مقالہ جات

کیا داعش واقعی ایک سنی گروہ ہے؟

daish4شا م کے بعد عراق پر حملہ آور تکفیری گروہ داعش کو مغربی ذرائع ابلاغ روز اول سے ہی ایک سنی انتہا پسند گروہ کے عنوان سے پرچار کر رہے ہیں ، تو کیا واقعی داعش سمیت شام میں اور عراق میں مظلوم انسانوں کا خون بہانے والے خون خوار دہشت گرد سنی مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں؟
مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے عراق کے علاقے موصل پر داعش کے تکفیری دہشت گردوں کے حملوں اور قبضے کے بعد اس طرح کی شہ سرخیاں چلائی گئیں ، ملاحظہ کریں،
سنی جہادی گروہ نے موصل پر قبضہ کر لیا۔سنی جہادیوں نے عراق کے شمال کو اپنے تسلط میں لے لیا،۔
مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے زر خرید عرب ذرائع ابلاغ نے عراق میں تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کو سنی مسلمانوں جہادیوں کا حملہ قرار دیا اور اس بات کو پھیلانے کی کوشش کی کہ عراق میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ شروع ہو چکی ہے۔واضح رہے کہ جس دہشت گرد گروہ کو سنی مسلم گروہ قرار دیا جا رہا ہے اس کا نام داعش ہے اور وہ القاعدہ کا باغی گروہ ہے جو آپس میں چند ہزار ڈالروں کی تقسیم کے معاملے پر ایک دوسرے سے جدا ہو گیا ہے۔لیکن سوال پھر یہی پیداہوتا ہے کہ کیا واقعی داعش سنی عقیدہ مسلمان گروہ کا نام ہے؟بہت سے ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے لیکن اس گروہ پر کئی ایک سوالیہ نشان موجود ہیں کیونکہ یہ گروہ خود کو اسلامی گروہ کہتا ہے لیکن در اصل اس کی حرکات اور کاروائیاں دہشت گرد ی پر انحصار کرتی ہیں۔
داعش کون ہے؟ کیا ہے؟ اس بارے میں مختصر تاریخ ملاحظہ فرمائیں:
داعش: (دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشاما)
عرب تکفیری دہشت گردوں پر مشتمل یہ گروہ \”دولہ الاسلامیہ فی العراق و الشام\” یا \”داعش\” کے نام سے معروف ہے۔ اس دہشت گروہ نے شام اور عراق میں خلافت کے نظام پر مبنی اسلامی حکومت تشکیل دینے کو اپنا مشن بیان کر رکھا ہے۔ اس گروہ کی زیادہ تر سرگرمیاں انہیں دو اسلامی ممالک یعنی عراق اور شام میں مرکوز ہیں۔ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
داعش کی تشکیل:
15اکتوبر2006ء کو عراق میں سرگرم بعض تکفیری دہشت گرد گروہوں نے آپس میں اتحاد قائم کیا جس کا نام \”دولہ الاسلامیہ فی العراق\” رکھا گیا اور ابو عمر البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر متعین کیا گیا۔ یہ دہشت گرد گروہ 2006 ء میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک بے شمار دہشت گردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ 19 اپریل2010ء کو ابو عمر البغدادی کی ہلاکت کے بعد ابوبکر البغدادی کو اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ابوبکر البغدادی کے سربراہ بننے کے بعد اس گروہ کی جانب سے عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں انتہائی تیزی آ گئی اور جب2011ء میں شام میں سیاسی بحران رونما ہوا تو اس گروہ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد بڑی تعداد میں شام پہنچنا شروع ہو گئے اور اس طرح شام میں بھی اس گروہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔
داعش کی تشکیل کا مقصد:
2004ء میں ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں \”توحید و جہاد\” نامی دہشت گرد گروہ تشکیل دیا اور ساتھ ہی اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس طرح یہ گروہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں عراق میں القاعدہ کی ذیلی شاخ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ گروہ بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ کاروائیوں کی بدولت عراق میں ایک انتہائی خطرناک دہشت گروہ کی صورت اختیار کر گیا۔ 2006ء میں ابومصعب الزرقاوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے \”شورای مجاہدین\” کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے عبداللہ رشید البغدادی کو اس کے سربراہ کے طور پر معین کر دیا۔ 2006ء میں ہی ابومصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابوحمزہ المہاجر اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس سال کے آخر میں ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں کئی دہشت گرد گروہوں کے اتحاد سے \”دولت الاسلامیہ فی العراق\” کی بنیاد رکھی گئی۔19 اپریل 2010ء کو عراقی سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں نے ایک مشترکہ کاروائی کے دوران \”الثرثار\” نامی علاقے میں موجود ایک گھر پر حملہ کیا جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر موجود ہیں۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس گھر پر ہوائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ان دونوں کی لاشیں عام لوگوں کو دکھائی گئیں۔ تقریبا ایک ہفتے بعد اس دہشت گرد گروہ نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک بیانئے کے ذریعے ان دونوں دہشت گردوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ابوبکر البغدادی کو اپنے نئے سربراہ کے طور پر اعلان کیا۔ اس کے علاوہ الناصر لدین اللہ سلیمان کو وزیر جنگ کے طور پر معین کیا گیا۔
حال ہی میں ایک معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر جان اینڈریو مورو المعروف عبد العلیم اسلام نے Truth Jihad Radio کو دئیے گئے اپنے ایک انٹر ویو میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ داعش جیسے گروہوں کو اسلامی گروہوں کی نسبت دینا بالکل غلط اقدام ہے۔خاص طور پر ایسے موقع پر کہ جب آپ جانتے ہوں کہ ان کی مالی معاونت کون کرتا ہے، ان کو سیاسی سطح پر کون مدد فراہم کرتا ہے اور پھر خود اسلام میں داعش جیسے تکفیری گروہوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ان کاکہنا تھا کہ مغربی قوتیں ہمیشہ سے اسلامی نام نہاد جہادی گروہوں کو استعمال کرتی رہی ہیں اور ان کا استعمال اپنے مفادات اور سامراجی نظام کو تحفظ دینے کے لئے کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی وہی کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر جان اینڈریو کہتے ہیں کہ اس طرح کے جہادی نام نہاد گروہوں میں لڑنے والے افراد یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں لیکن در اصل وہ دشمن کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں خود بھی علم نہیں ہوتا۔ان کاکہنا تھا کہ داعش کا رویہ بالکل غیرا سلامی ہے،انہوں نے کہا کہ داعش کے دہشت گرد دہشت گردی اور جرم کو فلم بندی کرتے ہیں اور مزے سے نشر کرتے ہیں جو کہ خود ایک غیر اسلامی فعل ہے،وہ انتہائی فخرکرتے ہیں اپنے جرائم اور ظالمانہ کاروائیوں پر ، اور یہ واقعاً اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیمات میں ایسا کہیں نہیں ملتا ہے۔
ڈاکٹر مورو کہتے ہیں کہ ایسی درجنوں ویڈیوز موجود ہیں جن میں داعش کے دہشت گرد مرے ہوئے سپاہیوں کے جگر نکال نکال کر کھا رہے ہیں،یہ وہی کام ہے جو مسلمانوں کی دشمن ہندہ نے اسلام کے اوائل ادوار میں کیا تھا،انہوں نے داعش کے دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم نہ تو پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت پر ہو اور نہ ہے صحابہ کرام کی سیرت پر۔اسی طرح ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون کو اللہ اکبر کے نعرے لگا کر آبرو ریز کیا جا رہا ہے کیا یہ اسلام ہے؟ ایسا ہر گز نہیں اسلام ان شیطانی کاموں کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے دہشت گردوں کی یہ حرکتیں مسلسل جاری ہیں اور ابھی تازہ ترین نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں داعش کے دہشت گردوں نے عراقی فو ج کے سترہ سو افراد کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، داعش نے صرف شیعہ مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سنی اماموں کو بھی قتل کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے داعش کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔
ڈاکٹر مورو کہتے ہیں کہ بالکل بھی داعش کا تعلق سنی مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ یہ سنی مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان پر داغ لگانے کے مترادف ہے،بلکہ ہ ایک سلفی اور وہابیت کی انتہا پسند شاخ کا نام ہے جسے تکفیری کہا جانا درست ہے۔ان تکفیری دہشت گردوں نے اسلام کے پانچوں مکاتب فکر میں سے کسی ایک کو بھی قبول نہیں کیا ہے جبکہ چار مکاتب تو سنی مسلمان ہیں جب یہ چاروں کو ہی نہیں مان رہے تو پھر کس طرح سنی مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ وہابی سلفی ہیں جنہوں نے اپنے وجود کے روز اول سے ہی اسلام کے اصل چہرہ کو مسخ کرنے کے لئے ہر وہ اقدام کیا جو یہ کر سکتے تھے اور ان اقداما ت کی زندہ مثالیں آج اکیسویں صدی میں بھی دیکھی جا رہی ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ ان سلفی وہابی دہشت گردوں نے اسلام سے بالکل بر عکس اصول اور قواعد بنا لئے ہیں ، جیسا کہ ان کے اصولوں کے مطابق شیعہ اور عیسائی خواتین کی بے حرمتی اور آبرو ریزی جائز ہے ، اسی طرح انسانوں کے جگر نکال نکال کر کھانا بھی ان کے نزدیک حرام نہیں ہے،ان کے نزدیک جہاد النکاح جیسی لعنت بھی جائز ہے جس میں اپنے جسم کی بھوک کی خاطر خواتین کا استعمال اور پھر تیس منٹ بعد طلاق دے دیا جانا ، اس طرح کے کئی خرافات ہیں جو ان سلفی اور وہابی مذہب کے پیروکاروں نے ایجاد کئے ہیں۔
تاریخ میں کوئی بھی سنی مسلمان اس قسم کے مکتب اور اسلام کو سنی مسلمان قرار نہیں دے سکتا۔
پاکستانی اسکالر زید حامد جو خود بھی سنی عقیدہ مسلمان ہیں داعش کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ داعش اور ان کے ساتھ اتحاد میں موجود دیگر دہشت گرد گروہ کسی طور سے بھی سنی مسلمان نہیں ہیں،بلکہ یہ خوارج ہیں اور اسلام کے عین خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں،انہوں نے اسلام کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔
زید حامد کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد چاہے عراق میں ہوں یا شام میں یا پھر پاکستان میں یہ سب کے سب عالمی صیہونزم کے ایجنٹ ہیں اور عالمی سامراجی نظاموں کے تحفظ کی خاطر مسلم ممالک کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف عمل ہیں ، انہوں نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی داعش کے اتحادی گروہ موجود ہیں جنہوں نے آج تک لاکھوں بے گناہ پاکستانیوں کا خون پانیکی طرح بہا دیا ہے جو سر اسر غیر اسلامی فعل ہے، ان کاکہنا تھا کہ داعش ایک دہشت گرد تکفیری گروہ ہے جس نے نہ تو شیعہ کتب فکر کو قبول کیا ہے اور نہ ہی سنی مکتب فکر کو بلکہ اسلام میں خرافات کو ایجاد کرنے کے لئے ایک علیحدہ مکتب کو تشکیل دینے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد عالمی صیہونزم اور عالمی سامراجی قوتوں کے اشاروں پر مذہب اسلام کا چہرہ مسخ کیا جائے اور اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ عراق میں سنی مسلمان داعش کے ساتھ ہیں اور داعش کی مدد کر رہے ہیں ، یہ بات غلط ہے۔
زید حامد کاکہنا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ کچھ سنی عقیدہ مسلمانوں نے داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ درا صل صدام کی باقیات ہیں جو ملک میں افراتفری کا موقع ملنے پر سر نکال رہے ہیں، صدام کی جماعت ایک سیکولر اور اسلام مخالف جماعت تھی اور صدام کے مظالمکی تاریخ سے عراقی تاریخ بھری پڑی ہے،صدام خود بھی اسلامی بیداری سے خوف میں مبتلا تھا اور یہ وجہ ہے کہ سنہ1979ء میں امام خمینی (رح) کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب کی راہوں کو عراق میں روکنے کے لئے صدام نے ایران پر آٹھ سال تک جنگ مسلط کی۔لہذٰا صدام حسین کے سنی حامیوں کی جانب سے اگر داعش میں شمولیت کا عمل اور داعش کے دہشت گردوں کی مدد کی جا رہی ہے تو اسے غلط نظریہ سے نہیں لینا چاہئیے کہ سنی مسلمان داعش کے ساتھ ہیں۔صدام کے حامی بھی داعش کی طرح ہیں کہ جنہوں نے شیعہ اور سنی اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا اور دونوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔
زید حامد کاکہنا تھا کہ سنی مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو پیغمبر اکرم (ص) کی سنت مبارکہ پر عمل کرے وہ سنی مسلمان ہے اور سنی مسلمانوں کے لئے ’’اہل السنہ والجماعۃ ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔مردہ انسانو ں کے جگر نکال کر کھانا یہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات کا نہیں بلکہ اسلام دشمن ہندہ کی تعلیمات ہیں،اور اس عمل کو مسلمان معاشروں میں قیامت تک حرام اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات میں محبت، اخوت، بھائی چارے، سادگی، نرمی، دوستی، ایک دوسرے سے تعاون اور صبر کا درس ملتا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ میثاق مدینہ کو بھی دیکھا جائے تو مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ہی معاشرے میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔
زید حامد نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات تو یہ ہے کہ مجاہد کے خون سے زیادہ فضیلت عالم دین کے قلم کو دی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آج اسلام کی چودھویں صدی کے دوران بھی اسلام کے پانچ مکاتب فکر موجود ہیں جن میں سے چار سنی مسلمان ہیں جبکہ ایکمتکب جعفری ہے ، اور یہ پانچوں اسلام کے اصولوں کے پابند ہیں اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی مذہبی رسومات کو انجام دے رہے ہیں،آج بھی تمام سنی مسلمان مکتب جعفریہ کے امام ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عزت اور تکریم کرتے ہیں،انہوں نے کہاکہ داعش اور اس جیسے دیگر دہشت گرد گروہ درا صل ان پانچ مکاتب فکر سے بالکل باہر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
زید حامد کاکہنا تھا کہ آخر کیوں آج مغربی میڈیا نے داعش کے لئے سنی مسلمان ہونے کی رٹ الاپ رکھی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں داعش بنیادی طور پر شیعہ مسلمانوں کی دشمن ہے اور اگر مغربی ذرائع ابلاغ اپنی سازش میں کامیاب ہو گئے تو وہ یقیناپھر دنیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہ درا صل عالمی سامراجی اور عالمی صیہونزم کی سازشوں کا ایک حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سنی مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس وقت اپنی آواز بلند کریں اور خود کو واضح کریں کہ سنی مسلمانوں کا داعش اور اس جیسی کسی اور دہشت گرد جماعتوں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں بلکہ داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کا مذہب خود ایجاد کردہ مذہب ہے نہ اسلام ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button