مقالہ جات

کچھ شہید آغا آفتاب حیدر جعفری کی یادیں

agha aftab articalبسم رب الشہداء
کچھ شہید آغا آفتاب حیدر جعفری کی یادیں
مجھے اچھی طرح یاد ہے جبب میں کراچی میں نوواد تھا اور گولیمار کراچی ،ناظم آباد میں رہائش تھی اور میں جامعہ عثمانیہ انٹرمیڈیٹ کالج کا طالب علم تھا اور دارالبلیغ اسلامی رضویہ سوسائٹی کی دینی تبیلیغاتی اور روحانی ماحول سے کب فیض کیا کرتا تھا ،اور فری لانس جرنلسٹوں کی طرح میں بھی فری لانس تنظیمی تربیتی دروس میں شرکت کیا کرتا تھا اور آئی ایس اوگولیمار علی بستی یونٹ کے دروس میں شرکت کا شرف حاصل ہوتا تھا اور کراچی امن وسکون کا گہوراہ غریبوں کے لیے ماں کی گود کی طرح محفوظ و ماحون شہر
اور انہی ایام میں جب آئی ایس او کے درس کے پروگرام میں شرکت کرتے ،علی بستی کی مسجد میں بندہ تاچیز کی شہید علامہ آفتاب حیدر جعفری سے شناسائی ہوئی وہ ہم سے دویاتین سال سینئر تھے ،مگر وہ بالکل ہم عمروں کی طرح بے تکلف اور انتہائی ہمدردو اور ملنسار آدمی ابتدائی نوجوانی کے ایام سے بلا کی قوت تشخیص کے حامل انسان تھے۔ خدا کنداین عاشقانی پاک طینت دا۔
علمی دینی درد :
مجھے وہ واقعہ نہیں بھولتی جب ہم ایک دفعہ آئی ایس او کے نوجوانوں اور محبین کے درس سے باہر نکل کر مسجد کے دروازے کے سامنے گھنٹوں بحث کر تے رہے غالبا شہید بی کے طالب علم تھے اور وہ اسوقت ملت مظلومہ تشیع میں خصوصیت سے محرم الحرام میں حقیر کے بامقصد استعمال کے فقدان پر کڑا کرتے تھے اور بڑے شدومد سے تنقید کر تے تھے کہ بعض ذاکرین محترم حفیر کی رسالت کا حق ادا نہیں کر ہے ہیں۔۔۔۔۔ اور قوم مزاج احام شہداء حضرت ابی عبداللہ حسین ابن علی ؑ کے نام پر خراب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔اور اکثر کہتے تھے بھائیوں سوچو تو کیا امام حسین ؑ نے قربانی دین پیغمبر کے احکام پائمال کرنے کے لئے تو نہیں دیا تھا آخر ہماری قوم سو چتی کیوں نہیں؟؟
اس رات بھی شہید بڑے ہی دکھے دل کے ساتھ احساس حسؤلیت سے عاری ذاکری کو ہدف تنقید بنا رہے تھے کچھ دیگر دوستوں نے بھی اور راقم نے رات کی تاریکی میں مشورہ دیا۔ بندہ خدا آپکی زبان الحمد اللہ بڑی دواں ہے۔مطالعے کا دھن بھی ہے،درد کا احساس بھی ہے،اور درد کا علاج بھی تقریبا تشخیص شدہ ہے لہٰذا بی اے مکمل کر تے کرتے ابتدائی عربی ادب صرف و نحواور دیگر کتب سے استفادہ کیا جائے بیز شہید مطہری کے لڑیچر سے استفادی کر تے ہوئے کم سے کم کی مقدار سے ایک کام شروع تو ہو۔۔۔۔کوئی تو قدم بڑھائے جن برادران کو خدانے توفیق دی ہے وہ قم چلے جائیں اور جو گھریلو مسائل سمیت دیگر اقتصادی سر گر میوں میں بچپن سے ہی مصروف عمل ہیں وہ کراچی کی علمی فضا سے فائدہ اُٹھائیں۔
اس رات شہید نے بڑے جذباتی انداز میں کیا اس راستے میں ،مشلات ضرور ہیں لیکن ان کا حل بھی موجود ہے ایک رضاء کار رہیں ہوا۔ شہید نے دلائل کم سنے اور عمل پر کمر بستہ زیادہ ہوئے۔ ہم لوگ یونیورسٹی گئے اور اسلامی علوم میں بی اے آنرز میں داخلہ مل گیا اور شہید اسو قت تک بی اے کر کے ذمہ دارانہ ذاکری اور خطابت میں مشغول ہو گئے،وہ ذاکری کا افتاب تھے
ذاکری کاآفتاب تھے:
جیسا نام ویسا کام ۔۔۔۔اس نے کم مدت میں نامی گرمی علماء اور قابل ذکر ذاکروں میں اپنا ایک انفرادی مقام حاصل کیا۔ یہ اسی پر خلوص متحرک اور درد مند شخصیت کے عمل کے قوہ محرکہ ہونے کا بین ثبوت تھا کہ آئی ایس او کے سینئر کہلا ئے جانے کے بعد جب تک تحریک جعفریہ فعال رہی شہید بغیر کسی نمائش اور جاہ و منصب کی لالچ کے گمنام طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور جب تحریک پابندیوں کے زد پر آئی اور اچھے اچھے بزرگ گھروں میں بیٹھے رہنے پر مجبور ہوئے اسوقت شہید آئی ایس او کے کارکنوں کی بے لوث وبے دیاخدمت انجام دیتے رہے تربیت کر تے رہے۔
پھر کرچی میں قومی جاعتوں کے جمود کے زمانے میں جعفریہ الائنس کے متحرک علماء خطبا اور ذاکرین میں متحرک نظر آئے اور جب ایکبار پھر قومی سطح کی جماعت وحد المسلمین نے میدان عمل میں کھل کر قدم رکھا تو شہید نے بغیر کسی تردد اور تذبذ ب کے جعفریہ الائنس چھوڑ ا اور وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم سے ملت کو حالات حاضرہ اور شیعی صیارزاتی ثقافت سے حتی المقدمد آگاہ کر تے ہے اور اس خدائی فریضیے کی انجام دہی کے دوران آج کل ہی کء ایام تھے جب پھچلے سال اس شہر نا پر سان حال میں طاغوتی کار پردازوں نے ملت جعفریہ کے آفتاب ذاکرین کو صبح ڈیوٹی پر جاتے ہوئے خاک و خون میں نہلا دیا۔
شہادت کی آروزو کی تکمیل :
شہید مظلوم علامہ آفتاب حیدر جعفری نے رات ۱۱ بجے کے قریب جو کلمات زبان سے ادا کر تے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس راہ میں کانٹے اور شہادت کا کھٹن مرحلہ بھی ہے اگر کوئی برداشت رکھنے والی دل ہو تو حق بات کہنا آسان کہاں ہے؟۔۔۔ انھوں نے صبح سویرے ان وعدوں کو سچ کر دکھا یا جو خدا کے بے دیا اور مخلص بندے عموما ایسا کر تے ہے ہیں ۔ خدایا ہمیں راہ شہید پر چلنے کی تو فیق عنایت عطا فرما شہید کی قوت تشخص اور فیصلہ عظافرما ہمارے شہید کو شہید کر بلا کے ساتھ محشور فرما۔ اور ان کے درجات کو بلند فرما ن کے مقدس خون کے صدقے میں ظالموں اور ستمگروں، قاتلوں کو ان کے منطقی انجامج تک پنچا۔
شہید اور مسئلہ فلسطین :
شہید مظلوم ایک بالبصیرت اور پر خلوص دل کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ امام بزرگوار خمینی بت شکن کے زبرست پیرو تھے۔ اور انتہائی جاندار انداز خطابت ے ساتھ انتہائی ہنر مندانہ تبلیغی انداز میں امام کا پیغام پنچاتے ہوئے اور امام کے بعد رھبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہٰ ی کی قیادت اور افکار کے پر چارک بھی ہے اور اکثر حادثات، صیت اور احتجاجی جلسوں میں جوانوں کے دلوں کی دھڑکن ہوا کر تے تھے چانچہ اسی دیرینہ خلوص اور گہری بصیرت کی روشنی میں فلسطین فاونڈیشن کے جلسوں، سمیناروں اور یوم القدس کی ریلیوں میں بھی صف اول میں شریک ہوتے تھے اور نہ صرف شریک بلکہ ظلم کے خلاف زبردست منطقی الفاظ کے ساتھ آوازبلند کر تے تھے۔درحقیقت شہید درد مند دل کے مالک تھے اور امت پیغبر پر جہاں بھی ظلم ہو تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔یہی انکی روش عالم استکبار کے تمام رشتوں کو بڑا ناگوار گزرا اس شہید کو ہم سے جدا کر دیا۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطان
خدا رحمت کنداین عاشقان پاک طینت را

متعلقہ مضامین

Back to top button