مقالہ جات

الیکشن 2013ءملت تشیّع کا کڑا امتحان

vote11زمانہ قدیم سے حق اور باطل برسر پیکار رہے ہیں۔ باطل نے تیر و تفنگ سے لیس ہو کر معاشرتی قدروں پر وار کیا ہے تو حق بھی خون جگر دے کر انسانیت کا بول بالا کرتا رہا ہے۔ طاغوت نے ہمیشہ شیطانی قوتوں اور قبیح ہتھکنڈوں سے سچائی کو مات دینے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا اور بربریت، درشتگی و درندگی سے قدم قدم پر نیکی کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو ایمانی طاقتیں بھی حق کی سربلندی کیلئے آگے بڑھ کر اپنی گردنیں پیش کرتی رہی ہیں۔ یہ حق ہی ہے جو کبھی بھی خوش فہمی کی چادر اوڑھ کر بےحسی کے خواب آنکھوں میں سجا کر غفلت کی نیند نہیں سویا۔ ایمانی طاقتیں کبھی اِس روش پر نہیں چلا کرتیں کہ راہ حق پر ہونے کی وجہ سے انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنا ایمانی طاقتوں کا طرّہ امتیاز نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ نہیں دباتیں بلکہ جب بھی ضرورت آن پڑی جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر اپنے لہو سے ریت کے ذروں کے منہ دھلا دیئے ہیں۔

تاریخِ انسانی آشکار کرتی ہے کہ ہابیل و قابیل سے حسین (ع) و یزید تک کے معرکے میں حق کبھی باطل کے حربوں سے غافل نہیں رہا۔ ہر مرحلے میں حق باطل سے بھی زیادہ باخبر، ہوشیار اور تیار رہا ہے۔ نہایت اعلیٰ درجے کی مستعدی اور حکمت عملی سے مسلح ہو کر میدان عمل میں رہا ہے۔ رہی بات عددی برتری کی تو اس کمی کو جذبہ ایمانی سے پورا کردیا۔ ہاں یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے بہت سارے منافقانہ عناصر نے حق کا لبادہ اوڑھ کر عام انسانوں کو تقسیم و تضادات کا شکار کیا اور انہیں غفلت کی نیند کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ کبھی باطل کے خیمے میں پناہ لیکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور کبھی اپنے بدصورت، کریہہ المنظر چہرے سے لوگوں کو پراگندگی اور بےزاری کے بھنور میں بھٹکانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ان خود ساختہ مفاد پرست حق نما عناصر نے جتنا معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے وہ افسوس ناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ اس وقت عالم اسلام شورشوں اور انتشار کی بھٹی میں جل رہا ہے۔ تمام استعماری قوتیں متحد ہو کر عالم اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ اُنہوں نے مسلمانوں کے گرد سازشوں کا جال بُننا شروع کر دیا ہے، اور چند اسلامی ممالک بھی ان قوتوں کے نہ صرف آلہ کار بن چکے ہیں بلکہ ذاتی مفادات اور بغض و عناد سے اندھے ہو کر مغربی طاقتوں کے اندوہناک منصوبوں کی تکمیل میں بہت حد تک آگے نکل چکے ہیں۔

ایران کا کردار اس حوالے سے دانش مندی کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس نے اپنی حکمت عملی اور اصول پسندی سے صیہونی طاقتوں کے اصل چہرے کو بےنقاب کر دیا ہے۔ وسائل اور اعدادی اعتبار سے ایران کا تمام اجتماعی شیطانی قوتوں سے کوئی موازنہ نہیں مگر جو بات امتیازی حیثیت کی حامل ہے وہ ایرانی قوم کی بیداری اور دشمن شناسی ہے۔ مربوط اور منظم پالیسیوں کی بدولت انہوں نے دشمن کیلئے کوئی میدان خالی نہیں چھوڑا۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ امریکہ ہی کی ایک ذیلی جماعت ہے جو مغربی ممالک کے مفادات کے حصول اور دفاع میں کوشاں ہے مگر اس کے باوجود ایران نے اپنی بصیرت اور مدبرانہ حکمت عملی کے پیش نظر اس پلیٹ فارم کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ جب بھی موقع ملا اپنے موقف اور درست stance کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تمام ممالک سے سفارتی تعلقات کو قائم رکھا ہے اور اُنہیں اپنی پالیسیوں پر قائل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کر رہا ہے۔ اپنی مضبوط اور موثر خارجہ پالیسی کی بدولت ایسے افراد و ممالک کی آنکھ کا تارا بنتا جا رہا ہے جو کبھی اس کی idiology سے مکمل خائف نظر آتے تھے۔

حال ہی میں NAM کا کامیاب اجلاس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ اقدامات ہماری رہنمائی کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی کبھی بھی خلوت کدوں میں گوشہ نشیں ہو کر ہمیشہ آہ و فغاں کی صفیں بچھائے نہیں رہتی بلکہ کاہلی و جمود کی زنجیروں کو توڑ کر میدان عمل میں عزم صمیم کی بدولت کامیابی کے جھنڈے لہراتی دکھائی دیتی ہے۔ دنیا کی سختیوں اور ناانصافیوں سے دلبرداشتہ ہو کر میدان عمل سے راہ فرار اختیار کرنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ صریحاً بزدلی اور کم عقلی کے مترادف ہے۔ زندہ قوموں کا طریق احسن یہ ہے کہ عقلِ سلیم کی ترکیبوں سے دشمن کو خود اسکی عیاری و مکاری کا نشانہ بنایا جائے اور اسے بےنقاب کر کے نحیف و کمزور کر دیا جائے۔ ظاہری طور پر طالبان نے بھی شریعت کے نفاذ کی صدا بلند کی تھی، یہ مناسب اور خوبصورت slogan دکھتا تھا اور دنیا کے بیشتر مسلمان طالبان کو اپنا نجات دہندہ اور قابل قدر خزینہ سمجھ بیٹھے تھے، مگر طالبان قول و فعل کے تضاد کا شکار تھے۔ ناقص خارجہ پالیسی، عقل و خرد سے عاری حکمت عملی اور دوسرے مسلمانوں کیلئے رعونت و عناد اُنکی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ غرور و گھمنڈ اور غیرحقیقی تصوراتی آرزوں کے زعم میں کوئی واضح اور مدلل آئیڈیالوجی کی ترویج نہ کر سکے۔ اقوام عالم سے مثبت تعلقات عامہ استوار کر کے اپنا موقف اجاگر کرنے میں بھی ناکام دکھائی دئیے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کج مہمی، جہالت اور جنگی جنون کا شکار تھے۔ وہی قومیں کامیابی و کامرانی کی منزل پا لیتی ہیں جو خیمہ حق میں اپنا آشیانہ تلاش کر لیں اور سرزمین باطل سے اپنامنہ موڑ لیں اور حق کے پرچار میں جرات، بردباری اور تدبر سے کام لیں۔ سیاسی صفوں میں اتحاد اور یگانگت کا قرینہ اعود کر لے آئے۔ گزرے لمحات سے سبق حاصل کرے اور مستقبل پر گہری نظر ہو۔ نا دیدہ چیلینچز کا ادراک ہو اور ہر پل بدلتے حالات کے تانے بانوں کے اثرات سے پوری طرح واقف ہو۔ اسکے علاوہ آنے والے وقت کیلئے پرمغز منصوبہ بندی کی راہ پر گامزن ہو۔

ملت تشیع کو پاکستان میں سخت حالات کا سامنا ہے وہ اپنی بقاء کی جنگ سے دو چار ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دشمن منظم انداز میں پوری قوت کے ساتھ یلغار کر رہا ہے تاکہ ملت جعفریہ کو کمزور کر کے اس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ دشمن خطرناک پلاننگ کے ساتھ تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ پہلے اس نے عام لوگوں کو کثیر تعداد میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کی مثال گلگت بلتستان اور کوئٹہ کے راستے میں ہونے والی شہادتیں ہیں۔ اس عمل کا مقصد ملت جعفریہ کو جانچنا تھا کہ اس قوم کی strength کتنی ہے۔ کیا کمزوریاں اور کون سے مثبت پہلو ہیں۔ وہ رد عمل کی شدت اور فعالیت پر بھی نظریں مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ان مواقع پر احتجاج اور دھرنے دیکھنے میں ضرور آئے مگر ان میں coordination کا فقدان تھا۔ کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی۔ عین اس وقت جب ایسے واقعات ہو رہے تھے تو معلومات کی کمی کے باعث ہر کوئی سراسمیگی کی عالم میں نظر آرہا تھا۔ تِھنک ٹینک اور پالیسی ساز ادارے نہ ہونے کی وجہ سے فعال راہنما بھی یہ اخذ کرنے سے قاصر تھے کہ ان کے پیچھے کون ہیں اور ان کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔ عام آدمی اپنی بساط کے مطابق قیافے لگانے پر قانع تھا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ان مسائل کا شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم لائحہ عمل کیا ہونا چاہیئے۔

پے در پے واقعات جتنی شدت سے ہوتے رہے اتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ مختلف مذہبی تنظیموں کے مابین اتحاد کو اجاگر نہ کیا جا سکا۔ دوسرے مرحلہ میں شرپسند عناصر نے باصلاحیت پروفیشنلز کو نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ اس قوم کے مغز کو متاثر کر کے اس کی کمر کو توڑ دیا جائے۔ ان خطرات کی سنگینی کا احساس اور فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمیشہ کیلئے اس کے موذی اثرات کا تدارک کیا جا سکے۔ دشمن عناصر کا اگلا مرحلہ یقیناً ایسے افراد کو نشانہ بنانا ہو سکتا ہے جو قوم کی رہبری اور راہنمائی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس سارے گھناؤنے کھیل کا مقصد اہل تشیع افراد کا خاتمہ اور اُنہیں ہراساں کر کے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ عمل ڈیرہ اسماعیل خان میں انجام پایا ہے اور اب کوئٹہ کے بیشتر علاقوں میں نہایت سرعت کے ساتھ ہوتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جب باصلاحیت professionals کو چن چن کرشہید کیا جاتا ہے تو ایک روایتی احتجاج کے بعد ہم فورا معاملات زندگی کی رعنائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ جب یہ تعداد پچاس سے زائد ہوتی ہے تب بھی ہمارے احساسات اور تگ و دو کا معیار بھی کچھ تسلی بخش نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں سو سو لاشوں کا انتظار کرنا ہوگا کہ تب جا کر قوم جاگے گی اور وہ بھی دھرنوں کی حد تک۔ ۔ ۔ ۔ دھرنے، احتجاج اور پھر وہی گہرا سکوت۔ یہ امر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ روح فرسا اور دل دہلانے والے واقعات کے بعد جب حکومت کی طرف سے محض تسلی اور خالی وعدوں کے لولی پاپ کے ذریعے ٹرخایا جاتا ہے تو ہم بہت متکبرانہ انداز میں ببانگِ دہل ان اعلانات کی منادی میں لگ جاتے ہیں کہ ہم نے کامیابی کے بڑے قلعے مسمار کرلئے ہیں اور فتح کی خوشی میں مستقبل سے نگاہ ہٹ جاتی ہے۔ چند دن بعد ہلاکتں پھر ہماری منتظر ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان تباہ کن واقعات سے پہلے اور بعد میں دیوہیکل چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی واضح روٹ میپ ہمارے پاس نہیں ہوتا۔

دھرنے اور جلوسوں میں لوگوں کی امیدوں اور حوصلوں کو بےمقصد تقاریر اور لاحاصل نعروں کے ذریعے اجاڑ دیا جاتا ہے اور انہیں مایوسی کی طرف دھکیلا جاتا رہا ہے۔ جس وقت قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی مکمل کوریج حاصل ہو رہی ہوتی ہے اس وقت محض امریکہ اور اسرائیل کی لعن طعن کی گونج میں اصل قاتلوں اور درندوں کو آشرباد مل رہا ہوتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ منقسم انداز میں دئیے جانے والے دھرنے سے دشمن کی نابودی ممکن نہیں۔ اگر ہمارا اسلوب یہ ہو کہ ہم صرف اس انداز میں روتے پیٹتے رہیں کہ شیعوں کا قتل عام ہو رہا ہے، ہم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ہمیں بچایا جائے تو میں آپ کو دعوت تفکر دیتا ہوں کہ آپ خود ایک لمحے کے لئے سوچ لیں کہ اس طرح کے ردعمل سے دشمن پر کیا اثر ہوتا ہو گا۔ بہت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم ان کی انرجیز کو بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے انکو تھپکی مل رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں اور پوری قوم ان کے سامنے گڑگڑا رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ خصوصا تمام مذہبی تنظیموں کو ایک مشترکہ leadership کے سائے تلے آنا ہو گا اور تمام واقعات کے ہونے سے پہلے ہی ان کوڈیفیوز یا ڈائلیوٹ کرنے کی موثر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس سے آنکھیں چرانا بےسود ہوگا۔ ہمیں اسی معاشرے کی driving forces اور سیاسی نظام کا stack holder بننا ہوگا۔ دانش مندانہ پہلو یہ ہے کہ اقلیت ہونے کی کمزوری کو اتحاد اور ایکا ہونے سے پورا کیا جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہمیں ملت کو معاشی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی لحاظ سے مضبوط تر بنانا ہوگا۔ اس خواب کو تعبیر بخشنے کے لئے یونیورسٹیاں اور جدید ادارے قائم کرنے ہونگے۔ انجینیرنگ، ٹیکنیکل اور میڈیکل کالجز بنانے ہونگے۔ یہ کام ہمارے دوسرے مکتب ہائے فکر کے لوگ بڑی مستعدی سے کر رہے ہیں، جب کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور سرمائے کو صرف روائتی مدارس قائم کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہمیں ایک بڑی غیر ہنرمند ورک فورس مل رہی ہے جبکہ دوسری جہتوں میں کمی و تشنگی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ جہاں تک سیاسی اتحاد کی بات ہے تو یہ قومی تعمیر اور بقاء کا بنیادی محرک ہے۔ جو قوم سیاسی طور پر متحد نہیں ہو گی اس پر دوسرے بدترین افراد حکمرانی کر رہے ہونگے اور مشکل حالات میں انہیں نااہل افراد کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں آج کل تکفیری گروہ آپس میں گٹھ جوڑ کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ہونا بھی ایسا ہی تھا۔ جب میدان خالی چھوڑا جائے تو اس پر شرپسند قوتیں اپنا مکروہ کھیل کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ان کا انتخابی منشور آپ کی نظر سے ضرور گزرا ہوگا۔ وہ اس ملک کے سیاسی نظام سے ملت تشیع کو بےدخل کرنا چاہتے ہیں اور مشتاق ہیں کہ کسی بھی ادارے کا سربراہ اہل تشیع نہ ہو۔

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ قوتیں باہم اتحاد سے الیکشن لڑکر اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنا رہی ہونگی جبکہ ہم اپنی قوم کے ساتھ دھرنا، دھرنا، احتجاج، احتجاج، انقلاب، انقلاب کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ بات بقاء کی ہے تو میں کھل کر حالات کو واضح کرنا چاہونگا کہ آنے والا الیکشن پاکستان میں موجود ہر فرد کے لئے بہت اہم ہے۔ خصوصا ملت تشیع کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جو کہ ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے پوری ملت نے تمام تر ذمہ داریاں صرف علماء کے کندھوں پر ڈال کر خود تماشائیوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حالانکہ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنا چاہیئے۔ سیاسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو تین مذہبی تنظیمیں ہمیں فعال نظر آتی ہیں ان میں سے ایک علامہ جواد نقوی کی بیداری امت ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد لوگوں کو شعور و آگاہی کی معراج تک پہنچانا ہے مگر شنید یہ ہے کہ یہ تنظیم الیکشن میں حصہ لینے کے عمل کو بےکار اور بےمقصد گردانتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن سے کنارہ کشی سیاسی خودکشی کے مترادف ہے جبکہ دوسرے نااہل اور درندہ صفت عناصر کیلئے حکومت تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ اگر آپ کسی نظام کے سٹیک ہولڈر ہی نہیں ہونگے تو آپ اپنے مفاد اور سالمیت کے معاملات میں دوسروں کے دست نگر ہونگے۔ صرف دھرنوں میں تقریروں اور نعروں کے ذریعے قوم کو مشکلات سے نہیں نکالا جا سکتا۔ ان تقریروں میں ہم ایک ایسے نظام سے مطالبات کرتے ہیں اور ستم رسیدہ سمجھنے لگتے ہیں جسے ہم خود شجر ممنوعہ قرار دے چکے ہیں۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ الیکشن سے کنارہ کشی کی وجہ سے لوگ کسی ایسے گروہ کو ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں جو حکومت پر قابض ہو کر قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو۔

شیعہ علماء کونسل بھی ہمیں منظر عام پر متحرک دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک سینئر جماعت ہے اور لوگوں کو اس سے بڑی عقیدت رہی ہے اور وہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے رہے ہیں۔ مگر یہ تنظیم سیاسی منظر نامے پر جامد دکھائی دیتی ہے۔ عام آدمی سے رابطے کا فقدان نظر آتا ہے۔ جب کہ دوسری سیکولر جماعتیں ان کے برخلاف اپنے منشور اور سلوگن کی مدد سے نہ صرف لوگوں کی امیدوں کو زندہ کر رہی ہیں بلکہ منظم اور فعال جلسوں کے ذریعے لوگوں کو چارج کر کے اپنی طاقت اور قوّت کو بڑھا رہی ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے بیک ڈور ڈپلومیسی سے بڑے بڑے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ بند کمروں کی میٹنگز اور ملاقاتوں سے عام نوعیت کے اہداف تو حاصل کئے جا سکتے ہیں مگر قوم کو جگانے اور اسے گھمبیر مسائل کی دلدل سے نکالنے کا سامان ناممکن ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک بہت ہی معزز مذہبی رہنما کا بیان میری نظر سے گزرا۔ ان کا فرمانا تھا کہ ابھی تک ہم نے کسی جماعت سے الحاق کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں ہو رہے ہیں اور ان فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں جب پانی سر سے گزر جائے۔

ایک اور ممتاز مذہبی رہنما کا بیان بھی غور طلب ہے، ان کا فرمانا تھا کہ SUC اور MWM کا الحاق ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔ جب تکفیری گروہ آپس میں الحاق کر سکتے ہیں اور مشترکہ منشور پر مفاہمت ہو سکتی ہے اور مل کر الیکشن لڑنے کو تیار ہیں تو اہلبیت علیھم السلام کے چاہنے والوں کا آپس میں مل بیٹھنا اتنا محال کیوں ہے؟ اہم پہلو یہ ہے کہ جب مقصد سب کا ایک ہو تو طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایک ہی حل کو اپنا کر chaosکو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب MWM کی بات کرتے ہیں۔ MWM ہر مشکل گھڑی میں فرنٹ لائن کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے دلی وابستگی رکھتی ہے۔ مگر الیکشن کا بگل بجتے ہی MWM بھی مخمصے کا شکار ہو گئی ہے کہ کسی سے اتحاد بنایا جائے یا خود میدان میں اتریں۔ ابھی تک یہ گتھی سلجھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اس حوالے سے strategy ٹھوس بنیادوں پر بنانی ہوگی۔ مبصرین کی رائے کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن کے بعد حالات ملت تشیّع کے لئے مزید چیلنجنگ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ جو عناصر اور پرتشدد سیاسی پلیٹ فارمز سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر انڈر گراونڈ ہو چکے ہیں وہ الیکشن کے بعد کھل کر اپنی کارروائیوں کو انجام دے رہے ہونگے۔ ویسے بھی وہ کلین چٹ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر اگر خدانخواستہ ملت تشیّع ٹھوس سیاسی اقدامات کر کے اپنی اہمیت کا لوہا منوانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو مستقل میں زیر عتاب آ کر بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ان حالات میں دانشمندی سے منصوبہ بندی کر کے نہ صرف خود کو ناقابل تسخیر بنا کر شر پسند عناصر کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔

یوں کہنا بےجا نہ ہو گا کہ یہ ایک کڑے امتحان کا وقت ہے اور فوری طور پر چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک موثر ایجنڈا ترتیب دینا ہو گا۔ ایک پرمغز اور جامع منشور پر عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے تمام علماء کرام کی موجودگی میں ملکی تاریخ کا ایک نہایت عظیم الشان اور یادگار جلسہ منعقد کیا جائے جس سے لوگوں میں اتحاد و اتفاق اور امید و لگن کی رمک ایک بار پھر سے تازہ ہو سکے۔ بعد ازاں ایک گرینڈ الائنس ترتیب دے کر پریس کانفرنسز کا اہتمام کیا جائے اور اپنے ایجنڈے کو پورے ملک اور دنیا پر باور کرایا جا سکے۔ اس سے ایک طرف باہمی اتحاد کے ثمرات بھی حاصل ہونگے اور دیگر جماعتوں اور معاشرے میں ملت جعفریہ کے لئے وقّعت و اہمیت بھی پیدا ہو گی۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے تکفیری جماعتوں کے گنتی کے ووٹوں کی اہمیت زائل ہو جائیگی۔ یوں سیاسی جماعتیں ان کے پریشر میں آکے چھتر چھاوں پیش کرنے سے گریز کریں گی اور معاشرہ غیر انسانی پالیسیوں سے آزاد ہو جائے گا۔ رہی بات مشترکہ طور پر الیکشن میکینیزم کی، تو میری دانست میں ایک مشترکہ نام (گرینڈ جعفریہ الائنس) کے ذریعے میدان میں اترا جائے۔ اس طرح مستقبل میں اسمبیلیوں تک رسائی ممکن ہوگی اور امیدواروں کے لیے انہی خطوط پر ٹریننگ کا پلیٹ فارم بھی میسر آ جائے گا۔ یہ وہ روٹ میپ ہے جس کے ذریعے ملت تشّیع ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر اپنے مفادات کی خود حفاظت کر سکتی ہے اور باہم رشتہ اخوت و الفت کی طاقت سے ظلم و استبداد کے ہر قلعے کو زمین بوس کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button