مقالہ جات

شام و فلسطین کے موجودہ حالات پر علامہ اقبال کی رائے

terrist35شام و فلسطین کے موجودہ حالات پر علامہ اقبال کیسے رائے دے سکتے ہیں جبکہ وہ تو 1938ء میں رحلت فرماچکے! یقیناً یہ سوال سب کے ذہنوں میں آنا چاہئے۔ اس کا جواب اس تحریر میں مل جائے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے علامہ اقبال کو قومی شاعر اور عظیم مفکر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ان کے افکار پر عمل کیا جائے گا۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور وہ جماعتیں اور افراد جو بانیان پاکستان اور علامہ اقبال کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ حضور علامہ اقبال کی رائے تو یہ تھی، آپ ان سے متصادم پالیسی پر عمل پیرا ہوکر کیسے بانیان پاکستان کے مداح و پیروکار ہوسکتے ہیں۔؟

شام و فلسطین کے درد کو پاکستانی ہی محسوس کرسکتے ہیں، کیونکہ اس کا پس منظر ہم پر علامہ اقبال آشکار فرما چکے۔ شام و فلسطین کے حالات پر ا ن کا دل جلتا تھا، لیکن جب ہمارے عظیم مفکر کا دل جل رہا تھا تب شام و فلسطین ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر تہذیب کے پھندے میں گرفتار ہو رہے تھے۔ آج یک نہ شد دو شد کی سی صورت حال ہے۔ شام و فلسطین بیک وقت تہذیب کے پھندے اور ترکان جفا پیشہ کے پنجے میں پھنسے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ اقبال کے شاہین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہو کہ عرب بادشاہی خاندانوں کے بارے میں انہوں نے برملا کہا کہ ’’بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفٰی (ص)‘‘ اور یہ بھی کہا ’’لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل،،، خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز‘‘ ۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ شام و فلسطین پر کیا گذر رہی ہے۔ یرموک مہاجر کیمپ کو عربی میں مخیم الیرموک کہا جاتا ہے۔ اس میں کہیں بھی خیمے یا ٹینٹ نہیں لگے ہوئے بلکہ یہ شام کے دیگر رہائشی علاقوں کی مانند ہے۔ یہاں انٹرنیٹ کیفے سمیت جدید سہولیات بھی میسر تھیں لیکن اب یہ علاقہ بھی شام کے دیگر علاقوں جیسا منظر پیش کر رہا ہے۔ مارچ 2011ء میں دنیا بھر سے تکفیری دہشت گردوں کو شام پہنچایا گیا اور تب سے آج تک انہوں نے جو کچھ کارنامے انجام دیئے، اس کے نتیجے میں شام کی چالیس فیصد آبادی 1948ء کے فلسطینیوں کی طرح اپنے وطن کے ہوتے ہوئے دربدر خاک بسر زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق سے نزدیک یہ مہاجر کیمپ 1957ء میں آباد ہوا۔ کہنے کو یہ مہاجرین کا کیمپ ہے لیکن درحقیقت یہاں فلسطینی بالکل اس طرح رہتے ہیں جیسے شام کے دیگر شہری اپنے گھروں میں۔ اسے مہاجر کیمپ کا نام صرف اس لئے دیا گیا کہ انٹرنیشنل لاء کے تحت فلسطین ہی ان کا اصل وطن ہے جہاں انہیں لوٹ کر جانا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی عرب آباد تھے جبکہ پورے شام میں پانچ لاکھ چالیس ہزار فلسطینی مہاجر آباد ہوا کرتے تھے۔ اس ’’تھے” کے بارے میں وضاحت اسی کالم میں آگے بیان کی جائے گی۔

جدید انسانی تاریخ کا بدترین انسانی المیہ رونما ہوا ہے جس میں پچانوے لاکھ شامی عرب مہاجر بن کر ترکی، اردن اور لبنان میں ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ خواتین کی عزت بھی محفوظ نہیں کیونکہ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود! یرموک کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو دیگر شامیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ شام، عرب دنیا کا واحد ملک اور بشار الاسد وہ واحد عرب حکمراں ہیں جو فلسطین کی مکمل آزادی کی حمایت کرتے ہیں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والی تنظیموں کی عملی مدد کرتے ہیں۔ بس یہی وہ واحد جرم ہے جس کی سزا دینے کے لئے یہاں دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کی حامی حکومت مسلط کرنے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔

اس منظم سازش کے تحت دیگر علاقوں کی طرح یرموک کیمپ پر تکفیری دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا۔ سب کو معلوم ہے کہ امریکہ، برطانیہ دیگر یورپی ممالک اور ان کے اتحادی عرب ممالک ان دہشت گردوں کی مالی و سفارتی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلحہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ان ظالم دہشت گردوں کے قبضے کے بعد وہاں فلسطینی مہاجر خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اور ساتھ ہی بھوک و افلاس اور بیماریوں نے بھی انہیں گھیر لیا۔ نہ تو انہیں مناسب مقدار میں غذا فراہم کی گئی اور نہ ہی طبی سہولیات۔ بعض بچوں سمیت دیگر افراد نے بے بسی کے عالم میں دم توڑا۔

اس افسوسناک صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے فلسطین کے وزیر محنت نے شام کا دورہ کیا۔ 14 جنوری 2014ء کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی وزیر محنت احمد مجدالانی نے کہا کہ القاعدہ، جبہۃ النصرہ، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا، اور اس قسم کے دیگر دہشت گرد گروہ بشمول اسلامک فرنٹ شام میں ایک سازش پر عمل پیرا ہیں اور صرف ایمن الظواہری کو جواب دہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی جو فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کا عالمی ادارہ ہے، اسے بھی یرموک کیمپ میں امداد پہنچانے نہیں دی گئی اور اس کے امدادی قافلے پر فائرنگ کی گئی۔

احمد ال مجدالانی نے حماس کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ شام میں کی جانے والی دہشت گردی کی باقاعدہ مذمت کرے اور شام میں مصروف عمل سارے مسلح گروہوں سے تعلقات ختم کرے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ حماس کوئی ایسا کام نہ کرے، جس سے شام میں فلسطینیوں اور فلسطینی کاز کو اور شام کی غیرت مند عرب قوم جس نے شروع سے اب تک فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کی ہے، کو کوئی نقصان پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین لاکھ فلسطینی مہاجرین شام سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں 16 جنوری 2014ء کو رملہ فلسطین میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یرموک کیمپ کو یرغمال بنانے والے گروہوں میں اکناف بیت المقدس اور ال عھدہ ال عمریہ نامی گروہ حماس کی پیروی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، لہٰذا حماس قیادت ان سے لاتعلقی کا اعلان کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شامی حکومت کے تعاون سے غذائی اجناس و دیگر اشیاء سے لدے ہوئے چھ ٹرک یرموک کیمپ لے جانے کی کوشش کی تھی لیکن دہشت گردوں نے اتنی شدید فائرنگ کی کہ وہ علاقے میں داخل ہی نہ ہوسکے۔ فلسطینی وزیر محنت نے کہا کہ یہ دہشت گرد گروہ آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتے اور تھرڈ پارٹیز سے احکامات لیتے ہیں اور تھرڈ پارٹیز نہیں چاہتیں کہ مسئلہ حل ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کو بھی غذا و دیگر سہولیات کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں ان دیگر علاقوں سے غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے، جہاں ان کے ساتھی دہشت گردوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ البتہ یرموک کیمپ میں روزانہ تین تا پانچ فلسطینی غذائی قلت کی بناء پر جاں بحق ہو رہے ہیں، کیونکہ دہشت گرد ان تک غذائی امداد پہنچنے میں مانع ہیں۔ یرموک میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی ہوا کرتے تھے لیکن فلسطینی وزیر کے مطابق اب صرف بیس ہزار بچے ہیں، باقی یہاں سے نقل مکانی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

فلسطینی پاپولر کمیٹی کے مطابق 13 جنوری 2014ء کو اقوام متحدہ کی ریلف اینڈ ورکس ایجنسی نے یرموک کیمپ میں محصور فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کی کوشش کی تھی مگر ان پر حملہ کرکے بھگادیا گیا۔ فلسطینی وزیر محنت کی رائے میں یرموک کیمپ میں موجود دہشت گرد جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور دیگر اداروں نے بھی کہا کہ شام میں دہشت گردوں نے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا ہے۔ فروری کے آخری عشرے میں صورتحال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مقاومت اور شامی حکومت کے تعاون سے یہاں امدادی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق فلسطینیوں نے یرموک کا کنٹرول دہشت گردوں سے چھیننے کے لئے مزاحمت شروع کر دی ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے فلسطینیوں کے ہی نہیں بلکہ عرب دنیا کے بارے میں علامہ اقبال ؒ نے واضح الفاظ میں فتنے کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا تھا : ’’فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی، "جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے۔‘‘ آج اس فتنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے صرف فلسطینی تھے اور اب دہشت گردی کے نرغے میں پھنسے شامی عوام اور مظلوم فلسطینیوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ یہ جس سازش کے شکار ہوئے اس کا ادراک فلسطین اور عرب کاز کے خیر خواہوں کو پہلے سے تھا اور وہ اس فتنے سے خبردار کرچکے تھے۔ آج یہ سلاطین اور عالمی سیاست کا فرنگ یکجا ہوچکے ہیں۔ فلسطین کا نام 1948ء سے اسرائیل ہوگیا اور نسل پرستی کی بنیاد پر غیر فلسطینی صیہونی یہودیوں نے ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن فلسطین میں رہنے کے حق سے محروم کر رکھا ہے جو شام سمیت دیگر ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ لیکن فلسطین کی آزادی کی کسی کو بھی فکر نہیں۔ شام میں فرنگ و سلاطین کے ایجنٹوں کو حکومت میں لانے کے لئے جنیوا میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ ایسے لوگوں کے لئے عظیم مفکر اقبال ؒ کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں:
تیری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button