مقالہ جات

جہاد سے دہشت گردی تک

ttp flaqکلاشنکوف تھامے، تحریک طالبان پاکستان کے بینر تلے بیٹھا، وہ چہرہ جانا پہچانا سا لگا حالانکہ اس کی داڑھی مزید گھنی ہو چکی ہے اور شاید اس نے سفید بالوں کو چھپانے کیلئے مہندی بھی لگائی ہوئی تھی-

ایک طویل عرصے گمنام رہنے کے بعد، مست گل شمالی وزیرستان میں ایک اور عسکریت پسند کمانڈر کے ہمراہ گزشتہ ہفتے ابھرا، جو کہ پشاور میں ایک ہوٹل پر ہوئے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کر رہا تھا جس میں کئی شیعہ شہید ہوئے-

میری یادوں کے جھروکوں میں اٹھارہ برس پہلے کا وہ منظر تازہ ہو گیا جب ایک بھاری بھرکم قبائلی نوجوان کا ایک ہیرو کی طرح خیر مقدم کیا گیا تھا جس نے ہندوستان کے زیرقبضہ کشمیر میں واقع، چودھویں صدی کے مزار، چرار شریف کا دو ماہ طویل خونی محاصرے کئے رکھا- محاصرے کے دوران ہوئی لڑائی میں کئی ہندوستانی فوجی مارے گئے اور اس کا خاتمہ اس تاریخی مقدس مقام کی تباہی پر ہوا-

ہم نے بی بی سی کی ‘اسلامی دھچکے’ پر مبنی دستاویزی فلم کے لئے، مست گل کے ہمراہ، پنجاب میں اس ‘کامیابی کے جلوسوں’ کی فلمبندی کرتے ہوئے کئی روز گزارے تھے- جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اسے ایک عظیم "اسلامی سورما” کے طور پر پیش کیا گیا-

یہ بات واضح تھی کہ جماعت اسلامی اسے اپنے جہادی فلسفے کے فروغ اور زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد یا مائلیج حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہی تھی-

اس حوالے سے میری سب سے زیادہ واضح یاد، اس کے اعزاز میں لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کیمپس میں دیا گیا استقبالیہ تھا- جیکٹوں میں ملبوس مسلح عسکریت پسندوں میں گھرا، مست گل جیسے ہی کھچا کھچ بھرے اوڈیٹوریم میں داخل ہوا، کانوں کو پھاڑ دینے والے ‘جہاد’ کے نعروں سے جیسے وہاں کی چھت ہی اڑ گئی-

پھر جب اس نے ہندوستانی فوج کے ساتھ ہوئے اپنے معرکے کی کہانی بیان کرنا شروع کی تو ماحول مزید گرم ہو گیا- زوردار تالیوں اور اس کے اعزاز میں کی جانے والی فائرنگ کے دوران اس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ "کشمیر جلد آزاد ہو گا”-

پشاور کے رہائشی اور اپنے جاننے والوں میں ایک بے خوف، بہادر اور آزاد منش کے طور پر جانے جانے والے اس گنوار قبائلی کیلئے ایسی تعریف و تعظیم ناقابل یقین تھی- وہ غیر سنجیدہ تھا اور اکثر اپنے ساتھیوں کو اپنی کلاشنکوف، جسے وہ بڑے پیار سے اپنے پہلو میں رکھتا، چبھاتا رہتا- کبھی کبھار تو شو بازی میں فائرنگ بھی کر دیتا- تاہم، اپنے سرپرستوں کی جانب سے سر پر سے ہاتھ اٹھائے جانے کے بعد، ‘چرار شریف کا یہ ہیرو’، گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا — اور پھر پچھلے ہفتے یکدم دوبارہ ابھرا-

یہ وہ دور تھا جب عسکریت پسند، ریاست کی سرپرستی میں کھلے عام آپریٹ کرتے تھے- رضاکار بھرتی کئے جاتے، جن میں بڑی تعداد مست گل جیسے نوجوانوں کی تھی جو بندوقوں سے متاثر تھے اور جنھیں خطروں سے کھیلنے سے عشق تھا- چند اور بھی تھے جو مذہبی عقائد کے زیر اثر تھے-

عسکریت پسند گروپ، لاہور کی مال روڈ اور دوسرے شہروں کے مراکز میں، گوریلا ٹریننگ کے مظاہرے کرتے- دیواروں پر لکھے نعروں، پوسٹروں اور پمفلٹس کے ذریعے نوجوان مردوں کو ٹریننگ کیلئے مدعو کیا جاتا-

‘جہاد جنت تک پہنچنے کا سب سے چھوٹا رستہ ہے’، ان بہت سے نعروں اور نصیحتوں میں سے ایک تھا-

اس نظریے سے متاثرہ کئی لوگ، عالمی جہادی تھیٹر میں لڑتے ہوئے مارے گئے جو کبھی کشمیر ہوتا تو کبھی افغانستان، کبھی بوسنیا تو کبھی چیچنیا-

پاکستان کو یہ غیر معمولی اعزاز حاصل ہو گیا تھا کہ یہ وہ واحد ملک ہے جو عسکریت پسندی کو اپنی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی میں ایک آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے اور جس نے ملک کو جہاد کی نرسری میں تبدیل کر دیا-

مست گل جیسے لوگ یقیناً نایاب نہ تھے- پراکسی وار کے لئے خطرناک عسکریت پسندی کا بے دریغ استعمال، بالآخر اس ملک کو پریشان کرنے کے لئے واپس لوٹا-

سڑک چھاپ آوارہ سے جہادی اور بلآخر دہشت گرد بننے کی کہانی، صرف مست گل کی ہی نہیں بہت سے دوسروں کی بھی ہے-

مست گل جیسے کئی عسکریت پسندوں نے اب جہاد کا رخ اندرونی سطح پر موڑ لیا ہے، جس میں وہ اپنے پرانے سرپرست، خفیہ اداروں کے ساتھ ساتھ معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو بھی شہید کر رہے ہیں-

متعلقہ مضامین

Back to top button