مقالہ جات

داعش تکفیری گروہ کیسے وجود میں آیا؟

daish6داعش جس کا مخفف ’’دولۃ الاسلامیہ فیی العراق و الشام ‘‘ ہے، اس دہشت گرد تکفیری گروہ کا بنیادی مقصد عراق اور شام میں ایک آزاد اور اپنی پسند کی حکومت کا قیام ہے تا کہ عالمی سامراجی دہشت گرد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا مشرق وسطیٰ میں تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
داعش کا قیام در اصل ان دنوں کی بات ہے کہ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس وقت یہ گروہ سامنے آیا تھا جو عراق میں موجود تھا۔عرب تکفیری دہشت گردوں پر مشتمل یہ گروہ \”دولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام\” یا \”داعش\” کے نام سے معروف ہے۔ اس دہشت گروہ نے شام اور عراق میں خلافت کے نظام پر مبنی اسلامی حکومت تشکیل دینے کو اپنا مشن بیان کر رکھا ہے۔ اس گروہ کی زیادہ تر سرگرمیاں انہیں دو اسلامی ممالک یعنی عراق اور شام میں مرکوز ہیں۔ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
داعش کی تشکیل:
15اکتوبر2006ء کو عراق میں سرگرم بعض تکفیری دہشت گرد گروہوں نے آپس میں اتحاد قائم کیا جس کا نام \”دولہ الاسلامیہ فی العراق\” رکھا گیا اور ابو عمر البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر متعین کیا گیا۔ یہ دہشت گرد گروہ 2006 ء میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک بے شمار دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ 19 اپریل2010ء کو ابو عمر البغدادی کی ہلاکت کے بعد ابوبکر البغدادی کو اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ابوبکر البغدادی کے سربراہ بننے کے بعد اس گروہ کی جانب سے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں انتہائی تیزی آ گئی اور جب2011ء میں شام میں سیاسی بحران رونما ہوا تو اس گروہ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد بڑی تعداد میں شام پہنچنا شروع ہو گئے اور اس طرح شام میں بھی اس گروہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔
داعش کی تشکیل کا مقصد:
2004ء میں ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں \”توحید و جہاد\” نامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس طرح یہ گروہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ گروہ بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کاروائیوں کی بدولت عراق میں ایک انتہائی خطرناک دہشت گروہ کی صورت اختیار کر گیا۔ 2006ء میں ابومصعب الزرقاوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے \”شورای مجاہدین\” کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشید البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر معین کر دیا۔ 2006ء میں ہی ابومصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابوحمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس سال کے آخر میں ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں کئی دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے \”دولت الاسلامیہ فی العراق\” کی بنیاد رکھی گئی۔19 اپریل 2010ء کو عراقی سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں نے ایک مشترکہ کاروائی کے دوران \”الثرثار\” نامی علاقے میں موجود ایک گھر پر حملہ کیا جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر موجود ہیں۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گھر پر ہوائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ان دونوں کی لاشیں عام لوگوں کو دکھائی گئیں۔ تقریبا ایک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک بیانئے کے ذریعے ان دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابوبکر البغدادی کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کیا۔ اس کے علاوہ الناصر لدین اللہ سلیمان کو وزیر جنگ کے طور پر معین کیا گیا۔
النصرۃ اور داعش کا ربط:
لنصرہ فرنٹ یا \”جبھہ النصرہ لاھل الشام\” سلفی جہادی سوچ رکھنے والی دہشت گرد تنظیم ہے جو2011ء کے آخر میں معرض وجود میں آئی۔ اس وقت اس گروہ کی سربراہی ابو محمد الجولانی کے ہاتھ میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گروہ میں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد پانچ سے چھ ہزار تک ہے۔ یہ گروہ شام کے صوبوں ادلب، حلب، دیر الزور اور غوطہ میں سرگرم ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ابو محمد الجولانی2008ء میں عراق میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا لیکن بعد میں امریکیوں نے اسے آزاد کر دیا۔ النصرہ فرنٹ بہت جلد ہی شام کے ایک اہم دہشت گرد مسلح گروہ کی حیثیت اختیار کر گیا جس کی بنیادی وجہ اس گروہ میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی بہتر فوجی ٹریننگ بتائی جاتی ہے۔ اس گروہ نے اب تک دمشق اور حلب میں انجام پانے والے کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ النصرہ فرنٹ کے القاعدہ عراق سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔
النصرہ فرنٹ نے 24 جنوری2012ء کو جاری ہونے والے اپنے پہلے بیانئے میں شامی عوام کو جہاد کی دعوت دیتے ہوئے انہیں شام حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی ترغیب دلائی۔ اس گروہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیانئے اکثرا نامعلوم افراد کی جانب سے ٹویٹر پر شائع کئے جاتے ہیں۔ البتہ یہ بیانئے \”المنارہ البیضاء\” نامی چینل کے نام سے جاری ہوتے ہیں۔ اس گروہ کی تشکیل میں بانی کا کردار ادا کرنے والے وہ شامی جنگجو تھے جو القاعدہ کی جانب سے عراق، افغانستان اور چچنیا میں فوجی کاروائیاں کرتے رہے تھے۔ اسی طرح النصرہ فرنٹ کے مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروہ میں ترکی، عرب ممالک، ازبکستان، چچنیا، تاجکستان اور حتی یورپی ممالک سے بھی دہشت گرد جنگجو سرگرم عمل ہیں۔ دسمبر2012ء میں امریکہ نے النصرہ فرنٹ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا جسے شام میں حکومت مخالف اتحاد اور سیرین فری آرمی کے کمانڈرز نے مسترد کر دیا۔ اسی طرح 03 جنوری2013ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے النصرہ فرنٹ کو القاعدہ کی ذیلی شاخ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیوں کا اعلان کر دیا۔
مغربی ممالک سے وابستہ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق النصرہ فرنٹ کو سعودی عرب کی جانب سے مالی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ شام میں سفاکانہ اور غیرانسانی اقدامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گروہ نے شام کے مختلف شہروں میں شرعی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں جہاں ہر روز عام بیگناہ شامی شہریوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے اور پھر سرعام تکفیری دہشت گردوں کی جانب سے یا تو ان کو حیوانوں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے اور یا پھر سر پر گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ ان بیگناہ شہریوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ النصرہ فرنٹ ہی وہ تکفیری دہشت گرد ٹولہ ہے جس سے وابستہ دہشت گردوں نے مارے جانے والے شامی فوجی کا سینہ چاک کر کے اس کے دل کو چبا کر دنیا والوں کو حیران اور انگشت بدھان کر دیا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اکیسویں صدی کے جدید دور میں کوئی ابوسفیان کا پیروکار جنگ احد میں ہندہ کی جانب سے حضرت حمزہ کا جگر نکال کر کچا چبانے کی یاد کو ایک بار پھر تازہ کر سکتا ہے۔
اس تکفیری دہشت گروہ نے صرف سفاکانہ اقدامات میں ہی سب کو پیچھے نہیں چھوڑ دیا بلکہ بے حیائی اور بے غیرتی کی بھی نئی مثالیں قائم کر دی ہیں۔ اس بے حیائی کا ایک نمونہ \”جہاد النکاح\” جیسا فتوا تھا جس کے تحت خود کو مسلمان اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا ٹھیکہ دار کہنے والے ان تکفیری مجرموں نے جنسی بے راہروی اور زنا کو اسلامی فعل قرار دیتے ہوئے دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے چہرے پر بدنما داغ چھوڑ دیا ہے۔ سعودی وہابی مفتیوں کی جانب سے صادر ہونے والا یہ فتوا شام میں النصرہ فرنٹ کے درندوں کو کھلی چھوٹ دینے کیلئے کافی تھا۔ اس فتوے نے عرب ممالک کی کتنی ہی نوجوان مسلمان دوشیزاوں کو منحرف کیا اور انہیں بے غیرتی اور بے حیائی کے راستے پر لگایا۔ یہ خواتین ان شیطان صفت مفتیوں کے غلط فتووں کے نتیجے میں اپنے گمان میں مسلمان مجاہدوں کی خدمت کے جذبے سے شام پہنچیں اور ان تکفیری غنڈوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں۔ یہ تکفیری دہشت گرد اپنی ہوس پوری ہونے کے بعد ان مسلمان خواتین کو قتل کر دیتے تھے۔ مختلف علاقوں سے ملنے والی ان لاشوں میں بڑی تعداد شام کی خواتین کی تھی جبکہ چچنیا کی خواتین کی لاشیں بھی ملی ہیں۔
مختلف انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اردن کی سرزمین پر ترکی کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر ٹریننگ سنٹرز قائم کئے گئے ہیں جہاں النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کو امریکی، سعودی اور ترک فوجی افسر ٹریننگ دے کر شام بھیجتے ہیں۔
النصرۃ فرنٹ داعش کا ایک اہم جز تھا جو سنہ2011ء میں شام میں شامی حکومت کو کمزور کرنے اور شام کو غیر مستحکم کرنے کے لئے سر گرم عمل ہوا،اپریل سنہ2013ء میں ابو بکر البغدادی نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں اس بات کا اعتراف کیا کہ النصرۃ فرنت داعش کا ایک گروہ ہے جسے داعش عراق کی جانب سے مالی اور مسلح معاونت فراہم کی جا تی ہے جبکہ اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ داعش کے مزید دو گروہوں کو بھی داعش میں ضم کر دیا گیا ہے۔
بعد میں دو نوں گروہوں نے جدا ہونے کا اعلان کر دیا اور اس طرح ایک گروہ ایسا تشکیل پایا جو شام میں لڑائی کو ترجیح دے رہا تھا اور اس نے بغدادی سے مطالبہ کیا کہ وہ النصرۃ کے کمانڈر کیا طاعت کرے جبکہ اس گروہ کا براہ راست تعلق القاعدہ سے رہا۔
داعش عراق میں:
رواں ماہ یعنی دس جون کو عراق کے شمال میں موصل اور نینوا سمیت فلوجہ پر داعش کے دہشت گردوں نے تقریباً کنٹرول سنبھال لیا اور عراق حکومت کو بغداد اور نجف سمیت کربلا پر قبضوں کی دھمکی بھی دے ڈالی،اسی طرح داعش کے تکفیری دہشت گردوں نے تکریت اور صلاح الدینیہ کے علاقوں میں بھی داخل ہو کر وہاں کا کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا۔
داعش شا م میں:
شام کے علاقے رقا میں نومبر سنہ2013ء میں پورے علاقے کو دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے بری طرح تباہ و برباد کر دیا گیا،رقا کے باسیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا انہیں کسی جگہ جانے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور ان پر ایک طریقے سے ان دہشت گردوں نے کرفیو لگا کر رکھا۔
سنہ2013ء نومبر میں ہی شامی حزب اختلاف کی حامی ایک انسانی حقوق کی مشاہدہ کار تنظیم نے اعلان کیا کہ شام کے شمال میں داعش کا مکمل کنٹرو ل ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور بات کرتا ہے تو وہ یقیناًجھوٹ ہے۔
داعش کو کیسے مدد فراہم کی جا رہی ہے؟
داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ کو واضح طور پر غیر ملکی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ مسلح معاونت بھی حال ہے، عراق میں موصل میں داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں اور موصل پر قبضہ جمانے کے بعد عراقی ذرائع نے واضح طور پر کہا ہے کہ داعش کو سعودی عرب سمیت ترکی کی جانب سے بھرپور مالی اور مسلح معاونت فراہم کی جا رہی ہے،جبکہ عراق میں داعش کو مدد فراہم کرنے میں سابق عراقی نائب صدر طارق الہاشمی بھی براہ راست ملوث ہے کیونکہ طارق الہاشمی ماضی قریب میں بھی ترکی کے خفیہ دورے کرتا رہا ہے۔
عراقی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ داعش نامی تکفیری دہشت گرد ٹولے نے عراق میں عراق کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کر دیا ہے،اور یہ کچھ عرب ممالک کی جو امریکی اور اسرائیلی دوستی کے نشے میں دھت ہیں کی سازش ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک کو غیر مستحکم کیا جائے اور نقصان پہنچایا جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button