت بغداد تشیع کا مرکز تھا اور حدیث کا مرکز تھا۔ شیخ صدوق کے حضور علماء، فضلاء اور بزرگ شخصیات نے اجتماع کیا اور ان سے فیض حاصل کیا؛ آپ جانتے ہیں کہ شیخ صدوق شیخ مفید (رضوان اللہ علیہما) کے استاد ہیں۔ چنانچہ قم مرکز میں تبدیل ہوا۔
آج بھی قم مرکز ہے۔ یہاں طویل عرصے کے دوران دسیوں ہزار عاشق پروانے معارف اہل بیت (ع) کے گرد طواف کررہے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں، بہت زیادہ صعوبتیں جھیلتے ہیں، اعلی اور معنوی اہداف کو مدنظر رکھتے ہیں اور ان مشکلات و مسائل کو توجہ دیئے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ شاید دنیا میں ہمیں کم ہی کوئی ایسا شہر معلوم ہو شاید ایسا شہر ہمیں معلوم ہی نہ ہو جس میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد علوم دینیہ اور معرفت و معنویت اور اجتماعی سلوک سیکھنے کے درپے ہو؛ جس میں مرد بھی اور خواتین بھی محنت میں مصروف ہوں اور شب و روز معنوی، علمی اور تہذیبی و ثقافتی مجاہدت کررہے ہوں۔ یہ آج کی تاریخ کا حوزہ قم ہے جو ایک ممتاز عالمی مقام پر فائز ہے؛ وہ قم کا تاریخی پس منظر ہے اور وہ یوں کہ تشیع کا سب سے پہلا بنیادی حوزہ اسی شہر میں تأسیس ہوا ہے۔ اور شیخ کلینی اور شیخ صدوق اور دیگر اکابرین فیض کے اسی سرچشمے سے سیراب ہوئے ہیں جن کی کاوشیں صدیوں کے دوران اہل بیت علیہم السلام کے معارف و تعلیمات کی حفاظت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
بہرصورت حوزات علمیہ ـ بالخصوص حوزہ علمیہ قم ـ تاریخ کے کسی بھی دور میں آج کی طرح عالمی افکار اور عالمی نگاہوں کے لئے قابل توجہ نہیں رہے؛ آج کی طرح بین الاقوامی اور عالمی مقدرات پر اثرانداز نہیں تھے۔ کبھی بھی حوزہ قم کے آج جتنے دوست اور دشمن نہیں تھے؛ آپ حوزہ علمیہ قم کا ساتھ دینے والے حضرات کے آج، پوری تاریخ سے زیادہ، دوست ہیں؛ آپ کے دشمن بھی زیادہ اور خطرناک ہیں۔ آج ـ حوزہ علمیہ قم ـ حوزات علمیہ کی چوٹی پر واقع ہوا ہے اور اس کی ایک ایسی حساس پوزیشن ہے۔
ایک مغالطہ
یہاں ایک مغالطہ ہے جس کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
ممکن ہے کہ کوئی کہہ دے کہ اگر حوزات علمیہ عالمی مسائل، سیاسی مسائل اور چیلنج بھرے مسائل میں داخل نہ ہوتے تو ان کے اتنے سارے دشمن بھی نہ ہوتے اور آج یہ حوزات سب سے زیادہ قابل احترام ہوتے!
یہ ایک مغالطہ ہے۔ [کیونکہ] کوئی بھی گروہ، ادارہ، بیش قیمت مجموعہ گوشہ نشینی، کنارہ کشی اور بے اثر اقدامات کے بل بوتے پر کبھی بھی رائے عامہ کے نزدیک محترم نہیں ٹہرا اور اس کے بعد بھی ایسا نہیں ہوگا۔ بےحسی کا شکار، غیرجانبدار اور دوسروں سے دوری پسند اور چلیج بھرے مسائل سے دامن بچانے میں مصروف حلقوں کا احترام صوری اور ظاہری احترام ہے جو اپنے معنی اور باطن میں بے احترامی ہے؛ [جامد اور بے جان] اشیاء کے احترام کی مانند ہے جو حقیقی احترام شمار نہیں ہوتا؛ تصاویر، تماثیل اور صورتوں کے احترام کی مانند ہے؛ احترام شمار نہیں ہوتا۔ کبھی تو یہ احترام اہانت آمیز بھی ہوتا ہے اور ظاہری احترام کرنے والے شخص کی جانب سے باطنی تحقیر و تذلیل کے ہمراہ ہے۔ وہ موجود جو زندہ ہے، فعال ہے، اثر گذار ہے، وہ لوگوں کا احترام ابھارتا ہے دوستوں کے دلوں میں، نیز دشمنوں کے دلوں میں بھی جو بظاہر دشمنی کرتے ہیں لیکن اس زندہ اور فعال موجود کے لئے دل میں احترام کے قائل ہیں۔
پہلی بات: کنارہ کشی حذف ہونے کا سبب
اولاً حوزہ علمیہ قم یا دیگر حوزات علمیہ کی کنارہ کشی حذف ہونے پر منتج ہوتی ہے۔ اگر حوزہ علمیہ معاشرے اور سیاست کے مسائل اور چیلنجوں میں داخل نہ ہو تو رفتہ رفتہ دور سے دورتر ہوجائے گا اور فراموش اور گوشہ نشین ہوجائے گا۔ لہذا شیعہ علماء ـ فردی اور وقتی استثنائات کے سوا ـ اپنے پورے وجود کے ساتھ ہمیشہ سے حوادث اور وقائع کے متن میں موجود رہے ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ علماء معاشرے میں ایک نفوذ اور گہرے اثر و رسوخ کے حامل ہیں اور یہ اثر و نفوذ اتنا گہرا اور مضبوط ہے کہ کوئی بھی علمی مجموعہ ـ خواہ وہ اسلامی ہو خواہ غیر اسلامی ہو ـ اتنی گہرائی اور اتنے اثر و نفوذ کا حامل نہیں ہے۔
علماء کی گوشہ نشینی دین کا نقصان
ثانیاً اگر علماء حاشیہ اختیار کرکے فٹ پاتھ پر چلنی کی کوشش کرتی اور گوشہ نشین ہونا چاہتی تو دین کو نقصان پہنچتا۔ علماء دین کی سپاہی ہیں، دین کی خادم ہیں اور اگر دین کو علماء سے الگ کیا جائے تو ان کا اپنا کوئی وجود ہے نہیں ہے۔ اگر علماء بنیادی مسائل سے ـ جن کا اہم اور نمایاں نمونہ عظیم اسلامی انقلاب ہے ـ کنارہ کشی اختیار کرتے اور اس کے سامنے بےاعتنائی اور بے حسی کی راہ اپناتے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین کو شدید نقصان پہنچتا جبکہ علماء کا ہدف و مقصد دین کا تحفظ ہے۔
دشمنیاں مواقع فراہم کرتی ہیں
میدان میں موجودگی اگر دشمنی کا سبب ہو بھی تو سبب خیر ہی ہے
ثالثاً اگر میدان میں موجودگی اور فعالیت دشمنیوں اور عداوتوں کو ابھارنے کا سبب ہے تو یہ دشمنیاں مجموعی طور پر خیر و خوبی کا سبب ہیں۔ دشمنیاں اور عداوتیں ہی غیرت کا سبب بنتی ہیں محرکات کو ابھارتی ہیں زندہ موجودات کے لئے مواقع معرض وجود میں لاتی ہیں۔ جب بھی علماء یا دین کے مقابلے میں عداوتیں سامنے آئی ہیں اور جب بھی کسی قوت نے دشمنی کی ہے در حقیقت یہ عداوت اور دشمنی بیدار اور آگاہ شخصیات کی جانب سے انجام پانے والے اہم اور تعمیری اقدام کے مقابلے میں سامنے آئی ہے۔ کسی وقت میں نے ایک اجتماع سے کہا کہ ایک شیعہ دشمن متعصب مؤلف کی طرف سے ایک ہی کتاب لکھی گئی تو اس کے جواب میں کئی منبع اور مرجع اور عظیم کتب لکھی گئیں۔ اسی شہر قم میں اگر ایک منحرف شخص کی جانب سے "اسرار ہزار سالہ” نامی کتاب شائع نہ ہوتی ـ جو علمانیت اور وہابیت کے افکار کا ملغوبہ تھی ـ ہمارے امام بزرگوار (رحمۃاللہ علیہ) ایک عرصے تک اپنا درس تعطیل کرکے "کشف الاسرار” جیسی عظیم کتاب نہ لکھتے؛ جس میں حکومت اسلامی کی اہمیت اور ولایت فقیہ کی ابتدائی شگوفی پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کی اس کتاب میں اس اہم فقہی اور شیعہ تفکر کو دوبارہ زیر عمل لایا گیا ہے۔ اگر 1940 کے عشرے اور 1950 کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں بائیں بازو اور مارکسسٹ عناصر اور تودہ پارٹی کی طرف سے کوئی حرکت عمل میں نہ آتی "اصول فلسفہ و روش رئالیسم” جیسی اہم اور زندہ جاوید کاوش بھی ظہور پذیر نہ ہوتی؛ لہذا یہ عداوتیں ہمارے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ جب بھی کبھی کسی عداوت اور دشمن کا اظہار ہوا حوزہ علمیہ کے نام سے ایک زندہ، بیدار اور آگاہ موجود نے بر وقت رد عمل ظاہر کیا اور نئے مواقع پیدا کئے۔ دشمنیاں مواقع پیدا کرتی ہیں؛ جب ہم بیدار ہونگے اور جب ہم زندہ ہونگے اور جب ہم غافل نہ ہونگے۔
اسی رضا خانی دور میں ہی، علماء کے خلاف وہ عداوت آمیز سلوک روا رکھا گیا جو اس بات کا باعث ہوا کہ مرحوم آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی (رضوان اللَّہ تعالى عليہ) جیسے مرجع تقلید نے دینی رسائل و جرائد شائع کرنے کے لئے شرعی وجوہات کے استعمال کی اجازت عطا کی جبکہ ماضی میں مراجع کی طرف سے ایسے اقدام کی کوئی مثال نہیں ملتی تھی، اس زمانے میں یہ ایک عجیب واقعہ تھا۔ چنانچہ دینی رسائل و جرائد کی اشاعت شرعی وجوہات اور سہم امام علیہ السلام کے ذریعے شروع ہوئی؛ دینی فورم اور حلقے شرعی وجوہات کی برکت سے معرض وجود میں آئے۔ یعنی سید اصفہانی (رضوان اللَّہ تعالى عليہ) جیسی شخصیت کے مالک دینی عالم ـ اس وقت بھی اور اس وقت بھی رائج تفکرات کے برعکس ـ  ہمارے ملک اور عالم تشیع اور شیعہ مملکت کے ثقافتی مسائل کے لئے سوچتے تھے اور اس امر میں سہم امام (علیہ السلام) کا استعمال جائز سمجھتے تھے۔ یہ وہی مواقع ہیں۔ دشمنیاں اس قسم کے عظیم مواقع پیدا کرتے ہیں۔
علماء کی غیر جانبداری دشمن کی غیر جانبداری کا سبب نہیں بنتی
رابعاً اگر علماء چیلنجوں میں غیرجانبدار رہیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ علماء اور دین کے دشمن بھی غیرجانبدار اور خاموش رہیں۔ "و مَن نامَ لَم ‌يُنَم عنہ”۔(1) اگر شیعہ علماء اپنے خلاف ہونے والے معاندانہ اقدامات اور حادثات کے سامنے ذمہ داری کا احساس نہ کریں اور میدان عمل میں قدم نہ رکھیں اپنی قابلیت کو ظاہر نہ کریں اور وہ عظیم کام جو ان کے کندھوں پر ہے، سرانجام نہ دے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دشمن اپنی دشمنی بند کرے گا؛ بلکہ اس کے برعکس، جب بھی دشمن نے ہمارے اندر کمزوری اور ضعف محسوس کیا اور ہمارے اندر بےعملی اور انفعال و بے حسی محسوس کی اس نے اپنی فعالیت میں اضافہ کیا اور ہماری طرف پیشقدمی کی۔ مغربی قوتوں نے عرصۂ دراز سے عالمی ظلم و جبر اور عالمی استکبار کا سامنا کرنے کے حوالے سے شیعہ فکر کی عظیم قابلیتوں اور توانائیوں کو پہچان لیا ہے؛ [1920 میں] عراق کے مسائل سے، [ایران میں] تمباکو [کی انگریز کمپنی کے خلاف شیعہ مرجعیت کے رد عمل جیسے] قضیئے سے؛ لہذا وہ خاموش ہونے والے نہیں ہیں؛ وہ اپنی جارحیت اور اپنی پیشقدمی جاری رکھتے ہیں۔ علماء کی خاموشی اور غیر جانبداری اور حوزات علمیہ اور علماء دشمن کی دشمنی کو کبھی بھی روک نہیں سکتی۔ چنانچہ حوزات علمیہ کی حرکت، عالمی واقعات، قومی اور بین الاقوامی چیلنجوں کے سامنے علماء کا غیرجانبدار نہ رہنا ایک ضرورت ہے؛ ایسی ضرورت جس سے غفلت نہیں کی جاسکتی۔
غلط اور انحرافی مفاہیم
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دو غلط اور انحرافی عناوین اور مفاہیم علماء اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی جانب سے اذہان میں پیدا کئے گئے۔ البتہ ان باتوں کا قولاً اور عملاً جواب دیا گیا لیکن پھر بھی [بقول مولانا روم] "رگ رگ است این آب شیرین و آب شور”، (*) ہر وقت متوجہ رہنا چاہئے ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے۔
دشمن ان دو غلط مفاہیم ـ اور درحقیقت ان دو تہمتوں ـ کو ایک تدبیر (Tactic) کے عنوان سے بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک "مولویوں کی حکومت” کا مسئلہ ہے جو وہ حربے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایران میں "مولویوں کی حکومت، علماء کی حکومت” ہے۔ اس مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے رہے، اس اصطلاح کو دہراتے رہے، اس کو فروغ دیتے رہے۔ ان کا مروجہ دوسرا مفہوم "سرکاری علماء اور غیرسرکاری علماء” کا مفہوم تھا۔
ان غلط اور انحرافی مفاہیم سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اولاً اسلامی نظام کو علمائے دین کی عظیم فکری، نظری، استدلالی اور علمی حمایت و پشت پناہی سے محروم کرنا چاہتے تھے؛ ثانیاً ذمہ دار علماء، انقلابی علماء، میدان عمل میں حاضر و موجود علماء ـ جنہوں نے دشمنوں کی دشمنیوں کے سامنے سینہ سپر تھے ـ کو اپنے وہم میں گوشہ نشینی پر مجبور کرنا چاہتے تھے، انہیں بدنام کرنا چاہتے تھے۔ یعنی علماء کی ایک قسم سرکاری اور حکومتی ہے اور علماء کی یہ قسم بری ہے! منفی ہے، قدروں کے خلاف ہے؛ اور دوسری قسم غیر سرکاری علماء کی ہے؛ یہ قسم مثبت ہے اور پاک و منزہ ہے۔
علماء اور اسلامی نظام کے آپس میں نسبت کے لئے عالم ہونا ہی کافی نہیں ہے
اسلامی نظام کے ساتھ علماء کی نسبت ایک واضح اور روشن نسبت ہے۔ نظام اسلامی کے ساتھ حوزات علمیہ کی نسبت حمایت اور نصیحت کی نسبت ہے اور میں اس کی وضاحت بھی کروں گا۔ حمایت نصیحت کے ہمراہ، دفاع و تحفظ اصلاح کے ہمراہ۔ مذکورہ دو مفاہیم حقیقتاً غلط، انحرافی اور معاندانہ ہیں۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ "مولویوں کی حکومت” کہنا اور اسلامی جمہوریہ کو اس مفہوم سے نسبت دینا، جھوٹ ہے۔ اسلامی جمہوریہ اقدار کی حکومت ہے، اسلام کی حکومت ہے، شریعت مقدسہ کی حکومت ہے، فقہ کی حکومت ہے؛ عالم افراد اور بقول ان کے مولوی افراد کی حکومت نہیں ہے۔ عالم ہونا ہی حکومتی اقتدار و قوت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ـ دنیا میں علماء کی حکومتوں سے، جنہیں میں جانتا ہوں ـ ماہیت اور ذات و جوہر کے اعتبار سے مکمل طور پر مختلف ہے۔
عالم ہونا کسی کی اہلیت کے خاتمے کا باعث بھی نہیں ہے
اسلامی جمہوری حکومت دینی اقدار کی حکومت ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی عالم دین بہت سے اقدار کا حامل ہونے کی وجہ سے دوسروں سے برتر ہو؛ وہ مقدم ہے؛ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ عالم دین ہونے کے باعث کسی کی اہلیت ہی سلب ہوجائے۔ اہلیت نہ تو عالم ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی عالم ہونے کی وجہ سے سلب ہوجاتی ہے۔ [یہاں] دین کی حکومت ہے کسی خاص طبقے اور کسی خاص مجموعے کی حکومت نہیں ہے۔ علماء کو سرکاری اور غیرسرکاری علماء میں تقسیم کرنا اور ان تقسیمات کو شائستگی اور عدم شائستگی یا لیاقت اور نالائقی (Merit & Demerit) قرار دینا بہت سنگین غلطی ہے۔ حکومت کی طرف جانا اور حکومت کے سوا کسی بھی دوسری چیز کی طرف جانا، اگر دنیا کے لئے ہو تو برا ہے، اگر ہوائے نفس کے لئے ہو تو برا ہے۔ یہ مسئلہ حکومت کی طرف جانے تک محدود نہیں ہے۔ ہم جس کسی بھی ہدف کی طرف بڑھیں اگر ہمارا مقصد ہوائے نفس ہو، ہمارا مقصد ذاتی مفادات ہوں تو یہ نالائقی ہے اور یہ قدروں کے منافی ہے؛ یہ وہی دنیا میں داخلے کا مصداق ہے جہاں فرمایا گیا ہے کہ "الفقہاء امناء الرّسل ما لم يدخلوا فى الدّنيا” (2) یہ مسئلہ حکومت کی جانب جانے کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ اگر ہدف دنیا ہو تو مردود و مسترد ہے، حکومت اور غیر حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے؛ لیکن اگر ہدف و مقصد معنوی ہو تو یہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے برترین مصادیق میں سے ہے؛ مجاہدت کے برترین مصادیق میں سے ہے؛ یہ عظیم ذمہ داریاں قبول کرنا ہے یا پھر اہلیت کے حامل افراد کی اہلیت کا تحفظ ہے۔
اگر سرکاری عالم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنا قرض ادا کرنے اور اپنی شرعی ذمہ داری نبھانے کے لئے اللہ کی خاطر اسلامی نظام کی حمایت کرتا ہے یہ بعض عہدیداروں کی حمایت کرتا ہے، تو یہ شائستگی اور اہلیت اور قدر ہے اور اگر کوئی اس وصف سے محروم ہو تو یہ نا اہلی اور اقدار کے منافی ہے۔
پس یہ دونوں مفاہیم ـ نہ علماء کی حکومت یا مولویوں کی حکومت ـ اور نہ ہی سرکاری عالم اور غیر سرکاری عالم ـ صحیح مفاہیم نہیں ہیں۔ ان مفاہیم کو انقلاب اسلامی اور نظام اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد ان مفاہیم کو آگے لانا ـ مغالطہ آمیز ہے؛ ان مفاہیم کا اس انقلاب کی لغت و ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دو مختلف حقائق اور مختلف مفاہیم
لیکن دوسری جانب سے دو مختلف حقائق اور مختلف مفاہیم بھی ہیں جو اقدار سے متعلق بھی ہیں اور اقدار آفرین بھی ہیں۔
ایک مفہوم یہ ہے کہ اسلامی نظام کو نظری اور علمی لحاظ سے علمائے دین اور حوزات علمیہ کی حمایت و پشت پناہی کی ضرورت ہے اور اسلامی نظام کو ان کی علمی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ نظام اسلامی حوزات علمیہ کی حمایت سے بہرہ مند اور علمائے دین کی حمایت کا محتاج ہے۔ نظام اسلامی کو حوزات علمیہ کی حمایت کی ضرورت ہے؛ علماء ، صاحب رائے بزرگوں اور نامی گرامی شخصیات کی حمایت کی ضرورت ہے اور ان کے سہارے قائم ہے۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حوزہ اور علماء دینی نظام سے لاتعلق نہیں ہیں۔ کوئی بھی عالم دین اور کوئی بھی خادم اسلام ایسے نظام سے لاتعلق رہے جو اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے، اسلامی محرکات کی بنیاد پر چلتا رہا ہے اور اسی بنیاد پر کام کررہا ہے، کوئی بھی عالم اپنے آپ کو اس نظام سے بیگانہ تصور نہیں کرسکتا یہ بھی ایک حقیقت ہے۔
وہ پہلی حقیقت ـ جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ـ کہ نظام حوزات علمیہ کے سہارے قائم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی نظریہ پردازی اور ایک ملک و ملت کے انتظام میں شریک تمام سلسلوں کے حوالے سے نظریہ پردازی کا کام دینی علماء کے ذمے ہے۔ صرف وہ لوگ معاشی نظام، انتظامی طریقہ کار، جنگ اور امن کے مسائل، تربیتی مسائل اور اسلام کے دائرے میں بہت سے دیگر مسائل کے بارے میں اسلام کی رائے بیان کرتے ہیں جو ان امور کے ماہر و متخصص ہوتے ہیں اور دین کی معرفت و شناخت رکھتے ہیں۔ اگر ان نظریہ پردازیوں کی جگہ پر نہ کی گئی تو مغربی نظریات، لادینی نظریات اور مادی نظریات اس خالی جگہ کو پر کریں گے۔ کوئی بھی نظام، کوئی بھی مجموعہ، خلاء میں انتظام و انصرام نہیں کرسکتا؛ ایک دوسرا انتظامی نظام، ایک دوسرا معاشی نظام اور ایک دوسرا سیاسی نظام ـ جو مادی افکار و اذہان کا پیدا کردہ ہے ـ متبادل کے طور پر آکر مستقر ہوجائے گا؛ جیسا کہ ان مسائل میں خلأ محسوس کیا گیا اور خلأ موجود تھا، یہ واقعہ رونما ہوا۔
یہ جو میں نے جامعات (یونیورسٹیوں) میں انسانی علوم (Humanities) اور ان "ذاتاً زہریلی علوم” کے خطرات کے بارے میں خبردار کیا ـ جامعات کو بھی اورحکام کو بھی ـ اس کی وجہ یہی ہے۔ یہ آج کے زمانے میں رائج انسانی علوم کے بعض مضامین ہیں جو اپنی ماہیت اور ذات کی اعتبار سے اسلامی حرکت اور اسلامی نظام کے خلاف ہیں؛ یہ علوم مختلف قسم کے تصورِ کائنات (WorldView) کے سہارے قائم ہیں؛ ان کی بات مختلف ہے اور ان کا ہدف بھی مختلف ہے۔ جب اس قسم کے علوم کو فروغ ملے، منتظمین کی تربیت ان ہی کی بنیاد پر ہوگی؛ یہی منتظمین پھر آتے ہیں اور جامعات کا انتظام سنبھالتے ہیں، ملکی معاشیات کا انتظام سنبھالتے ہیں، داخلہ اور خارجہ پالیسی، امن و سلامتی کے امور وغیرہ کا انتظام سنبھالتے ہیں۔
حوزات علمیہ اور علمائے دین اسلامی نظام کے اصلی حامی اور پشت پناہ ہیں اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ الہی متون سے اسلامی نظریات ڈھونڈ نکالیں، مشخص اور واضح کریں، ان نظریات کو نظام کے سپرد کریں، منصوبہ سازی کے لئے اور مختلف قسم کے امور کی تمہید سازی کے لئے۔
چنانچہ اسلامی نظام کے اصل حامی علمائے دین اور صاحب رائے علماء اور اسلامی نظریات ہیں لہذا نظام کا بھی فرض ہے کہ وہ حوزہ علمیہ کی حمایت کرے کیونکہ یہ حوزات نظام اسلامی کا سہارا ہیں اور تکیہ گاہ ہیں۔
علاوہ ازیں کہ اسلامی نظام ملک و ملت کا انتظام چلانے کے لئے حوزات علمیہ کا محتاج ہے۔
ایک نکتہ
ایک نکتہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ آج کل بعض شبہات سامنے آرہے ہیں اور ان شبہات و اعتراضات کا نشانہ اسلامی نظام ہے۔
دینی شبہات، سیاسی شبہات، اعتقادی اور معرفت و شناخت کے سلسلے میں شبہات کو معاشرے  کے بیچ ـ بالخصوص نوجوانوں کے درمیان ـ تزریق (Inject) کرکے داخل کیا جارہا ہے۔ جن کا ہدف و مقصد صرف یہ ہے کہ ایک شخص کو ایک فکر اور ایک سوچ سے دوسری فکر میں منتقل کیا جائے؛ ہدف یہ ہے کہ اسلامی نظام کی انسانی حمایتوں کو ختم کردیں؛ اسلام کے بنیادی اصولوں کو اذہان میں مخدوش اور متنازعہ بنادیں؛ اور ہدف، نظام کے ساتھ دشمنی ہے۔ لہذا ان شبہات کو برطرف کرنا، ان شبہات کا سامنا کرنا، معاشرے کی ذہنیت سے اس گرد و غبار کو معاشرے کی ذہنیت سے دور کرنا ـ جو علمائے دین کے توسط سے انجام پاتا ہے ـ، بھی نظام کی حمایت کی ایک اور قسم ہے۔ یہ نظام اسلامی کے لئے ایک اور حمایت ہے۔ چنانچہ اسلامی نظام مختلف پہلؤوں سے حوزات علمیہ کے نظریہ پردازوں، محققین اور علماء و اہل دانش کے سہارے قائم ہے۔
دوسری جانب سے حوزات علمیہ بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ حوزہ علمیہ، بالخصوص حوزہ علمیہ قم اس نظام کی ماں ہے؛ اس انقلاب اور عظیم تحریک کو وجود بخشنے والا اور اس کو پیدا کرنے والا، حوزہ علمیہ ہی ہے۔ ایک ماں کیونکر اپنے فرزند سے غافل ہوسکتی ہے، اس سے لاتعلق رہ سکتی ہے اور ضرورت کے وقت اس کے تحفظ سے گریز کرسکتی ہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اسلامی جمہوری نظام اور حوزہ علمیہ کا رشتہ دو طرفہ حمایت کا رشتہ ہے۔ نظام حوزات علمیہ کی حمایت کرتا ہے اور حوزات علمیہ بھی نظام کی حمایت کرتے ہیں، تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
حوزات علمیہ اور علماء کا استقلال
یہاں ایک مسئلہ درپیش ہے، میں بھی یہ مسئلہ پیش کرتا ہوں؛ اس کے بعد ان‌شاءاللَّہ حوزہ علمیہ کے اہم مسائل میں سے بعض مسائل کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ یہ مسئلہ حوزات علمیہ کے استقلال و خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ وہ یوں کہ کیا نظام کی جانب سے حوزات علمیہ کی حمایت ان حوزات کی خودمختاری کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اس میں خلل ڈال سکتی ہے یا نہیں؟ کیا یہ کام جائز ہے یا نہیں؟ یہ نہایت اہم بحث ہے۔
اول یہ کہ حوزات علمیہ اپنی پوری تاریخ کے دوران مستقل اور خودمختار رہے ہیں؛ نہ صرف تشیع کی مخالف حکومتوں کے دوران بلکہ شیعہ حکومتوں کے دوران بھی مستقل رہے ہیں۔ یعنی جب ایران میں صفویوں نے اقتدار سنبھالا اور محقق کَرَکی اور شیخ بَہائی کے والد ماجد اور بہت سے دیگر اکابرین علماء ایران تشریف لائے اور مختلف عہدوں پر فائز ہوئے، یہ علماء اور ان کے شاگرد اور ان کے مکتب میں پروان چڑھنے والے افراد کبھی بھی صفوی حکومت کے زیر تسلط نہیں آئے اور ان کے قابو میں نہیں رہے۔
ہاں! وہ حکومت کی مدد کیا کرتے تھے، تعاون کرتے تھے لیکن حکمرانوں کے قبضے میں نہیں تھے اور ان کے زیر اختیار نہیں تھے۔ قاجاری سلسلہ حکومت کے دوران بھی ایسا ہی تھا۔ کاشف الغطاء (رضوان اللہ تعالی علیہ) ـ وہ عظیم عالم دین ـ ایران تشریف لائے اور انھوں نے اپنی مشہور کتاب "کشف الغطاء” یہیں لکھی۔ انہوں نے اس کتاب کی تمہید میں بھی اور ایران ـ روس لڑائیوں کی مناسبت سے جہاد کی بحث میں بھی، [قاجاری بادشاہ] فتح علی شاہ قاجار کی تعریف و تمجید بھی کی ہے؛ لیکن کاشف الغطاء ایسی شخصیت کے مالک ہی نہیں تھے کہ فتح علی شاہ اور فتح علی شاہ جیسے کسی دوسرے حاکم کے قابو میں آتے؛ ہمارے علماء خودمختار اور مستقل تھے۔ میرزائے قمی، قم میں اپنی رہائشگاہ میں ہی اپنے زمانے کے بادشاہ کی جانب سے عزت و احترام پاتے ہیں لیکن بادشاہ کی درخواست ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کا تسلط قبول نہیں کرتے۔ اس وقت کے حکمران میرزا سے اپنی مرضی کا فتوی لینا چاہتے تھے وکالت حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن میرزا نے قبول نہ کیا۔ میرزائے قمی کا ایک رسالہ ہے جس کا نام انھوں نے "رسالہ عباسیہ” رکھا ہے جس میں انھوں نے باب جہاد میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ رسالہ آج سے چند ہی برس قبل پہلی بار شائع ہوا۔ حکمران ان سے اس انداز سے سوال کرتے ہیں کہ وہ فتوی دیں اور حکم دیں تاکہ [حکام] ان کے نائب بن کر جہاد کریں ـ میرے خیال میں یہ داستان "جامع الشتآت” میں بھی نقل ہوئی ہے ـ بہر حال مرحوم میرزائے قمی حکومت کی درخواست قبول نہیں کرتے؛ شیعہ علماء ہمیشہ سے ایسے ہے تھے، ہمیشہ مستقل اور خودمختار رہے؛ کبھی بھی طاقتوں کا آلہ کار نہیں بنے، آج بھی ایسا ہی ہے، اس کے بعد  بھی اسی ایسا ہی ہونا چاہئے اور اللہ کی توفیق سے مستقبل میں بھی علماء ایسے ہی ہونگے۔
احتیاط
لیکن یہاں بھی آپ کو احتیاط اور توجہ کرنے کی ضرورت ہے یہاں "ایک مغالطہ” پیش نہ آئے؛ حوزات علمیہ کے استقلال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت حوزہ کی حمایت نہ کرے اور حوزہ بھی نظام کی حمایت نہ کرے۔ بعض قوتوں کی یہی خواہش ہے۔ بعض لوگ "حوزہ کی خودمختاری” کے بہانے اور خودمختاری کے نام سے، اسلامی نظام اور حوزات علمیہ کے درمیان تعلق اور رشتے کو ختم کرنا چاہتے ہیں؛ یہ ممکن نہیں ہے۔ وابستگی الگ چیز ہے اور حمایت الگ چیز ہے، تعاون الگ چیز ہے ۔ نظام اسلامی حوزہ علمیہ کا مرہون منت ہے؛ چنانچہ اس کو حوزہ علمیہ کی حمایت کرنی چاہئے۔ البتہ طلباء کی معیشت معمول کی روایت کے مطابق ـ جو رمز و راز سے بھرپور اور بہت با معنی روایت ہے ـ کے مطابق عوام کے توسط سے ہی فراہم ہونی چاہئے؛ عوام اپنی شرعی وجوہات [خمس، زکاة  و صدقات و کفارات وغیرہ] حوزہ کو ادا کریں؛ یہ میرا اعتقاد ہے۔
انسان جتنا بھی اس قدیم روایت میں غور کرتا ہے ـ جو ایک یا ڈیڑھ صدی سے ہمارے حوزات علمیہ میں رائج ہے ـ اس کو زیادہ اہم، زیادہ راز و رمز سے بھرپور پاتا ہے۔ حوزات علمیہ کے ساتھ عوام کے مستحکم تعلق کا راز یہی ہے جس کی بنا پر عوام حوزہ علمیہ کے ساتھ قریبی رشتے کا احساس رکھتے ہیں۔ عوام عالم دین سے بہت زیادہ توقع بھی نہیں رکھتے مگر اپنے آپ کو حوزات علمیہ اور مخلص علماء کی مالی حمایت کا پابند سمجھتے ہیں؛ اور یہی درست ہے۔
تا ہم حوزہ کے مسائل صرف معیشتی مسائل نہیں ہیں۔ حوزات علمیہ کے ایسے اخراجات بھی ہیں جو بیت المال مسلمین کی مدد اور حکومتوں کی مدد کے بغیر کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کئے جاسکتے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان اخراجات کو برداشت کریں۔ حکومتوں کی مداخلت بھی نہیں کرنی چاہئے [اور حوزہ کے خاص قسم کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہئیں]۔ مختلف شہروں میں بہت سے مدارس امراء اور سلاطین اور بزرگوں نے بنائے ہیں۔ مشہد مقدس میں تین مدارس ایک دوسرے کے برابر میں ایک ساتھ ہی بنائے گئے ہیں: "مدرسۂ نواب”، "مدرسۂ باقریہ” اور "مدرسۂ حاج حسن”۔ یہ تینوں مدارس ایک صفوی سلطان کے دور میں ان ہی کے حکم پر تعمیر کئے گئے تھے۔ اس میں کوئی عیب بھی نہیں ہے۔ مدرسۂ باقریہ ـ جہاں "ذخیرہ” اور "کفایہ” جیسی کتابوں کے مصنف، "ملا محمد باقر محقق سبزواری” تدریس کرتے رہے تھے ـ ان ہی لوگوں کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ حوزہ علمیہ نظام اسلامی کی جانب سے مختلف قسم کی حمایتوں کو قبول کرتا ہے، عزت و مناعت اور وقار کے ساتھ۔ یہ حمایتیں جو آج نظام اسلامی کی جانب سے حوزات علمیہ کو فراہم کی جاتی ہیں اور اسے یہ حمایتیں بہرصورت کرنی بھی چاہئیں اور ان حمایتوں میں اضافہ بھی ہونا چاہئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ حمایتیں صرف مادی حمایتیں ہی ہوں۔ آج بحمداللہ اہم ترین اور عمومی ترین مقام و منزلت اور بیانِ موقف کے بہترین و برترین مواقع حوزہ علمیہ کے فضلاء اور مراجع عطام کے ہاتھ میں ہیں؛ یہ بھی ان کے لئے نظام اسلامی کی حمایت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلامی نظام کو یہ حمایتیں کرنی چاہئیں، اسی رشتے اور پیوند کی بنا پر جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ چنانچہ مداخلت اور خودمختاری کے مسئلے کو اس سلسلے میں موجودہ حقائق کے ساتھ مخلوط نہیں کرنا چاہئے۔
دو عظیم اور مرتبط مجموعے
حقیقت یہ ہے کہ یہ دو عظیم سلسلے ـ یعنی اسلامی نظام اور اس کے بطن میں حوزات علمیہ ـ دو ایسے عظیم سلسلے ہیں جو ایک دوسرے سے مرتبط ہیں، ایک دوسری سے متصل ہیں، ان دونوں کا مقدر ایک ہی ہے؛ اس حقیقت کو سب سمجھ لیں۔ آج اس سرزمین میں علماء کا مقدر اور اسلام کا مقدر اسلامی نظام کے مقدر سے بندھا ہوا ہے۔ اگر اسلامی نظام کو تھوڑا سے نقصان پہنچے یقینا اس کا نقصان علماء، اہل دین اور علمائے دین کے لئے معاشرے کے دیگر افراد کی نسبت بہت زیادہ ہوگا۔ البتہ نظام زندہ ہے، نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہے، نظام قوی اور طاقتور ہے اور میں پورے اطمینان سے عرض کرتا ہوں کہ نظام اپنے سامنے موجود تمام چیلنجوں پر غلبہ پاکر فتح مند ہوجائے گا۔
تحول اور تبدیلی
ایک اور اہم مسئلہ ـ جو ہمیں درپیش ہے ـ اور اس کے بارے میں روشن موقف بیان کرنا ضروری ہے اور یہ مسئلہ حوزہ علمیہ ـ بالخصوص قم کے حوزہ مبارکہ ـ میں [مثبت] تحول اور تبدیلی کا مسئلہ ہے، تحول کا مطلب کیا ہے؟ حوزہ کو ایسا کونسا عمل انجام دینا چاہئے جس کو تحول کہا جاسکے؟ اگر ہم تحول کو حوزات علمیہ کے بنیادی خد و خال اور خطوط میں تبدیلی سمجھیں جیسے اسلوب اور روشِ اجتہاد میں تبدیلی ـ تو یہ قطعی طور پر ایک انحراف ہے۔ یہ تحول اور تبدیلی ہے لیکن یہ تحول سقوط اور نابودی کی جانب مائل ہے۔
شیعہ اجتہاد کیا ہے؟ تحول و تبدیلی کیا ہے؟
اجتہاد کا جو شیوہ حوزات علمیہ میں آج رائج ہے اور علمائے دین اس کے پابند ہیں یہ اجتہاد کے قویترین اور منطقی ترین شیوؤں میں سے ہے؛ یقین اور علم کی بنیاد پر قائم اجتہاد، وحی کے سہارے قائم اجتہاد؛ یعنی یہ اجتہاد ظن اور گمان سے دور ہے اور ہمارا استنباط علمی اور یقینی ہے۔ یہ جو خاص ظنون بھی ہیں ان کی حجیت بھی یقینی اور قطعی ہونی چاہئے۔ حتی ان اصول عملیہ کا اعتبار ـ جن سے ہم فقہ میں استفادہ کرتے ہیں ـ جزمی اور قطعی ہونا چاہئے۔ جب تک ایک قطعی دلیل کی روشنی میں ـ استصحاب، برائت اور اشتغال ہر ایک اپنے خاص راستوں اور مجراؤں اور چینلوں سے ـ  اس عملی اصول کے معتبر ہونے کے سلسلے میں قطع و جزم و یقین پیدا نہ کریں، اس عملی اصول سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر، فقہ میں ہمارے تمام شیوے قطع و یقین پر منتج ہوتے ہیں۔
تشیع میں اجتہاد سے مراد غیر معتبر ظنون کا سہارا لینا نہیں ہے؛ یہی جو ہمارے قدیم علماء نے "اجتہاد بالرأی”، "غیر معتبر ظنون پر قائم اجتہاد” جیسے "قیاس”، جیسے "استحسان” اور ان کی مانند دیگر اصطلاحات کا نام لیا ہے اور ان کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں: جیسے "اسمعیل بن ابی سہل نوبختی” نے "الرد علی اصحاب الاجتہاد فی احکام”،  سید مرتضی نے "الذریعۃ” میں، "شیخ طوسی نے "”عدةالاصول” میں اور دیگر و دیگر نے غیر معتبر ظنون پر قائم اس اجتہاد کو رد کیا۔ یہ اجتہاد مردود و مسترد ہے۔ آج بھی اگر بعض افراد کسی بھی نام و عنوان سے اس قسم کے اجتہادوں کی طرف رخ کریں تو یہ مردود ہے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ "دنیا ہم سے یہ بات قبول نہیں کرتی، اس فقہی بات کا دنیا میں کوئی خریدار نہیں ہے، یا یہ کہ واضح طور پر اس بات کا اظہار کریں یا اپنے دل میں رکھیں اور انہیں ایک غلط استنباط کی جانب لے جائے، یہ مردود اور مسترد ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ صرف اس لئے کہ متمدن دنیا کے عرف کا لحاظ رکھا جائے ـ وہی دنیا جو غالباً مادی دنیا ہے ـ شرعی احکام کے استنباط میں دخل و تصرف کیا گیا ہے۔ حتی اس سے بھی بدتر، صرف اس لئے کہ بعض اوقات دنیا کی مادی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کی جائے ـ رائج مادی دنیا کے عرف بلکہ مادی اور استکباری طاقتوں کے عرف کا لحاظ رکھا جائے ـ فتوی دیا گیا ہے کہ: "چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پرامن جوہری کوشش، بڑی طاقتوں کی بدگمانی کا سبب ہے لہذا یہ کوشش ممنوع ہے” اچھا، [ہم کہتے ہیں کہ] وہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں بدگمان ہوکر [یعنی انہیں بدگمانی کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔
اگر اجتہاد ان ہی درست اور صحیح شیوؤں سے یعنی کتاب و سنت کے سہارے، اور اسی معقول، منطقی اور پختہ انداز سے حساب و کتاب کے مطابق ـ سوچے سمجھے انداز سے انجام پائے تو یہ بہت اچھا ہے۔ اجتہادات ـ خواہ مختلف نتائج پر ہی منتج کیوں نہ ہوجائیں ـ بالیدگی اور ترقی کا سبب ہیں۔ ہمارے مجتہدین، ہمارے فقہاء، پوری فقاہت و اجتہاد کی پوری تاریخ میں مختلف قسم کے مسائل میں ایک دوسرے سے مختلف آراء دے چکے ہیں۔
شاگرد نے اپنی استاد کی رائے کے خلاف رائے دی ہے اور پھر اسی شاگر کے شاگرد نے اس کی رائے کے خلاف رائے دی ہے، باتیں بیان کی ہیں؛ اس میں کوئی عیب نہیں ہے؛ یہ بالیدگی اور ترقی کا موجب ہے۔ اس اجتہاد کو حوزہ علمیہ میں تقویت پہنچانی چاہئے۔
اجتہاد صرف فقہ تک محدود نہیں ہے
اجتہاد صرف فقہ کے لئے مخصوص نہیں ہے؛ عقلی علوم میں، فلسفہ میں، کلام میں، ان افراد کا اجتہاد جو ان فنون کے ماہر ہیں، بہت ضروری ہے۔ اگر یہ اجتہاد نہ ہو ہم ایک ہی جگہ کھڑا ہوا راکد پانی بن کر رہ جائیں گے۔
آج حوزہ کو دنیا کے فلسفی، فقہی اور کلامی میدانوں سے غائب نہیں رہنا چاہئے۔ دنیا میں اور مختلف مسائل میں اتنے سارے سوالات درپیش ہیں؛ حوزہ کی طرف سے ان کے سوالات کا جواب کیا ہے؟ حوزہ کو غائب نہیں ہونا چاہئے؛ منفعل نہیں ہونا چاہئے؛ یہ دونوں [غائب ہونا بھی اور منفعل  ہونا] نقصان دہ ہیں۔
نئی فکر چاہئے
نئی فکر اور نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ نت نئی ضروریات کا جواب دینا ضروری ہے جو سیلاب کی مانند دنیا میں سامنے آرہی ہیں؛ آپ کو ان سوالات کا جواب فراہم کرنا چاہئے۔ آپ کا جواب اس ضرورت کے تناظر میں ہونا چاہئے نیز دیگر مذاہب اور فرقوں کی جانب سے ان سوالات کو دیئے جانے والے جوابات کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ اگر آپ ان کے جوابات سے غفلت برتیں اور ان کو توجہ نہ دیں تو آپ کا جواب اپنا کام نہیں کرسکے گا۔ آپ کو قوی، مستحکم منطقی اور قائل کردینے والا جواب میدان میں لانا چاہئے۔ عالمی معیار کا جواب پر پیش کرنا چاہئے۔ قم کی برآمدات ـ جیسا کہ عرض کیا کہ جہان اسلام کے قلبِ معرفت ـ سے دنیا کی رگوں میں پہنچادی جائیں۔ یہ امر خوشی کا باعث ہے کہ آج تیز رفتار ابلاغی وسائل سب کے پاس ہیں۔ آپ کے پاس یہ امکان ہے کہ دنیا کے اس گوشے میں ایک اقدام کریں اور دنیا کے اس پار اسی وقت آپ کی بات کو سن لیں اور اس سے استفادہ کریں۔
مختلف شعبوں میں آج احتیاجات پائے جاتے ہیں؛ اسلامی نظام کے لئے بھی، ملکی سطح پر بھی اور دنیا کی سطح پر بھی۔ اسلام کی معرفت شناسی کی تشریح و توضیح، اسلام کے معاشی و سیاسی تفکر کی تشریح، ان فقہی اور قانونی مفاہیم کی تشریح جن کے اصول اسلام کے معاشی و سیاسی تفکر کو تشکیل دیتے ہیں، اسلامی کے تعلیمی و تربیتی نظام کی تشریح، اخلاقی اور معنوی مفاہیم کی تشریح وغیرہ وغیرہ، یہ سب علمی، دقیق اور قائل کردینے والے ہوں اور دنیا میں رائج افکار کو مدنظر رکھ کر فراہم کئے جائیں؛ یہ حوزات علمیہ کا کام ہے۔ اجتہاد کے ذریعے یہ کام قابل عمل ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو گویا ہم نے خود ہی انسان کی زندگی سے دین کے حذف ہونے میں مدد دی ہے؛ ہم نے اپنے ہاتھوں سے علماء کو گوشہ نشینی پر مجبور کرنے میں مدد دی ہے۔ یہ ہیں تحول کے معنی۔ یہ زمانے کے مطابق نو بہ نو اجتہادی حرکت و عمل، تحول و تبدیلی کی بنیاد ہے۔
کونسی چیز تحول و تبدیلی ہے اور کون سی چیز تحول نہیں ہے
میں البتہ دیگر شعبوں میں بھی عرض کروں گا کہ کونسی چیز تحول و تبدیلی ہے اور کون سے چیز تحول نہیں ہے؛ یا بالفاظ دیگر، صحیح تحول اور غلط تحول کیا ہے ۔ میں ہمیشہ یہی عرض کرتا رہا ہوں اور اب بھی یہی کہنا چاہوں گا؛ اس سے قبل بھی حوزہ کی فضلاء کے ساتھ متعدد نشستوں میں بھی ہم نے بیان کیا ہے ـ کہ تحول اور تبدیلی ایک فطری عمل ہے جو خود بخود پیش آتا ہے۔ آج مختلف النوع صنفی اور قومی مجموعوں کا در ہے نہ ہی دروازہ ہے اور نہ ہی کوئی حصار ہے؛ تاہم یا تو ہم اس تحول اور تبدیلی کی نگرانی کرتے ہیں اور اس کے لئے انتظام و انصرام اور بندوبست کرتے ہیں یا پھر ایسا نہیں کرتے اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم نے اس کو اپنے حال پر چھوڑا تو گویا ہم ہار گئے ہیں۔ حوزہ کے اکابرین و بزرگان، مراجع تقلید، مفکریں، دانشور اور فضلاء کو کمر ہمت باندھنی چاہئے، ہمت کرنی چاہئے، اس تحول کے لئے منصوبہ بندی کریں، اس کی راہنمائی کریں اور اس کا انتظام سنبھالیں۔ چنانچہ تحول کے معنی ہیں: نو بہ نو محتوائی اور اثباتی و جوہری حرکت (SUBSTANTIVE MOTION)۔
حوزہ کا تعلیمی نظام بہترین اور اسے ترک کرنا المیہ ہے
ممکن ہے کہ تحول سے غلط مطلب لیا جائے اور غلط مفہوم لیا جائے جس سے قطعی طور پر پرہیز کرنی کی ضرورت ہی: تحول و تبدیلی کا مطلب "تعلیم و تعلیم کی میدان میں حوزہ علمیہ کی روایتی اور بہت زیادہ مؤثر اور کارآمد اور مؤثر (Efficient) شیوؤں کو ترک کرنا اور انہیں آج کی رائج جامعاتی روشوں (Academic Methods) میں تبدیل کرنا” نہیں ہے۔ اس طرح کا تحول و تبدیلی اور اس قسم کی تغییر غلط اندر غلط ہے؛ یہ پسپائی اور زوال کی طرف لوٹنا ہے۔
آج ہمارے بہت سے روایتی اور قدیمی شیوے دنیا میں پہچانے جار ہے ہیں؛ بعض لوگ ہمارے ان شیووں کی تقلید کرکے یا تخلیقی اقدام کرکے ان شیوؤں تک پہنچ کر انہیں فروغ دے رہے ہیں۔ [اور پھر] ہم مغرب کے نسخوں کے مطابق قائم ہونی والے اپنی جامعات کے نظام کو حوزہ علمیہ میں رائج کریں؛ نہیں، ہم اس کو تبدیلی نہیں سمجھتے۔ اگر اس طرح کی تبدیلی واقع ہوجائے تو قطعی طور پر یہ پسپائی اور پیچھے کی جانب لوٹنے کے مترادف ہوگا؛ ہمیں یہ قبول نہیں ہے۔ ہم اپنے حوزات علمیہ میں بہت ہی اچھے اور روایتی شیوؤں سے استفادہ کررہے ہیں۔ قدیم الایام سے رسم تھی کہ طالبعلم آزادانہ انداز سے استاد کا انتخاب کرے؛ جب طالبعلم حوزہ علمیہ میں داخل ہوتا، اور آج بھی جب داخل ہوتا ہے، تو وہ اپنے لئے قابل قبول اور پسندیدہ استاد ڈھونڈنے نکلتا ہے اسے ڈھونڈ لیتا ہے اور اس کے درس میں حاضر ہونے لگتا ہے۔ دینی طالبعلمی کے کام کی بنیاد سوچنا اور تفکر کرنا، غور کرنا اور مطالعہ کرنا ہے۔ [درس کو حفظ کرنا نہیں بلکہ اس میں غور و فکرکرنا اور مطالعہ کرنا]۔ حفظ کرنے [رٹہ لگانے] کو محور بنانا، وہی چیز ہے جو آج ہماری جدید تعلیم و تربیت کے پیکر پر بلائے جان بن کر آپڑی ہے۔ اور ہم مدتوں سے اس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور ابھی بھی یہ نظام تعلیم درست نہیں ہوسکا ہے اور اس کو درست ہونا چاہئے۔ حوزہ میں ہمارا روایتی اصول تفکر کرنے سے عبارت ہے۔ ہمارا طالبعلم جب درس حاصل کرتا ہے ـ اولاًَ اس سے قبل اسی درس کا پیشگی مطالعہ کرتا ہے، اپنا ذہن تیار کر لیتا ہے؛ استاد سے درس لینے کے بعد اپنے زمیل و رفیق کے ساتھ اسی درس پر مباحثہ کرتا ہے۔ ایک بار اس کا رفیق درس کو دہراتا ہے اور ایک بار وہ اپنے رفیق کو درس سناتا ہے اور یوں وہ درس اس کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے۔ بعض حوزات علمیہ ـ خاص طور پر حوزہ نجف اشرف ـ میں استاد کے درس کی تقریر مرسوم تھی اور وہ یوں کہ جو درس استاد پڑھایا کرتا ایک فاضل طالبعلم وہی درس ضرورتمند طلباء کے لئے دہرایا کرتا تھا؛ آپ دیکھ لیں کہ یہ عمل طالبعلم اور محصل کے علم و دانش کو کتنا عمق بخش دیتا تھا اور اس کی معلومات کو مستحکم کردیتا تھا۔ ان روایات کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے؛ انہیں ضائع کرنا افسوسناک ہے۔
آداب
استاد کا احترام بھی ایک مسئلہ ہے؛ حوزات علمیہ میں رائج ایک روایت استاد کے سامنے شاگرد کا تواضع اور خاکساری سے عبارت تھی؛ استاد کا احترام؛ جس کے لئے علماء "آداب المتعلمین” (شاگردوں کے آداب)، لکھا کرتے تھے، کہ متعلم کے معلم کے سامنے کیا فرائض ہیں اور معلم کے اس پر کیا حقوق ہیں؟ جیسا کہ دوسری طرف سے متعلم کے بھی اپنے معلم پر حقوق ہیں۔ یہی نہیں ہے کہ استاد آجائے لیکچر دے اور درس دے اور چلا جائے، نہیں؛ اساتذہ شاگرد کی بات سنا کرتے تھے۔ یہ روایت قدیم زمانوں سے رائج تھی۔ ہمارے زمانے میں بھی بعض بزرگ علماء تھے اس وقت بھی ہیں، شاگر درس کے بعد بھی استاد کے ہمراہ اس کے گھر تک چلا جاتا تھا؛ استاد کے ساتھ بحث کیا کرتا تھا، گفتگو کیا کرتا تھا، سوال پوچھا کرتا تھا۔ "قعدہ”، علمی "قعدہ” (نشست)، جلسہ، علمی جلسہ اور سوال و جواب؛ یہ سب ہمارے حوزات علمیہ کی مثبت روایتیں ہیں؛ دوسرے ہم سے یہی روایتیں سیکھنا چاہتے ہیں اور ایسے حال میں ہم ان روایات کو تبدیل کردیں! اور دوسروں کی منسوخ اور گھسی پھٹی روشیں اپنائیں؟ پس ان روایات کو باقی اور برقرار ہونا چاہئے اور انہیں تقویت پہنچانی چاہئے؛ تبدیلی اور تحول و ارتقاء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان روایات کو تبدیل کیا جائے۔
علمی کاوشیں اور عصری تقاضے
ارتقائی سفر میں ایک بہت ضروری چیز یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی علمی کوششوں کو ضرورتوں پر منطبق کرلیں، بعض چیزیں ہیں جن کی ہماری لوگوں کو ضرورت ہے  اور وہ ان کا جواب ہم سے مانگتے ہیں؛ ہمیں ان کا جواب فراہم کرنا چاہئے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت نہیں ہے، ان کے سلسلے میں زیادہ کام ہوا ہے زیادہ عرقریزی ہوئی ہے ہمیں اپنےآپ کو ان چیزوں میں مصروف نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بہت بنیادی اور اہم مسائل ہیں۔
ہم جامعات (یونیورسٹیوں) سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی کوششوں کو معاشرتی ضروریات پر منطبق کرلیں۔ دیکھ لیں کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے یہ چیز دینی حوزات کے بارے میں بطور اتم صادق ہے [اور حوزات کو اس امر کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے]۔
حوزات علمیہ کا نظام سلوک و اخلاق
اگلا مسئلہ حوزات علمیہ کے سلوک اور اخلاق کا نظام ہے؛ اور یہی تحول اور تبدیلی ـ اگر تبدیلی اور تحول ہو تو ـ اس پہلو کو مدنظر رکھ کر انجام پائے۔ بعض موضوعات ہیں جو میں یادداشت کرلئے ہیں:
استاد اور عالم کی تکریم
استاد کی تکریم؛ حوزہ علمیہ میں ہمارا "نظام سلوک و اخلاق” اسی سمت میں ہونا چاہئے؛ استاد کی تکریم، فاضل و عالم شخصیات کی تکریم، بالخصوص مراجع تقلید کی تکریم، ہر شخص آسانی سے مراجع تقلید کی سطح پر نہیں پہنچتا؛ بہت سے صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ مراجع تقلید غالباً حوزات علمیہ کی علمی چوٹیاں سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ مراجع تقلید کا احترام محفوظ ہونا چاہئے؛ ان کی تکریم ہونی چاہئے۔
معنویات سے فیض حاصل کرنا
حوزات علمیہ کے نظام سلوک و اخلاق  میں دوسرا اہم مسلئہ معنویات سے فیض حاصل کرنا ہے؛ تہذیب [نفس] ہے؛ یہ بہت اہم ہے۔ حوزہ علمیہ میں آج کے نوجوان کو تہذیب کی ماضی سے زیادہ ضرورت ہے۔ جو لوگ علوم سلوکیہ (Behavioral sciences) کا مطالعہ کرتے ہیں اور کام کرتے ہیں؛ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا کا حال یہی ہے کہ مادی نظام، اور مادیت کا دباؤ نوجوانوں کا حوصلہ ضائع کرتا ہے اور وہ افسردہ اور بےحوصلہ ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں نوجوانوں کا مددگار معنویت اور اخلاق کا سہارا ہے۔ یہ جو آج آپ دیکھتے ہیں کہ جھوٹے عرفان فروغ پارہے ہیں اور کچھ لوگ ان کے گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے؛ ضرورت اور حاجت ہے۔ حوزہ علمیہ میں ہمارا نوجوان ـ نوجوان طالبعلم؛ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ـ تہذیب [نفس] کا محتاج ہے۔ ہمارے پاس تہذیب کی چوتیاں موجود ہیں۔ اسی قم میں مرحوم حاج میرزا جواد ملکی، مرحوم علامہ طباطبائی، مرحوم آقائے بہجت، مرحوم آقای بہاءالدینی (رضوان اللہ تعالی علیہم) حوزہ علمیہ میں تہذیب کی چوٹیوں کی مثالیں ہیں۔ ان کا طرز سلوک اور ان کی سیرت، ان کی حیات کی شناخت، ان کا کلام، بذات خود شفا بخش ترین چیزوں میں سے ہے جو انسان کو سکون دے سکتی ہے، روشنی دے سکتی ہے، دلوں کو نورانی کرسکتا ہے۔ نجف اشرف میں مرحوم آخوند ملا حسین قلی سے لے کر مرحوم آقای قاضی اور دیگر و دیگر تک؛ یہ سب نمایاں اور نامی گرامی شخصیات ہیں۔ ہمیں ان کے فکری اور عرفانی مکاتب سے کوئی سروکار نہیں ہے یہاں صرف نظری مسئلہ نہیں ہے۔ ان میں سے بعض عرفاء کے عرفانی مکاتب مختلف تھے۔ مرحوم سید مرتضی کشمیری (رضوان اللَّہ تعالى عليہ) کا عرفانی مکتب تھا؛ جو مرحوم حاج میرزا علی آقائے قاضی کے استاد ہیں؛ لیکن ان کے بعد آنے والے عرفا کا عرفانی مکتب الگ ہے۔ مرحوم مرتضی کشمیری ایک کتاب کے مطالعے سے کلی طور پر منع فرمایا کرتے تھے مگر آقائے سید علی قاضی اسی کتاب سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں؛ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی بزرگ جو مشہد مقدس میں تھے، ایسے بزرگ تھے جنہیں ہم نے تقوی، طہارت اور پاکیزگی کے حوالے سے پہچانا؛ مرحوم حاج میرزا جواد آقائے تہرانی، مرحوم حاج شیخ مجتبی اور ان کی مانند دوسرے بزرگ؛ یہ بھی اسی طرح ہیں۔ اہم یہ ہے کہ اس زنگ زدہ دل کو کوئی معنوی زبان کوئی دل سے نکلی ہوئی بات، شفا بخشے اور اس زنگ کو ہٹا دے۔ چنانچہ ہمیں یہاں نظری عرفانوں کے بارے میں بحث نہیں کرنی ہے۔
انقلابی جذبات و رجحانات
حوزہ کے نظام سلوک و اخلاق میں ایک اور اہم مسئلہ حوزات علمیہ میں انقلابی رجحانات اور جذبات کا مسئلہ ہے۔
میری عزیزو! ملک میں انقلابی فضا کی نہایت عنود اور کینہ پرور دشمن ہیں۔ وہ ملک میں انقلابی فضا کی حکمفرمائی کے خلاف ہیں؛ وہ اس فضا کو توڑ دینا چاہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ایک دور میں انھوں نے "شہادت” کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، جہاد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، شہید کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کے نظریات و آراء کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی؛ انبیاء علیہم السلام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی؛ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فلان شخص ان مفاہیم کا مخالف ہے؛ مسئلہ یہ ہے کہ دشمن چاہتا ہے کہ اس مخالفت کو معاشرے میں پھیلادیاجائے، ماحول بنایا جائے اور انقلابی فضا ٹوٹ جائے۔ حوزہ علمیہ میں سب کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ معاشرے کے متن میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، طبیعی امر ہے کہ حوزہ علمیہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ ـ عالم دین ـ ایک فرد نہیں ہیں؛ آپ کو سننے والے بھی ہے؛ آپ کے عقیدتمند بھی ہیں؛ چنانچہ آپ اپنے ارد گرد کے ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ انقلابی فضا کو توڑنا چاہتے ہیں؛ انقلابی عالم دین کو گوشہ نشینی پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ بسیج کی تذلیل و تحقیر، شہادت کی تحقیر، ان لوگوں کی طویل المدت جہاد کو متنازعہ بنانا، اگر خدا نخواستہ حوزہ علمیہ کے گوشوں میں معرض وجود میں آئے، تو یک ایک المیہ ہے۔ حوزہ کے بزرگ علماء کو خیال رکھنا چاہئے اور ان مسائل کے فروغ کا سد باب کرنا چاہئے۔
انقلابی طلبہ کا رویہ
ایک بات بھی حوزہ کے پرجوش اور انقلابی نوجوانوں سے کرنا چاہتا ہوں، جبکہ حوزہ کی غالب اکثریت ان ہی پرجوش اور انقلاب طلبہ پر مشتمل ہے؛ میرے عزیزو! مستقبل آپ کا ہی ہے۔ ملک کے مستقبل کی امید آپ ہی ہیں؛ بہت زیادہ محتاط رہیں۔ یہ درست ہے کہ نوجوان انقلابی طالبعلم عمل کرنے والا ہے، فعالیت کرنے والا ہے، جلد از جلد کام مکمل کرنے والا ہے، اور آج کا کام کل پر ڈالنے والا نہیں ہے، تاہم محتاط رہیں؛ ایسا نہ ہو کہ آپ کا انقلابی اقدام اس طرح سے ہو کہ [آپ کے مخالفین] آپ پر انتہاپسندی کا الزام لگا سکیں۔ افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انقلابی نوجوانوں کو جان لینا چاہئے کہ جس طرح کہ کنارہ کشی، خاموشی اور بےحسی و سردمہری نقصان دہ ہے، زیادہ روی بھی نقصان دہ ہے؛ محتاط رہیں کہ کہیں زیادہ روی نہ ہو۔ ہمیں جو اطلاعات ملی ہیں کہ اگر کبھی حوزہ کے مقدسات، حوزہ کے بعض بزرگوں اور بعض مراجع تقلید کی مثلاً اہانت ہوئی ہو، اور یہ اطلاعات درست ہوں تو یہ قطعی طور پر ایک انحراف ہے، یہ خطا ہے۔ انقلابی ہونے کے تقاضے یہ نہیں ہیں۔ انقلابی فرد کو بصیر ہونا چاہئے، بینا اور زیرک ہونا چاہئے۔ زمانے کی صورت حال کی پیچیدگیوں سے آگاہ ہونا چاہئے۔ مسئلہ اتنا ہی سادہ نہیں ہے کہ ایک شخصیت کو رد کردیں اور ایک کا اثبات کریں اور اسے قبول کریں؛ ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کو دقیق ہونا چاہئے، اپنے انقلاب جذبے کا تحفظ کریں؛ مشکلات و مسائل سے بھی آشتی کریں، دوسروں پر اعتراض کرنے سے بھی روگردانی نہ کریں مگر خامی اور غلطی بھی نہ کریں؛ اختیاط و مراقبت کریں اور مأیوس نہ ہوں؛ میدان عمل میں باقی رہیں اور خیال رہے کہ بعض لوگوں کا رویہ کہیں آپ کو غضبناک نہ کردے اور آپ کو آپے سے باہر نہ کردے۔ منطقی اور معقول رویہ ایک لازمی امر ہے۔ البتہ میں آپ سب کو یہ بھی سفارش کروں کہ وہ انقلابی انسانوں کو انتہاپسندی کا ملزم نہ ٹہرائیں؛ بعض لوگ انقلابیوں پر افراط اور انتہاپسندی کا الزام لگاکر خوش ہوا کرتے ہیں کہ انقلابی عنصر، انقلابی نوجوان، انقلابی عالم و فاضل، انقلابی استاد و مدرس پر ہر سطح پر افراط اور زیادہ روی کا الزام لگائیں؛ نہیں یہ بھی ایک انحراف ہے جو دشمن کی توسط سے انجام پاتا ہے؛ واضح و آشکار ہے۔ پس نہ اُس طرف سے  اور نہ ہی اِس طرف سے۔
یہ سارے، تحول اور ارتقائی تبدیلی سے متعلق مسائل تھے۔ اب میں آپ سے ایک سوال پوچھوں: کیا یہ پیچیدہ، نہایت وسیع، ہمہ جہت اور کئی اضلاع پر مشتمل تحول و تبدیلی، ایک ہماہنگ انتظام کے بغیر ممکن ہے؟ یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے آج سے برسوں قبل اسی حوزہ علمیہ میں ان حضرات کے سامنے پیش کیا جو آج مراجع تقلید کے زمرے میں ہیں اور اس وقت حوزہ علمیہ کی انجمن اساتذہ کے اراکین تھے اور ان میں سے بعض دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ـ رحمۃاللہ و رضوانہ علیہم ـ اور ان سب نے یہ بات تسلیم کرلی۔ حوزہ کے انتظام اور اس کی تدبیر کے لئے ایک ایسی ہماہنگ ٹیم جس کے اراکین مراجع تقلید کے لئے بھی قابل قبول ہوں اور وہ حوزہ کے مسائل میں صاحب رائے ہوں؛ ایک لازمی امر ہے، ناگزیر ہے؛ اور اس کے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ پیچیدہ، اہم اور وسیع کام ایک طاقتور انتظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حوزہ علمیہ میں علم فلسفہ کی ضرورت
مزید دو نکتے بیان کرکے اپنے عرائض ختم کرنا چاہوں گا … ایک مسئلہ درسِ فلسفہ اور مضمون فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ توجہ کریں؛ فقہ کی اہمیت اور فقہ کی عظمت کہیں ہمیں درس فلسفہ، علم فلسفہ اور مضمون فلسفہ سے غافل نہ کردے؛ ان علوم کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ فقہ کے مضمون کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، فلسفہ کے دوش پر بھی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اسلامی فلسفہ کا پرچم ہمیشہ سے حوزہ علمیہ کے ہاتھ میں رہا ہے اور رہنا چاہئے اور حوزہ کے ہاتھ میں رہنا چاہئے۔ بعض دیگر ـ جو کبھی تو اس کی اہلیت سے ہی عاری ہوتے ہیں ـ اس پرچم کو اٹھالیتے ہیں؛ فلسفہ کی تدریس اور فلسفہ کی دانش ایسے افراد کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جن میں شاید ضروری صلاحیتیں موجود نہ ہوں۔ آج اگر ہمارا نظام اور ہمارا معاشہ فلسفہ سے محروم ہوجائے اتنی مختلف النوع شبہات و اعتراضات کے سامنے، مختلف درآمد شدہ فلسفوں کے سامنے، نہتا اور بے دفاع رہ جائے گا۔ جو چیز جو غالباً آپ کے سوالات کا جواب دے سکتی ہے ہرجگہ فقہ ہی نہیں ہے؛ بلکہ علوم معقول یعنی فلسفہ و کلام [علم عقائد] ہے۔ یہ لازم و ضروری ہیں۔
قرآن و تفسیر
دوسرا اہم مضمون تفسیر ہے۔ قرآن کے ساتھ انس، قرآنی معرفت؛ ہمیں قرآن کی تفسیر سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ درسِ تفسیر اہم ہے، درس فلسفہ اہم ہے؛ حوزہ علمیہ میں یہ مضامین بہت ضروری اور نہایت قابل قدر و منزلت مضامین ہیں۔
دینی طالبات
آخری نکتہ طالبات بہنوں کے نوظہور مسئلے کے بارے میں ہے؛ یہ بہت اہم عظیم اور مبارک واقعہ ہے کہ ہزاروں عالم، محقق، فقیہ اور فیلسوف خواتین بہنوں کے حوزات علمیہ میں تربیت پائیں؛ یہ کتنی عظیم حرکت ہوگی۔
آپ دیکھ لیں کہ عورت کی ذات اور اس کے جنس کے سلسلے میں دنیا کی مادی نگاہ کتنی بری نگاہ ہے؟ کتنی تحقیر آمیز اور تذلیل آمیز نگاہ ہے، کتنی منحرفانہ نگاہ ہے؟ ہر شعبے میں اور ہر سطح پر دانشور مسلم خواتین کی موجودگی ـ جامعات کی دانا و فہمیدہ اور دیندار و شرع مبیں کی پابند خواتین کی موجودگی کی مانند ـ دنیا پر بہت عظیم اثرات مرتب کرتی ہے؛ ان کی موجودگی اسلامی انقلاب کی آبرو ہے۔ خواتین کو دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔ البتہ خواتین کے حصول علم کا آخری مقصد صرف مجتہد اور فیلسوف بننا ہی نہیں ہے ـ ہوسکتا ہے کہ بعض خواتین میں مجتہد اور فیلسوف بننے کا اشتیاق ہو اور صلاحیت بھی رکھتی ہوں، اور ان کے پاس پڑھنے کا وقت بھی ہو، اور بعض کے پاس یہ سب کچھ نہ ہو ـ مقصد یہ ہے کہ وہ اسلامی اور قرآنی تعلیمات سے آگہی حاصل کریں جن سے وہ خود بھی استفادہ کرسکتی ہیں اور دوسرے بھی ان کی اس دانش سے استفادہ کرسکیں گے۔
پروردگارا ! ہم نے جو کہا اور جو سنا وہ تو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے
پروردگارا! ان اقوال اور ان مسموعات اور حوزہ علمیہ میں عظیم حرکت پر اپنی جانب سے برکتیں نازل فرما
پروردگارا! ہمارے کام، اور ہمارے اقوال اور ہماری حرکت و اقدام کو اپنے ولی کی توجہ اور رضا و خوشنودی سے بہرہ مند فرما؛ آنحضرت (عج) کے قلب مقدس کو ہم سے خوشنود فرما۔ امام بزرگوار اور شہدائے عزیز کی مطہر روحوں کو ـ جنہوں نے یہ راستہ [ہمارے لئے] کھول رکھا ہے ـ اپنی رحمت و برکت عطا فرما۔
والسّلام عليكم و رحمۃاللَّہ و بركاتہ‌
1) نہج‌البلاغہ، خطبہ 62 – یعنی اگر کوئی غافل ہوجائے تو ضروری نہیں ہے کہ اس کے دشمن بھی اس سے غافل ہوجائیں۔
*) رگ رگ است این آب شیرین و آب شور، برخلایق می رود تا نفخ صور (مولانا روم)
2) الكافى، ج 1، ص 46 ـ فقہاء انبیاء اور رسل (ع) کے امین ہیں جب تک وہ دنیا میں داخل نہ ہوئے ہوں۔ (حدیث رسول (ص)۔


متعلقہ مضامین

Back to top button