مقالہ جات

سانحہ ہنگو، کب تک خون ناحق بہے گا!!

hangoخیبر پختونخوا کے شہر ہنگو کے پٹ بازار میں واقع جامع مسجد فیض اللہ میں نمازی اپنے پروردگار کے حضور عبادت کی بجاآوری کے بعد جیسے ہی باہر نکلے تو ایک نوعمر خودکش حملہ آور نے ان کے درمیان پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکہ نے کئی گھروں کے چراغ فوراً بجھا دیئے۔ ذرائع کے مطابق دھماکہ میں 12 افراد موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے جبکہ 50 سے زائد نمازی اس سانحہ میں زخمی ہوئے۔ دھماکے کے بعد ہر طرف نعشیں اور آہ و بکا کرتے زخمی نظر آئے۔ فوری طور پر زخمی ہونے والے افراد کو سرکاری و نجی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ جہاں شام تک شہید ہونے والے افراد کی تعداد 28 تک جا پہنچی۔

ایک زخمی جاسم علی کے رشتہ دار صفدر نے ‘‘اسلام ٹائمز’’ کو بتایا کہ سرکاری اسپتال میں جب زخمیوں کو منتقل کیا گیا تو وہاں کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کیلئے انتظامات نہیں تھے، جس کی وجہ سے شہادتوں میں اضافہ ہوا۔ بعض زخمیوں کو کوہاٹ اور پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ اس دھماکہ کا ہدف تو مسجد سے نکلنے والے نمازی تھے جو مکتب اہل بیت (ع) سے تعلق رکھتے تھے تاہم پولیس اہلکاروں سمیت 6 اہلسنت بھی اس خودکش حملہ میں شہید ہوئے۔ پشاور منتقل ہونے والا 12 سالہ احمد امین بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہفتہ کے روز شہادت کے درجے پر فائز ہو گیا۔ احمد امین بھی اہلسنت مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا دہشتگردوں
نے اپنی بربریت کا شرمناک مظاہرہ کرتے ہوئے 29 شیعہ سنی مسلمانوں کی جانیں لے لیں۔ ستم در ستم یہ کہ ہنگو انتظامیہ کی جانب سے شہداء کے لواحقین کو جنازے جلد از جلد دفنانے کے احکامات جاری کئے گئے اور اجتماعی نماز جنازہ نہ کرنے کیلئے دباو ڈالا گیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ہنگو ضلع دہشتگردی کی شدید لپیٹ میں رہا ہے، شیعہ سنی کو بھی آپس میں لڑانے کی کوشش کی گئی تاہم آج بھی تکفیری گروہ اور طالبان دہشتگرد ایک طرف اور مظلوم شیعہ سنی دوسری طرف ہیں۔ ہنگو میں اس سے قبل 2005ء میں یوم عاشور کے جلوس میں خودکش حملہ ہوا تھا۔ جس میں درجنوں عزادار شہید ہوئے۔ اس کے بعد بھی ضلع ہنگو میں تسلسل کیساتھ اہل تشیع کی قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔ شیعہ آبادی شاہو خیل آج بھی دہشتگردوں کے اس ظلم کی داستان خود سنا رہی ہے، یہ علاقہ جو کسی زمانے میں چلتے پھرتے انسانوں کا مسکن ہوا کرتا تھا آج کھنڈرات میں تبدیل نظر آتا ہے۔ ضلع ہنگو کے محل وقوع پر اگر نظر دوڑائی جائے تو اس کے ایک طرف اورکزئی ایجنسی، دوسری جانب کرم ایجنسی ہے، تیسری جانب وزیرستان ہے، یہی وجہ ہے کہ دہشتگردوں کی اس علاقہ میں آمد ورفت خاصی آسان ہے۔

شیعہ علماء کرام اکثر حکام کو ان خدشات سے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ ضلع ہنگو میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں اور کافی عرصہ سے ان کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، یکم فروری کو پیش آنے والا واقعہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا یوں تو گذشتہ 7 سال سے شدید دہشتگردی کے نرغے میں ہے لیکن اب فرقہ وارانہ بنیاد پر عوام کو نشانہ بنانے کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔ پشاور میں اہم شیعہ شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ اور یکم فروری کے اس حالیہ سانحہ نے صوبہ میں بسنے والی ملت تشیع کو مزید عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اب تک یہ معلوم نہ کیا جاسکا کہ دہشتگرد کہاں بیٹھ کر دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

قبائلی ایجنسیوں میں دہشتگردوں کیخلاف کامیاب فوجی آپریشنز کے دعووں کے باوجود آئے روز دہشتگردی میں ہونے والا اضافہ قوم کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ درہ آدم خیل میں سرعام ہر قسم کے اسلحہ کی تیاری اور خرید و فروخت بھی کسی لمحہ فکر سے کم نہیں۔ واضح رہے کہ درہ آدم خیل ایف آر کوہاٹ کا علاقہ (نیم قبائلی علاقہ یا صوبائی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقہ) کے ایک جانب کوہاٹ اور دوسری طرف پشاور ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ درہ آدم خیل میں قائم اسلحہ کی فیکٹریوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اکثر سمگلنگ کے دوران پکڑے جانے والے اسلحہ کے حوالے سے انکشافات ہوئے ہیں کہ یہ اسلحہ درہ آدم خیل سے لایا گیا کیونکہ یہ اسلحہ کی پیداوار اور ترسیل کا سب سے آسان ذریعہ ہے۔

اکثر یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والی قتل و غارت گری میں استعمال ہونے والا اسلحہ خیبر پختونخوا سے اسمگل کیا گیا۔ اسلحہ کی پیداوار کے اس گڑھ کیخلاف کارروائی نہ ہونا بھی صوبہ میں قتل و غارت کی ایک بڑی وجہ سمجھی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں قبائلی علاقوں سے منسلک بندوبستی علاقوں سے دہشتگردوں کی نقل و حرکت بھی ایک سوالیہ نشان ہے، دہشتگردی کے آئے روز پیش آنے والے واقعات پولیس اور دیگر قانوں نافذ کرنے والے اداروں کے انٹیلی جنس فیلیئر کا بلاناغہ معمول بےگناہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، اگر اس دعوے میں 100 فیصدی حقیقت ہے تو اس بیرونی ہاتھ کو نہ روکنا حکومت پاکستان کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ یہ قوم سانحہ ہنگو جیسے مزید واقعات شائد اب برداشت نہ کر پائے، حکومت پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس ملک میں عوام کو رہنا ہے یا دہشتگردوں کو۔ اگر اب بھی پالیسیاں تبدیل کرکے ملکی مفاد میں فیصلے نہ کئے گئے تو کہیں عوام خود اپنے دفاع کیلئے ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہ ہو جائیں، اور اگر خدانخواستہ ایسا موقع آیا تو یہ وطن عزیز کی بدقسمی ہوگی۔ آئے روز بہتے اس خون ناحق کو روکنے کا وقت آخر کب آئے گا۔ ؟ اس سوال کا جواب پاکستان کے عوام بلخصوص دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ملت تشیع جلد از جلد چاہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button