مقالہ جات

کربلائے عصر کراچی کا آنکھوں دیکھا حال

blast abbasمیں صرف چند منٹ پہلے جائے وقوعہ سے گزر کر عباس ٹاؤن کی جامع مسجد کی طرف آیا، اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹائم طے کر رکھا تھا۔ دوست پہلے سے ہی میرے انتظار میں مقررہ جگہ پر کھڑا تھا۔ جب میں پہنچا تو دوست سے ابھی پوری طرح ہاتھ بھی نہیں ملا پایا تھا کہ دھماکہ ہو گیا۔ دھماکہ بڑا زور دار تھا۔ میں بڑی سرعت سے وقوعہ کی جانب بڑھا اور تمامتر صورتحال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ کچھ ہی لمحے پہلے کے ان ہنستے بستے مکانات کو ملبے کا ڈھیر پایا۔ عمارتیں پوری طرح آگ کی لپیٹ میں تھیں، ملبے اور آگ کے درمیان جو چیز سب سے نمایاں تھی، وہ خواتین اور بچوں کی چیخ و پکار تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب میں اپنے دوست سے ملا، اسی وقت اُس سے بیس روپے کا نوٹ لیکر ایک ننھے سے پھول کو رخصت ہوتے دیکھا تھا، جب میں وقوعہ کی طرف بڑھا تو میرے ساتھ میرا یہ دوست نہایت گھبراہٹ کے عالم میں مجھ سے بھی آگے پہنچ چکا تھا۔

اپنے اس دوست کے پیچھے پیچھے میں جب دھماکے کی جگہ سے کوئی سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر پہنچا تو دیکھا کہ میرے دوست کا وہی ننھا سا پھول اور میرے لئے جانا پہچانا چہرہ اسکی گود میں پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا، اس دوران وہ بدقسمت باپ اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کو ہسپتال کی بھی ہوش نہیں رہی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچے کے لہولہان اور زخموں سے چور بدن کو مسلسل چوم رہا ہے، کبھی اس کے ننھے چہرے کو چوم رہا ہے تو کبھی اسکے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو، میں نے دیکھا کہ وہ اسے سینے سے لگا کر زور زور سے چلا کر کہہ رہا ہے، علی بیٹا بولو، کیسی ہے تیری طبیعت، بیٹا نہ جانا کہیں نہ جانا۔ علی! علی! علی! کیوں خاموش ہو، بولو نا! اس منظر کو دیکھ کر میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ پھر کسی رضا کار نے مدد کر کے اسکو بچے سمیت ہسپتال کی جانب روانہ کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ اپنے والد کو ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے کر یہ معصوم شہید بھی ننھے علی اصغر (ع) سے ملحق ہو گیا۔ یونیورسٹی کا طالبعلم میرا یہ دوست جب آنکھوں دیکھے اس واقعہ کو سنا رہا تھا تو راقم بھی سنبھل نہ سکا، اور خوب رویا۔

کراچی یونیورسٹی کے طالبعلم مظاہر حسین نے مزید بتایا کہ وہاں پر بکھری لاشیں کربلا کے منظر کی یاد دلا رہی تھیں۔ میں نے کٹے ہوئے ایک نہایت چھوٹے ہاتھ کو روڈ پر پڑا دیکھا، جو بمشکل کسی 5 سال کے بچے کا ہو گا۔ ایک چھوٹے بچے کے آدھے دھڑ کو بھی دیکھا۔ جس کی ٹانگیں اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔ میں نے بہت کچھ دیکھا، کیا کیا بتاؤں، خدا کی قسم میں نے ایسے ایسے مناظر دیکھے جو چودہ سو سال پہلے بیتنے والے واقعہ کربلا کی یاد دلا رہے تھے۔ وہ کچھ دیکھا جسکا احاطہ الفاظ کی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں ہر طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے وہاں ایک ہولناک آگ بھی نظر آ رہی تھی، جس کے اندر خواتین اور بچوں کی چیخ و پکار نے آس پاس موجود تمام رضاکاروں کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ میں نے کربلا کا واقعہ سنا تھا اور یزیدی فوج کی طرف سے خیام حسینی کو جلانے کا واقعہ بھی بارہا سنا تھا، اس وقت وہی منظر گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ سڑک پر پڑی لاشوں میں خواتین بھی نظر آ رہی تھیں، لیکن ایک عجیب صورتحال جو تھی وہ یہ کہ کچھ خواتین کی چادریں بلاسٹنگ کی وجہ سے جبکہ کچھ دیگر کی خوفناک آگ کی وجہ سے انکا ساتھ چھوڑ چکی تھیں۔

مائیں بھی عجیب بادشاہ ہوتی ہیں کہ جس وقت ان کی اولاد پر کوئی کڑا وقت آن پڑتا ہے تو انہیں اپنا خیال بھی نہیں رہتا، وہاں میں نے ایک ماں کو دیکھا جس کا بیٹا اسکی گود سے کئی میٹر دور جا گرا تھا اور خود بھی زخموں سے چور زمین پر پڑی تھی، مگر اس حالت میں بھی اپنے زخموں کو بھلا کر بچے کو آوازیں دے رہی تھی، اور لوگوں کو مسلسل پکار رہی تھی کہ بھائیو! وہ میرا بچہ میرے پاس لاؤ، وہ میرا بچہ میرے پاس لاؤ۔ کسی نے پوچھا، کہاں ہے آپکا بچہ؟ اور آپ تو خود بھی بری حالت میں ہیں۔ بولی نہیں میں ٹھیک ہوں وہ ادھر جو پڑا ہے نا، میرا بچہ ہے۔ اسے اٹھا لاؤ اور میرے گود میں دے دو۔ وہاں خواتین کے ننگے سر نے مجھے بہت رلایا۔ میں خود قبائلی تھا، شرما رہا تھا انکے پاس جانے سے، حیا مانع آ رہی تھی اور چاہنے کے باوجود صحیح طرح سے انکی مدد بھی نہ کر سکا۔

انہی خواتین کے درمیان ایک خاتون ایسی بھی تھی جس نے ایثار کی وہ مثال قائم کر دی جس کی نظیر نہیں ملتی، وہ اپنے لباس اور ظاہری حلیے سے حیا کی پیکر لگ رہی تھی، مگر اپنے سامنے پڑی زخمی خاتون کو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی، زخمی
خاتون کے بدن پر موجود لباس مکمل طور پر جل چکا تھا، اس خاتون
کی غیرت نے گورا نہ کیا کہ اس کی مومن بہن اس حالت میں پڑی رہے، لہذا اپنی چادر اس زخمی خاتون پر ڈال دی، اور خود ننگے سر اسکے ساتھ بیٹھ گئی، جبکہ شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ خاتون ابھی زندہ تھی، اس خاتون نے اپنی چادر قربان کرکے اس کی ضرورت پوری کی، کیونکہ اُس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس چادر کی ضرورت اس کی زخمی بہن کو زیادہ ہے۔

اسی دوران میں نے کچھ سنی رضا کاروں کو بھی دیکھا جو زخمیوں کی مدد میں مصروف تھے، اور انہی میں سے کچھ کی آنسوں سے تر آنکھوں کو بھی دیکھا جو شیعوں کے اس غم میں شریک ہونے کی گواہی دے رہی تھیں۔ کچھ اہلسنت حضرات کے جنازے بھی دیکھے، میں اپنے دل میں یہ کہہ رہا تھا کہ چلو ہم تو ان دہشتگردوں کی نظر میں کافر ہی صحیح، لیکن ان کا کیا قصور تھا، کیا ایسا کام کوئی مسلمان کرسکتا ہے، نہیں یہ کام کسی سنی کا بھی نہیں ہو سکتا۔ شاید نام کا سنی ہو گا، یہ ضرور کافروں اور پاکستان دشمنوں کا کام ہے۔ اس دوران میں نے ایک سنی بھائی کو یہ کہتے بھی سنا کہ خدا ان ظالموں کو آتش جہنم سے قبل اس دنیا کی آگ میں جلا دے، ان ظالموں نے ملک کا یہ کیا حال بنا دیا ہے۔ پالنے والے! تو ہی اسکا علاج کر دے۔

ایسے میں چند شجاع جوانوں کو بھی دیکھا جنہوں نے آگ میں گھرے لوگوں کی چیخ و پکار سن کر سمت کا اندازہ لگایا اور اللہ کا نام لے کر ابراہیم خلیل اللہ کی طرح شعلوں میں کود پڑے اور لاشیں نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ایک جوان لڑکے نے کسی کو بچانے کی غرض سے خود بھڑکتی ہوئی آگ چھلانگ لگا دی، لیکن گیس یا کسی اور وجہ سے جب آگ کے شعلے مزید بلند ہو گئے تو مدد کرنے کی نیت سے آنے والا یہ جوان خود بھی آگ کا شکار بن کر مدد کا محتاج ہو گیا، مگر اس دفعہ کوئی اور معاون اسے نہ مل سکا بلکہ وہ خود زندہ جل کر ایثار و قربانی کی ایک نئی مثال قائم کر گیا۔

یہاں ایک بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ یہ حادثہ اتنا شدید اور خوفناک تھا کہ آنکھیں سڑک پر پڑی لاشیں، بہتا ہوا خون اور جلتی ہوئی عمارتیں دیکھ رہی تھیں، جبکہ کان بچوں بوڑھوں اور خواتین کی آہ و بکا سن رہے تھے۔ ایسی حالت میں پاؤں کی مجبوری یہ تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سینکڑوں بےگناہ شہیدوں اور زخمیوں کا خون پامال کر رہے تھے۔ میں نے ایک ایسے شخص کو بھی دیکھا جو ایسے عالم میں بھی ایک انوکھے احساس سے دوچار تھا، وہ اپنے پاوں بچا بچا کر رکھ رہا تھا کہ کہیں مظلومین کے خون کی بےحرمتی نہ ہو۔ میں نے اسے توجہ دلائی کہ بابا یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ کہا، یہ مقدس خون ہے بیٹا، کہیں قیامت میں شکایت نہ کریں کہ اس گستاخ نے بھی پاؤں رکھ کر ہماری بیحرمتی کی تھی۔ اس وقت میں سوچ میں پڑ گیا کہ بار الٰھا! انکے جذبات کی حد یہ ہے کہ خون پر پاؤں نہیں رکھ رہے، جبکہ دوسری طرف کچھ ایسے ظالم بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو خون کے دریا بہا کر بھی کوئی شرم محسوس نہیں کر رہے۔

یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، رضا کار جوانوں میں شامل ہو کر میں نے بھی چند زخمیوں کو اٹھایا اور ہسپتال کا رخ کیا۔ ہسپتال میں لاتعداد زخمیوں کو دیکھا، وہاں سب سے قابل توجہ متاثرین کے ورثاء کی متغیر اور دگرگوں حالت تھی۔ باہر کھڑا ہر شخص اپنے پیارے کا انتظار کر رہا تھا، جنہوں نے خود ہی اپنے پیاروں کے بدن اٹھا کر یہاں پہنچائے تھے انہوں نے تو انکی حالت دیکھی تھی، مگر وہ ورثاء جو بعد میں اپنے رشتہ داروں، بھائیوں یا بیٹوں کی تلاش میں یہاں پہنچ چکے تھے۔ وہ شدت غم سے بےتاب تھے، منتیں مان رہے تھے۔ کوئی اللہ تعالیٰ کو مولا علی (ع) کا واسطہ دے رہا تھا اور کوئی انکے غیرتمند بیٹے عباس علمدار (ع) کا، کوئی مولا حسین (ع) کا تو کوئی انکی پیاری بیٹی بالی سکینہ (س) کا واسطہ دے کر کہہ رہا تھا۔ "مجھے اپنے اکلوتے بیٹے کی سلامتی کے سوا کچھ نہیں چاہیئے، میرے مولا تو اسے سلامتی دے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ہمیں دنیا کی کوئی دولت نہیں چاہیئے، بس میرا پیارا بھائی میرے لئے بچا دے”۔

کہیں ماوں کو بےبسی کی تصویر بنے دیکھا تو کہیں بھائیوں کی نعشوں سے لپٹی ان بہنوں کو دیکھا جن کی چیخیں پتھر سے بھی سخت دلوں کو موم کرنے کیلئے کافی تھیں۔ بس ایک قیامت کا سا عالم تھا۔ مگر اس دوران ایک صابر اور غیور باپ کی بھی زیارت نصیب ہوئی، جس کا بیٹا شہید ہو چکا تھا۔ مگر وہ "رِضاً بِرضاءِ اللہ” کا ورد کر رہا تھا۔ "یا اللہ تو راضی ہے تو ہم بھی تیری رضا میں راضی ہیں۔” اور عجیب بات یہ کہ وہ مسلسل کہہ رہا تھا۔ "ہمیں رونا نہیں چاہیئے، کہ کہیں دشمن ہم پر خوش نہ ہوں، لیکن پھر جذبات کی رو میں بہہ کر اس نے اپنے دوستوں سے کہا، ہمیں مزید صبر نہیں کرنا چاہیئے، بس کرو بہت ہو چکا، رونا پیٹنا چھوڑ دو، کسی سے کسی طرح کی توقع نہ رکھو، خود اٹھو، تمہیں اپنے قاتلوں کا پتہ معلوم ہے، آگے بڑھو اور اپنا بدلہ خود لے لو۔” اس موقع پر جوانوں کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ خون کی کمی پورا کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ انکے پاس اس وقت دینے کو خون ہی تو تھا، خون دے کر وہ اپنے مومن بھائیوں کو بچانے کی امید میں باہر قطاروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بعض جوان پکار پکار کر کہہ رہے تھے، بھائیو! رش نہ بنانا، یہاں سے چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن مزید تخریب کاری کر بیٹھیں، شاباش یہاں سے چلے جاؤ۔

ہسپتال میں پڑے لاشوں کے ٹکڑے ہر دیکھنے والے سے یہ سوال کر رہے تھے کہ کس جرم میں ہمیں اس طرح قتل کیا گیا۔ قتل کرنے کا، کیا یہی انداز ہوتا ہے کہ اسکی لاش پہچاننے کے قابل بھی نہ رہے۔ کیا رسول اللہ (ص) نے کفار کی لاشوں کو مسخ کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔ جب رسول اللہ (ص) کا کفار کے متعلق یہ حکم تھا تو کیا رسول اللہ (ص) کے بعد (نعوذ باللہ) کوئی نیا نبی دوسرا دین لے کر آیا ہے اور اس نے اس فجیع انداز سے قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت میرے دل میں پیدا ہو رہے تھے، جن کے لئے میرا دل دشمنوں کے جوابات کا منتظر تھا۔ مجھے بعض ایسے لوگ بھی نظر آئے جن کے پیارے انہیں زندہ حالت میں مل رہے تھے نہ ہی مردہ اور ان سے کسی طرح کا رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ انکے موبائلز پر باربار کال کرنے کی کوششیں کر رہے تھے مگر انکے موبائل مسلسل بند تھے، جو اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اب انکی امید رکھنا بےمعنی ہے مگر پھر بھی ورثاء دو دن تک اسی امید میں بیٹھے رہے۔ آہستہ آہستہ جب ملبے سے لاشیں نکالی گئیں تو بعض کی تو کسی حد تک تسلی ہو گئی کہ انکو اپنے پیارے کا مسخ شدہ ہی سہی، لاشہ تو مل گیا، مگر کچھ لوگ ابھی تک اس انتظار میں بیٹھے تھےکہ اسی طرح سہی، لاش تو مل جائے اور اسے دفنا کر کم از کم قبر کی صورت میں نشانی تو رہ جائے تاکہ کسی حد تک ماؤں کے دلوں کو تسلی ہو جائے، وہ کب تک انتظار کرتی رہیں گی۔ کب تک راہ تکتی رہیں گی۔ اس صورتحال میں ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا تمام بچھڑے ہوئے بھائیوں کو انکی بہنوں اور تمام گمشدہ بیٹوں کو انکی ماؤں سے جلد از جلد ملا دے۔ (آمین یا رب العالمین)

متعلقہ مضامین

Back to top button