مقالہ جات

خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو

mwm 24 marchعجیب اضطراب اور بے چینی کی کیفیت ہے۔ آنکھوں کے سامنے کچھ شہداء کے چہرے آتے ہیں۔ کچھ زخمیوں کے آخری الفاظ کانوں سے ٹکرا کر روح میں درد برپا کر دیتے ہیں۔ ہر شہید و زخمی کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ وہ دوستوں میں کیسا تھا، گھر میں کیسا تھا۔ محرم میں کونسی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔ جشن نوروز کیسے مناتا تھا۔ آخری موبائل کال کس کو کی۔ آخری میسج کیا بھیجا۔ اپنی والدہ سے کیا کہہ کر رخصت ہوا۔ کس کی ہمشیرہ گھر میں اس کا انتظار کر رہی تھی۔ کس کے والد کو اپنے کڑیل جواں بیٹے کی شہادت کا یقین ہی نہیں آتا تھا اور وہ اپنے اعتبار کے لوگوں سے بار بار پوچھتا تھا کہ تم مجھے سچ بتاؤ۔ میں ان بزرگوں کو کبھی بھول نہیں سکتا ہوں، جو اپنے بچوں کے لاشے دفنانے کے بعد ایکدم ہی بوڑھے ہوگئے۔ میں اس بچے کے الفاظ بھی نہیں بھلا پا رہا ہوں جو کہ بڑے حوصلے سے کہتا تھا دادا۔۔دادا۔۔تھوڑا پانی دو۔ ابا مر گیا ہے یا زندہ ہے۔ اگر یہ سارے واقعات و سانحات تحریر کئے جائیں تو کئی صفحات درکار ہونگے مگر میں یہاں دو واقعات کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔

یہ ستمبر 2008ء کی ایک منحوس رات تھی۔ رات کے آخری پہر موبائل پر میسج موصول ہوا، جس میں بتایا گیا کہ عیدگاہ کلاں کے نزدیک ایک غریب مومن ظفر عباس کے گھر کو پلانٹڈ بم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس میں گھر کے مکیں شہید ہوگئے ہیں۔ رات کافی بیت چکی تھی، کچھ دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر سود مند ثابت نہ ہوئی۔ صبح سویرے ایک دوست کی کال آئی جس نے بتایا کہ کل رات ڈی آئی خان میں شدید بارش اور طوفان تھا۔ اسی خراب موسم میں خستہ حال کچے مکان کے قریب ایک پلانٹڈ بم کے ساتھ گیس سلنڈر رکھا گیا تھا۔ بم کے پھٹنے سے مکان کی دیواریں ہوا میں تنکوں کی طرح بکھر گئی اور گیس سلنڈر کے پھٹنے سے آگ نے ہر چیز کو بھسم کر دیا۔ ظفر عباس اور اسی گھر کی ایک خاتون موقع پر شہید ہوگئے ہیں جبکہ ایک بچہ جس کی عمر تقریباً 12 سال ہے، شدید زخمی حالت میں اسلام آباد بھیجا گیا ہے۔

شام کے آس پاس دوستوں کے ہمراہ پمز ہاسپٹل میں زخمی بچے علی رمضان کا انتظار کر رہے تھے کہ ایمبولینس آئی۔ بچے کے ساتھ فقط اس کا بوڑھا دادا تھا۔ ایک ایسا بزرگ جو شہید بیٹے کو چھوڑ کر زخمی پوتے کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شدت غم سے نڈھال تھا۔ میری آنکھیں وہ منظر کبھی نہیں بھلا سکتیں، حالانکہ اگست 2008ء کے ہاسپٹل بم دھماکے کے کئی زخمیوں کون ہایت قریب سے دیکھ چکا تھا۔ جن میں عنصر عباس ایسا زخمی تھا جس کے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے محفوظ نہیں تھا۔ قوم کے اس غازی کے بازو یکے بعد دیگرے تین آپریشنز میں تین دفعہ قلم کئے گئے حتٰی کہ آخری بار کندھوں کے قریب سے قلم کئے گئے۔ پہلی بار جب ایمرجنسی کے سائیڈ روم میں عنصر بھائی کے بازوؤں کی پٹیاں کھولی گئی ضبط کی ہزار ہا کوششوں کے باوجود کوئی بھی دوست آنکھوں میں آنے والے آنسوؤں کو روک نہ سکا۔ لیکن علی رمضان کے جھلسے ہوئے معصوم وجود نے روح میں چنگاریاں سی بھر دیں تھیں۔ جب اس بچے کو ایمبولینس سے سٹریچر پر منتقل کرنے کی کوشش کی تو جسم کے جس حصے سے بھی ہاتھ مس ہوتا اس زخمی شہید کے جسم کا گوشت اتنا جھلس چکا تھا کہ ہاتھ کی انگلیاں اس گوشت میں دھنستی محسوس ہوتیں۔

بچہ ایک ہلکی سی کراہ کے ساتھ کہتا۔ دادا، دادا۔ تھوڑا پانی دے دو۔ بہت پیاس ہے۔ اس وقت اس بچے کو پمز کے برن یونٹ میں بیڈ تو مل گیا۔ رات گئے ڈاکٹروں نے یہ تسلی بھی دے دی کہ گرچہ یہ کیس ہمارے لیے ایک چیلنج ہے لیکن بچے کی حالت خطرے سے باہر ہے، مگر اگلے ہی روز میریٹ ہوٹل پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد غیر ملکی زخمیوں کو جب اسی برن یونٹ میں منتقل کیا گیا تو تقریباً آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد شہید علی رمضان سفید چادر میں لپیٹ کر ایک لفظ سوری کے ساتھ واپس کر دیا گیا۔ شائد کہ اس برن یونٹ میں بستر کم اور ضرورت مند زیادہ تھے۔

یہ اندوہناک سانحات 2008ء میں پیش آئے۔ ان سانحات میں کون سے دہشت گرد ملوث تھے۔ ڈیرہ کے اہل تشیع کے خون کی ہولی کیوں کھیلی گئی۔ دہشت گردوں کو کہاں کہاں سے مدد و کمک ملتی رہی۔ ان چیزوں سے بالاتر ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں کہ فروری 2008ء کے انتخابی نتائج کا ملت تشیع کی نسل کشی سے گہرا تعلق ہے۔ ان نتائج نے ڈیرہ کی سطح پر اہل تشیع کو سیاسی یتیم بنا دیا تھا، حالانکہ ڈیرہ میں اہل تشیع اتنی قوت ضرور رکھتے تھے کہ وہ متفقہ طور پر کسی بھی معتدل شخصیت کو ووٹ دیتے تو کالعدم سپاہ صحابہ کا خلیفہ عبدالقیوم کبھی بھی اسمبلی تک رسائی حاصل نہ کرتا۔ PF-64 کے انتخابی نتائج میرے سامنے ہیں۔ خلیفہ عبدالقیوم 14696 ووٹ کے ساتھ پہلے، حفیظ اللہ خان علیزئی 12444 ووٹ کے ساتھ دوسرے اور 6905 ووٹ کے ساتھ ایزد نواز خان تیسرے نمبر پر رہے۔

یقیناً خلیفہ عبدالقیوم کو کسی ایک شیعہ نے بھی ووٹ نہیں دیا، لیکن کیا حفیظ اللہ خان علیزئی اور ایزد نواز کی تمام تر انتخابی مہم کا مرکز شیعہ کیمونٹی نہیں تھی۔ ایزد نواز کے لیے ووٹ مانگنے والوں کا مقصد ہرگز اس کی کامیابی نہیں تھا بلکہ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرنا تھا۔ اسی تقسیم کے نتیجے میں ہی خلیفہ عبدالقیوم کو صوبائی اسمبلی تک رسائی ملی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں واضح برتری کے ساتھ قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے الحاج عمر فاروق کو چھوٹی سیٹ پر فقط 20 ووٹ ملے اور اس سے قبل ایم پی اے منتخب ہونے والے مظہر جمیل خان کو فقط 26 ووٹ ملے۔ جو اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ PF-64 کا صوبائی اسمبلی کا ووٹ مکمل طور پر نظریاتی ہے۔ جو شخصیت کے بجائے یا تو بھٹو و بے نظیر کی شہادت کو مدنظر رکھتا ہے یا پھر امن پسندی اور عزاداری امام حسین (ع) سے اخلاص کو پیش نظر رکھتا ہے۔

کیا شہدائے ڈیرہ کے ورثاء اپنے زخمیوں کو اپنے شہداء کو بھول بیٹھے ہیں، جو ایک بار پھر دہشت گردوں کے مذموم ایجنڈے کا شکار ہوکر تقسیم ہوکے رہ جائیں گے اور اگلے پانچ سال پھر تختہ مشق بنے رہیں گے۔ نہیں، شہدائے ڈیرہ کے لہو کا قرض باقی ہے اور اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزرتے رہیں گے۔ ہم اگر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ جان بس حسین(ع) کی تو پھر ہم اپنے ووٹ سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیوں کرتے ہیں جس کو عزاداری امام حسین (ع) سے کوئی سروکار نہیں۔ کیا ہم نے اپنے ووٹ کا استعمال اپنی گلی کی نالیاں بنوانے کے لیے کرنا ہے یا دوکان کے سامنے تھڑا بنانے کے لیے۔ کیا ہم اپنا ووٹ اس بنیاد پر دیں گے کہ واپڈا کے دفتر میں سے کس نے میرے بجلی کے بل کی قسطیں کرا کے دیں تھیں یا پھر اس لیے کسی غیر حسینی (ع) کو ووٹ دیں گے کہ گیس کا میٹر جلدی لگا کے دے گا۔

آج قدرت نے ہمیں فیصلے کا ایک موقع دیا ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے ہم عزاداری امام حسین (ع) کے دشمنوں کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال سکتے ہیں۔ ہم جان بھی حسین (ع) کی اور ووٹ بھی حسین (ع) کے نعرے سے کسی حسینیؑ عزادار کا ہی انتخاب کریں گے۔ الحمداللہ کہ ہمارے پاس ایک ایسا امیدوار ہے جو کہ سیاسی بازیگر نہیں ہے۔ وہ صرف اس بنیاد پر صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لے رہا ہے کہ ڈیرہ میں ہونے والے اہل تشیع کے استحصال کے آگے بند باندھا جاسکے۔ جس کے بعد بحیثیت شیعہ یہ فریضہ ہے کہ حسین (ع) کی نوکری کا دعویٰ کرنے والے حسین (ع) کے خادم کا ہی انتخاب کریں۔
جان بھی حسین (ع) کی ووٹ بھی حسین (ع) کا
نوکر میں حسین (ع) کا وہ بھی خادم حسین (ع) کا

متعلقہ مضامین

Back to top button