تحریک جعفریہ کی تباہی کی داستان اور اسباب
اس وقت جب قومی افق پر مجلس وحدت مسلمین کا طوطی بول رہا ہے اور اس کی فعالیت کے باعث ملک بھر میں اس کے کارکنان میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، مجلس کی طرف سے آئے روز کسی نہ کسی جگہ پر اس کا پروگرام بھی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے، اس کے قائدین کی آمد و رفت و دورہ جات کی خبریں بھی پڑھنے کو مل جاتی ہیں اور اس پلیٹ فارم سے مختلف پراجیکٹس کی رپورٹس بھی سامنے آتی رہتی ہیں، ظاہر ہے یہ سب کچھ جو اس قومی پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے اس پر اپنے پرائے، دوست و دشمن نظر رکھے ہوئے ہیں، تجزیہ نگار اور صحافی، تنظیمی و تحریکی کارکنان ہر ایک اپنی اپنی نگاہ سے اس فعالیت کو دیکھ رہا ہے، اس وسیع ہوتے سیٹ اپ کو سراہنے والے سراہ رہے ہیں اور تنقید کے شوقین اس کی کارکردگی و فعالیت کو ناقدانہ انداز سے پیش کر رہے ہیں، سوشل میڈیا کی چکا چوند میں کھوئے بعض حضرات اس انداز سے پوسٹیں بنا کر بھیج رہے ہیں کہ جیسے اس اوپن فورم کی طرح آخرت میں بھی کوئی فیس بک جیسا ہی کھلا فورم ہوگا جہاں کسی کہی، لکھی یا کی گئی بات کا حساب نہیں دینا پڑے گا، دشمنی کے بھی آداب ہوتے ہیں اگر انسان تہذیب یافتہ ہو تو۔۔۔ مگر اس معاملے میں کبھی کبھی تو قدماء مجھے زیادہ مہذب معلوم ہونے لگتے ہیں کہ وہ دشمنیاں بھی طے شدہ معاشرتی آداب میں رہ کر کرتے تھے، اب تو سوشل میڈیا کی جھنکار نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ایک جھوٹا اکاؤنٹ بناؤ اور بس لتاڑ دو جو اول فول بکنا ہے اسے فیس بک پر جھوٹے اکاؤنٹ کے ذریعے بک دو، ایسا ہی کچھ کام بعض قومی قیادت کے دعویداروں کے حامی و طرفداران کر رہے ہیں جو سراسر ان کے اپنے ہی خلاف جا رہا ہے، اس لئے کہ سنجیدہ طبقات نے اس پر ان کی گوشمالی کی ہے، ایسا ہی کچھ 1996ء میں ان کے حامی ان کو بچانے کیلئے کر رہے تھے مگر انہیں گھر بٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ بات بہرحال حوصلہ افزاء ہے کہ اندھی عقیدتوں میں غرق اور بہت معمولی قیمت پر پلنے والے بعض لوگ جو رویہ اپنائے ہوئے ہیں ان کو کسی سنجیدہ فکر نے قبول نہیں کیا بلکہ سنجیدہ طبقات کی طرف سے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ یہ قوم کیساتھ غداری اور فتنہ پروری کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کو جب بھی کوئی آئینہ دکھاتا ہے تو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور کوئی جواب نہیں بن پاتا تو غلاظتوں کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔
نہ جانے کیوں مجھے مجلس وحدت مسلمین کی ملی و قومی فعالیت، تحرک اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اہم ترین مرحلہ پر تحریک جعفریہ کا عروج اور پھر اس کے زوال کی داستان اور بربادی کے واقعات ذہن میں آ رہے ہیں، آج جو نوجوان نسل قومی درد رکھتے ہوئے مختلف حوالوں سے ملی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہے انہوں نے اس ماحول کو نہیں دیکھا ہوگا جس کو ہماری نگاہیں روز دیکھتی تھیں، تحریک جس کے پاس شہید کے زمانے میں بہت ہی محدود وسائل تھے، شروع میں تو اپنا مرکزی دفتر بھی جامعہ معارف الاسلامیہ (موجودہ جامعہ شہید عارف الحسینی) میں قائم کیا گیا تھا، جو بعد ازاں محترم ناصر نقوی کی رہائش گاہ میں بھی شفٹ ہوگیا، ہاں اس زمانے میں شہید قائد کی شخصیت اور ان کا سحر نوجوانوں کو اپنے اندر اس قدر جذب کئے ہوئے تھا کہ اسلامی انقلاب کی منزل قریب نظر آنے لگی تھی، یہی وجہ تھی کہ دشمن نے شہید کو صرف ساڑھے چار سال تک برداشت کیا اور پھر ایک عالمی سازش کے تحت انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا، یہ بات کوئی رد نہیں کر سکتا کہ شہید نے اس مختصر عرصہ میں تحریک کی بنیادیں اس قدر مضبوط کر دی تھیں کہ اس کے بعد قومی نمائندگی کا حقدار اسے ہی تسلیم کیا جاتا تھا، ویسے بھی شہید قائد کے مقدس خون نے نوجوانوں میں ایک ولولہ و جذبہ پیدا کیا جس سے تحریک کو ملک بھر میں بھرپور پذیرائی اورتنظیمی تقویت حاصل ہوئی۔
شہید کی المناک شہادت کے وقت تحریک بہت زیادہ وسائل نہ رکھتی تھی مگر اس کو جو دولت و طاقت حاصل تھی وہ انتہائی مخلص نوجوان اور شہید قائد سے محبت رکھنے والے، ان کے نام پر مر مٹنے والے عاشقان کی بڑی تعداد جن کا تعلق بہرحال ملک کے گوشے گوشے سے تھا میسر تھے، اس لیئے کہ شہید نے اپنے مختصر ساڑھے چار سالہ دور قیادت میں شمالی علاقہ جات، کشمیر سے لیکر بلوچستان کے بیابانوں، صحراؤں تک دورہ جات کیئے تھے اور ملت کے ہر فرد تک پہنچ کر اسے قومی دھارے کا حصہ بنایا تھا، جو یقیناً ان کی شہادت کے بعد قومی پلیٹ فارم کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کا آخری دورہ بھی کراچی کا تھا اور انہوں نے شہادت کے دن بھی لاہور پہنچنا تھا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہید نے ورثہ میں بہت زیادہ وسائل نہیں چھوڑے تھے (گاڑیاں، کوٹھیاں، بنگلے، ملازمین اور محافظین کی فوج ظفر موج اور بنک بیلنس یا ڈالرز سے بھرے ہوئے سوٹ کیس) ہاں ان کا ورثہ اور ترکہ مخلصین و دیانتدار، انقلاب پسند، عاشقان امام خمینی کی ملک بھر میں پھیلی بہت بڑی تعداد ضرور تھی اور شہید کا پاکباز خون تھا جو انقلاب کی نوید بن گیا تھا۔
یہ ایک بڑی اور مثالی قربانی تھی، اسی پاکباز خون اور مخلصین کی مسلسل جدوجہد و قربانیوں نے تحریک پر نوازشات کی بارش کر دی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات کروٹیں لینے لگے تھے، پہلے مرکزی دفاتر، پھر صوبائی دفاتر قائم ہوئے، جائیدادیں نام ہونے لگیں تو ٹرسٹ وجود میں آگئے، اب تحریک کے پاس بڑی بڑی بلڈنگیں، بڑی بڑی گاڑیاں، بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کیلئے آداب و تقاضے پورے کرنے کیلئے کلاشنکوف بردار گارڈز اور سیکیورٹی کے پیش نظر گاڑیوں کے ایک جیسے ماڈل، ایک جیسے کلر اور ایک جیسے نمبرز حاصل کیئے جاتے تھے، ڈالرز اتنے تھے کہ اگر کوئی تبدیل کروانے جاتا تو غائب ہو جاتے تھے اور کسی کو افسوس بھی نہ ہوتا تھا، یہ ایک نیا کلچر تھا اس سے شہید قائد کے زمانے میں کوئی بھی واقف نہ تھے، آج کئی ایک قومی سیاست دانوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو بلٹ پروف گاڑیاں لیکر دینے پر مسائل سامنے آجاتے ہیں ہم ماشا اللہ اس مرحلے سے 1995-96 میں ہی گذر آئے تھے، وقت کروٹیں بدلتا رہا اور شہید قائد کی وراثت و ترکہ کو نئے رنگ میں ڈھال دیا گیا، مخلص کارکنان اور قیادت کے درمیان گاڑیاں، کوٹھیاں، بنگلے، گارڈز، سیکیورٹی پلاننگز آنے لگیں، شہید قائد نظریہ ولایت فقیہ پر کسی صور ت کمپرومائز کرنے کو تیار نہ ہوتے تھے اور نہ ہی وہ امام رضوان اللہ کی موجودگی میں کسی اور کی تقلید کے حق میں تھے۔
اسی لیئے تو وہ علماء و عوام کو امام خمینی کی تقلید کیلئے راضی کرتے تھے اور اگر کوئی عالم دین ان کی تبلیغ پر تقلید تبدیل کرتا تو بہت خوشی محسوس کرتے اور ساتھیوں کو بتاتے کہ فلاں آغا صاحب نے امام کی تقلید کرلی ہے مگر اب شہید کی وراثت پر وہ لوگ آ چکے تھے جو نہ تو خود امام خمینی کی تقلید کرتے تھے اور نہ ہی اس کی ترویج کرتے تھے نظریاتی وابستگی کا یہ عالم کہ جب ولی فقیہ نے ایک گفتگو میں عزاداری کے عنوان سے، قمہ زنی کیخلاف بات کی تو ان کی نمائندگی کے دعویداروں نے روزنامہ جنگ میں باقاعدہ اشتہار چھپوایا کہ اس طرح کا کوئی فتویٰ یا بات نہیں کی گئی اس سے بڑا ظلم اور کون کر سکتا تھا نظام ولایت کیساتھ، اگر نمائندگی کا حق رکھنے والون نے ولی امر کی بات کا دفاع نہیں کرنا تھا تو پھر حامد علی موسوی نے تو نہیں کرنا تھا، اس موقع پر شہید قائد کی یاد نے بہت تڑپایا کہ جو تقلید جیسے مسئلہ پر بھی کسی سے کمپرومائز نہیں کرتے تھے یہی حال شہید کی وراثت پر ہاتھ صاف کرنے والی ایک اور شخصیت کا تھا جن کے زیر انتظام ادارے میں امام خمینی کی رحلت کے بعد حسین علی منتظری کی توضیح المسائل چھپوائی جاتی رہی وہ شخصیت اس وقت تحریک کی سپریم کونسل کے ممبر تھے۔ یہ ایک مثال ہے کہ ہمارے وہ لوگ جو خود ولایت فقیہ کے نظم میں مرکزی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں وہ اس الہٰی نظام کے ساتھ کس قدر مخلص تھے۔ ظاہر ہے وسائل کی بہتات سے ترجیحات بدل چکی تھیں، آج جو دوست بہت ہی مخلصانہ انداز میں ان کیساتھ کا م کر رہے ہیں انہیں خود تجربہ بننے کے بجائے ان لوگوں سے رابطہ ضرور کرنا چاہیئے جو تجربہ بن کر خوار ہو چکے ہیں۔
شہید ذوالفقار نقوی کے نام سے تو سب لوگ واقف ہوں گے، محکمہ اوقاف میں ملازم تھے، وکالت بھی کر رکھی تھی، تحریک میں پنجاب کے صوبائی نائب صدر تھے، تنظیمی کام کرنے والے مخلص لوگ ہمیشہ مقروض ہوجاتے ہیں جبکہ مفاد پرستوں کے کاروبار چمک اٹھتے ہیں، یہ بیچارے بھی مقروضوں کی فہرست میں شامل تھے اور کچھ قرض قیادت سے لے رکھا تھا، یہ جب شہید کئے گئے اس وقت ایک اہم ترین قومی کاز کیلئے گھر سے اپنے جوان سال بیٹے جو isoکا یونٹ صدر بھی تھا اور ایک دوست و پولیس گارڈ کیساتھ ایک ہی کار میں تھے، دشمن نے انہیں ان کے گاؤں کے داخلی موڑ پر نشانہ بنایا اور گاڑی میں سوار پانچ لوگ شہید ہوئے تھے، مجھے یاد ہے کہ ہم جنرل ہسپتال میں ان کی میت پر پہنچے تھے، شائد سوئم کا دن تھا قیادت بھی اپنے تمام کر و فر کیساتھ پہنچی تھی۔ شہید کے بڑے بیٹے کیساتھ اس روز اصولی طور پر رسمی تعزیت ہی ہونی چاہیئے تھی مگر اعلیٰ قیادت نے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور شہید کے بیٹے کا دکھ اس انداز سے بٹایا کہ موقع پر موجود ہر شخص حیران و پریشان تھا، پوچھا گیا کہ کب اور کیسے قرض لی گئی رقم واپس کی جائیگی۔ ظاہر ہے کہ قرض قرض ہوتا ہے جسے مرنے والے کے ورثا نے لوٹانا ہوتا ہے مگر اس بات کیلئے اگر دو چار دن کا انتظار کر لیا جاتا تو کونسی قیامت آ جاتی، شہید ہونے والا بھی کوئی عام شخص نہیں تھا صوبائی نائب صدر تھا۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ کارکنان پر اس قدر بے اعتمادی اور حوصلہ شکنی کی جاتی تھی پھر کیسے ممکن ہوتا کہ یہ تحریک اپنی منزل کے حصول میں کامیاب ہو جاتی یہ عملی طور پر ایک شخصیت کو بچانے اور اسے مضبوط کرنے کا ادارہ بن چکی تھی۔
کوئی مانے یا نا مانے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب تک ڈاکٹر محمد علی نقوی بقید حیات رہے قیادت کی تمام نااہلی اور کمزوریاں پوشیدہ رہیں چونکہ نوجوانوں اور قوم کو وہ نظر آتے تھے اور بہت سے تعلیمی، سماجی، تعلیمی اور قومی امور کو انہوں نے ہی سنبھالا ہوا تھا، جب ڈاکٹر صاحب، شہید ہوگئے تو تحریک بڑی مشکل سے صرف ایک سال ہی زندہ رہ سکی اور ان کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے اندر وہ مسائل کھڑے ہوئے جن کو سنبھالنا اس قیادت کے بس کی بات نہ تھی اگر یہ قیادت اہل ہوتی تو پھر تنظیم کے اندر پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پالیا جاتا اور ہمیں تباہی کی یہ داستان لکھنا نہ پڑتی مگر ہماری تمام خواہشات اور امیدوں پر پانی پھر گیا، نوجوان قیادت کے پاس گئے تاکہ مطمئن کریں مگر ایسا نہ ہو سکا اور جس پلیٹ فارم کے نوجوان ہی الگ ہو جائیں اسے تباہی سے کون بچا سکتا ہے، علماء نے اپنے طور پر اپنی صنف کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر صنف بچاتے بچاتے منصب کو زخمی کرتے رہے، مقام کو داغدار کرتے نظر آئے، نوجوانوں کی امید اور قربت علامہ افتخار نقوی کے ساتھ تھی مگر وہ اپنے ذاتی مراسم و تعلقات کی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنے ابتدائی موقف سے ہی پیچھے ہٹ گئے، اس مشکل گھڑی میں قوم کے پاس ڈاکٹر محمد علی نقوی نہیں تھا جو حالات کو قابو میں کر سکتے تھے، نتیجہ جس شکل میں سامنے آیا اس تباہی کی گواہی آج ہر شخص دے رہا ہے، شہید کی تحریک پر ایسا وقت آگیا کہ قیادت ہی کارکنان کو گھر بیٹھنے کا حکم جاری کرتی نظر آئی، فعالیت کرنا، جلسے، جلوس، ریلیاں اور اپنے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنا ہی ممنوع قرار دے دیں، اور یہ سوچ بنا دی جائے کہ اگر ہم نے ایک جلسہ کیا تو اس کے مقابلے میں دشمن بھی جلسہ کریگا، ہم نے ریلی نکالی تو دشمن بھی ریلی نکالے گا، لہذا نہ ہم جلسہ کریں اور نہ ہی دشمن کو فعالیت کرنے کا موقع ملے گا۔
کیا خوب فلسفہ پیش کیا گیا ہے،آج وہ علماء کہاں ہیں جو ایک شخص کو بچانے کیلئے میدان سجائے ہوئے تھے، انہیں کیا ہوگیا کہ مکتب کی تباہی جو اعتقادات پر کاری ضرب کی صورت میں سامنے آئی اس پر باہر نہ نکلے اور اسی عرصہ میں مجالس کے سٹیج سے مجتھدین اور علماء حقہ کو گالیاں دیں جاتی ہیں اور کوئی درد محسوس نہیں کرتا، پاکستان میں مکتب جعفری اس قدر بے وارث کیوں ہوگیا؟ جگہ جگہ بے انتہا معمولی باتوں پر اہل تشیع کیساتھ ظلم و زیادتی کی جا رہی ہے، کہیں فیس بک اور کہیں ایس ایم ایس پر پرچے کٹ رہے ہیں اور اب تو سونے پر سہاگہ کہ نہج البلاغہ کی فروخت پر بھی پرچہ کاٹا گیا ہے۔ حالانکہ پرچہ تو ان کے خلاف کٹوانا چاہیئے تھا جنہوں نے جعلی نہج البلاغہ چھپوائی ہے اور فروخت کی جارہی ہے۔ جو کلام مولا علیؑ کا ہے ہی نہیں اسے ان سے منسوب کرکے فروخت کرنے والے مزے سے یہ کام کر رہے ہیں جبکہ کلام حق رکھنے کے جرم میں جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے۔ آج کہاں گئے قیادتوں کے دعویدار اور محافظان ملت؟ دین کے ٹھیکیدار اور دینی مراکز کے وسیع منصوبے لیکر اٹھنے والے قوم کے ہمدرد! نہ جانے کیوں مجھے مجلس وحدت مسلمین کی ملی و قومی فعالیت، تحرک اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اہم ترین مرحلہ پر تحریک جعفریہ کا عروج اور پھر اس کے زوال کی داستان اور بربادی کے واقعات ذہن میں آ رہے ہیں، خدا سے دعا ہے کہ اتنے عرصہ کے بعد اس ملت مظلوم کو جو قومی پلیٹ فارم میسر آیا ہے یہ شہید حسینی کے نظریاتی وارثان کا کردار ادا کر پائے اور قوم کی امیدوں کو پورا کرنے میں کامران ٹھہرے۔