مقالہ جات

گلگت آگ اور خون کے دھانے پر کھڑا ہے، مطالبات منظور نہ ہوئے تو عوام کوئی بھی اقدام اٹھا سکتے ہیں، علامہ شیخ نیّر عباس

shiitenews allama shikhe nayyer abbasایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل کا اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ آئے روز ہم پر یہ ستم ڈھائے جائیں، ہمیں چن چن کر شہید کیا جائے اور ہم بالکل خاموش بیٹھے رہیں۔ یاد رہے کہ اگر ہم یہاں سے ڈوگرا راج کو بھگا سکتے ہیں تو اپنے ملک کو بھی واپس لے سکتے ہیں۔

علامہ شیخ نیّر عباس کا تعلق گلگت کے علاقے جلال آباد سے ہے، علامہ صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ اہل بیت ع اسلام آباد میں علامہ شیخ محسن علی نجفی سے حاصل کی۔ کراچی میں امام حسین ع فاؤنڈیشن میں اڑھائی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران کے شہر قم المقدس چلے گئے، جہاں مدرسہ امام مہدی عج میں دس سال تک علم دین سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اس وقت علامہ صاحب نومل میں امام جمعہ ہیں اور مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے سانحہ کوہستان کے بعد وزیر داخلہ رحمان ملک کی گلگت کے عمائدین کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں اور پیش کیے جانے والے مطالبات پر حکومت کی جانب پیش قدمی سے متعلق ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ علامہ صاحب ان ملاقاتوں میں بنفس نفیس موجود تھے
نماءندہ : سانحہ کوہستان کے بعد رحمان ملک کا گلگت آنا اور وہاں کی قیادت سے مذاکرات کرنا، جس میں آپ بھی شریک رہے ہیں،ابتک کیا پیش رفت ہو سکی ہے۔؟
علامہ شیخ نئیر مصطفوی: بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جو فوراً حل ہو جاتے ہیں، اگر حکومت سنجیدہ ہو تو سانحہ کوہستان میں ملوث عناصر فوراً بے نقاب ہو سکتے ہیں۔ ہمارا نصاب کا ایک مطالبہ تھا جسے رحمن ملک نے تسلیم کیا، اس میٹنگ میں میں خود بھی موجود تھا، چیف سیکرٹری نے نصاب سے متعلق فیصلہ پڑھ کر سنایا تو رحمن ملک نے کہا کہ ابھی اور اسی وقت آپ نوٹیفکیشن جاری کریں کیونکہ یہ نصاب کسی مسلک کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہترین بات ہے۔ اس وقت تو رحمن ملک نے نوٹیفکیشن کا کہا، لیکن اب تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر انتہائی تشویش ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس بات پر عوام پہلے سے زیادہ ناراض اور مشتعل ہو جائیں۔ رحمن ملک نے 15 دنوں کے بعد پھر گلگت آنے کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارا نصاب والا مسئلہ فوراً حل ہو جاتا اور نوٹیفکیشن جاری ہو جاتا تو ہم سمجھتے کہ باقی معاملات بھی جلد حل ہو جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

نماءندہ : رحمان ملک نے کہا کہ پانچ افراد گرفتار ہو چکے ہیں، اس نے وہان پریس کانفرنس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے سے متعلق بھی بات کی۔ رحمان ملک نے پکڑے جانے والے افراد سے متعلق کیا بتایا۔؟
علامہ شیخ نئیر عباس مصطفوی: پریس کانفرنس سے پہلے رحمان ملک نے گلگت کی قیادت کو بتایا کہ وہ اگر نام عام کریں اور میڈیا پر بتایا دیا جائے تو دیگر ملزمان کی گرفتاری مشکل ہو جائے گی، واقعہ میں لوکل افراد ملوث ہیں، جو اس وقت فرار کر چکے ہیں۔ رحمان ملک کے مطابق سانحہ کوہستان کے واقعہ میں ایک لوکل فرد ملوث ہے، جس نے آرمی کے لباس میں تینوں بسوں سے افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے اور مسافروں کو بسوں سے نیچے اتارا، اُن کا کہنا تھا کہ اس شخص کو ٹریس کر لیا گیا ہے، مولوی نور محمد نامی کوئی شخص ہے اس کو انہوں نے پکڑا ہے۔

حکومت نے کہا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کا نام سامنے آئیں تو وہ روپوش ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ہم نے ان کا نام پریس کانفرنس میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔ جس شخص نے آرمی کے لباس میں شناختی کارڈ چک کیے اس کا تعلق پشین سے بتایا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں اور ایجنسیوں کو باقاعدہ یہ معلوم ہے کہ مولوی نثار اور عنایت اللہ نے مل کر پیسہ جمع کر کے اسلحہ خریدا اور وہی اسلحہ انہوں نے کالعدم تنظیموں کو دیا ہے۔ یہ اسلام اور پاکستان دونوں کے دشمن ہیں، یہ نہ صرف شیعہ کے دشمن ہیں بلکہ سنی کے بھی دشمن ہیں۔

نماءندہ : اہل سنت اور دوسرے حلقوں کے اس بارے میں کیا تاثرات ہیں۔؟
علامہ شیخ نئیر مصطفوی: گلگت میں اتنے بڑے سانحے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اہل سنت کے معتدل لوگوں کے مذمتی بیانات سامنے آتے اور ہم سے اظہار ہمدر دی کرتے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اہل سنت کے ایک حلقے نے دیامر میں سانحہ کوہستان کے واقعہ کے دہشتگردوں کی حمایت میں نعرہ بازی کی ہے اور جلوس بھی نکالا، لیکن حکومت ابھی تک انہیں بھی گرفتار کرنے میں بے بس ہے۔ دوسری جانب ہماری سب سے بڑی تعزیتی ریلی شروٹ میں علامہ آغا راحت حسین الحسینی کی زیر قیادت نکالی گئی، جس میں لاکھوں افراد شریک تھے، جنہوں نے ایک پتہ بھی ہلنے نہیں دیا اور لوگوں نے ضبط کا مظاہرہ کیا۔

آپ دیکھیں کہ پشین کے علاقے سے اسلحہ بھی پکڑا گیا، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں۔ جہاں تک آپ کے اہل سنت بھائیوں کی جانب اس سانحہ پر ردعمل کے بارے میں سوال کیا ہے کہ تو بہرحال بعض حلقوں کی طرف اس کی شدید الفاظ میں بھی مذمت کی گئی ہے اور بعض حلقوں کے لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو لوگ دہشتگردی کرتے ہیں، ان کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ وہ تو انسان بھی نہیں ہیں۔

نماءندہ : سانحہ کے بعد گلگت کے لوگ کیا سوچتے ہیں، کیونکہ بعض افراد سے بات ہوئی تو اُن میں مایوسی کی کیفت واضح نظر آئی اور وہ انتہائی اقدام اٹھانے کی باتیں کر رہے تھے۔؟
علامہ شیخ نئیرمصطفوی: اس حوالے سے اسکردو میں ایک بہت ہی خطرناک نعرہ لگا ہے کہ ”چلو چلو کارگل چلو”، ہم نہیں چاہتے کہ ایسی باتیں عملی ہو جائیں۔ اگر ہم سنجیدہ نہ ہوئے تو یہ معاملہ انتہائی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا۔ اگر ہمارے دروازے پر آ کر کوئی دستک دے اور وہ آرمی کی وردی میں ملبوس ہو کر آواز لگائے تو ہم اسے کیا سمجھیں گے کہ یہ آرمی کا ہی کوئی بندہ ہے یا پھر دہشتگرد ہے۔ یہی تو آرمی کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ ہماری عوام تو محب پاکستان ہے اور ہمیشہ پرامن رہنا چاہتی ہے، لیکن اب ہمارا ان بے لگام دہشتگردوں کی ان وحشیانہ کارروائیوں سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشتگردوں کو گرفتار کریں اور انہیں قرار واقعی سزا دے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عوام میں جو تشویش پائی جاتی ہے وہ عملی نہ ہو سکے اور وہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ اگر حکومت ہمارے ساتھ تعاون کرے اور انشاءاللہ جب ہمارے مسائل حل ہوں گے تو ایسا دن کبھی دیکھنے کو نہ آئے گا۔

نماءندہ : راولپنڈی گلگت روڈ کھلا ہوا ہے یا بند ہے، کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ شیخ نئیر مصطفوی: کچھ لوگ مجبوری کی وجہ سے آ رہے ہیں، لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس روڈ سے آنے سے کتراتے ہیں اور پہلے فون پر رابطہ کرتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ اس روڈ پر آرمی اور موبائل گاڑیوں کی پیٹرولینگ بڑھا دی گئی ہے۔ بہرحال اب اس روڈ پر حکومت کی طرف سے کافی نقل و حرکت ہے اور سختی سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

نماءندہ : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس سازش کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔؟
علامہ شیخ نئیر مصطفوی: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ علاقہ انتہائی حساس ہے۔ اس وقعہ میں بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی سازش ہو سکتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سازش میں استعمال ہونے والے ایجنٹس یہاں پر موجود ہیں۔ اب تک جتنے بھی افراد پکڑے گئے ہیں ان کا تعلق تو گلگت سے ہی ہے، لیکن یہ کس کے ایجنٹ ہیں؟ کس کیلئے کام کر رہے ہیں؟، ان سب سوالات کے جوابات عوام کے سامنے آنا باقی ہیں، عوام تک ان حقائق کو پہنچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔

نماءندہ : کہا جا رہا ہے کہ سانحہ کوہستان، پاراچنار میں نماز جمعہ کے موقع پر خودکش دھماکہ اور ڈرون حملے پاک ایران تعلقات کو کشیدہ کرنے اور نیز سہ فریقی تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش تھی، آپ کس حد تک ان نقطہ نظر سے اتفاق کریں گے۔؟
علامہ شیخ نئیر مصطفوی: بالکل! یہ سب سے بڑی سازش ہے اور امریکہ پاک ایران دوستی کو خراب کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے امریکہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے، لیکن ہم پھر بھی پرعزم ہیں کہ دشمن کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نے 16 جنازوں کو اٹھایا، یہ انہوں نے صرف ان افراد کو نشانہ ہی نہیں بنایا بلکہ ان کا ٹارگٹ پوری ملت تشیع ہے۔ یہاں کے لوگ اور پاکستان کی ساری عوام اب سمجھ رہی ہے کہ یہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے آپس کے تعلقات کو خراب کرنے کی ایک بڑی سازش ہے۔

نماءندہ : گلگت کے عمائدین کی جانب سے مدبرانہ اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فرض کریں کہ آئندہ 15 دنوں میں بھی رحمان ملک اپنے وعدے پر عمل نہیں کرتا تو آغا راحت حسین الحسینی سمیت وہاں کی قیادت کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔؟
علامہ شیخ نئیرمصطفوی: گلگت بلتستان میں ہم نے سپریم کونسل بنائی ہے، جس میں دونوں علاقوں کے نمائندگان شامل ہیں اور وہی سپریم کونسل ہی فیصلہ کرے گی، ہم پرامن طریقے سے ہی احتجاج کے سلسلے کو آگے چلائیں گے۔ پھر بھی اگر ہمارے مسائل اور مطالبات کا حل نہ نکالا گیا تو ہم کوئی اقدام بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ان اقدامات میں گلگت بلتستان میں لانگ مارچ بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد دھرنا دیا جائے گا۔ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ آئے روز ہم پر یہ ستم ڈھائے جائیں، ہمیں چن چن کر شہید کیا جائے اور ہم بالکل خاموش بیٹھے رہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت حالات کو کنٹرول میں کر لے گی اور ہمیں کسی بھی ایسی صورتحال کے لیے ناامید نہیں کرے گی۔

گلگت بلتستان پاکستان سے پہلے آزاد ہوا ہے۔ اگر ہم یہاں سے ڈوگرا راج کو بھگا سکتے ہیں تو ہم اپنے ملک کو واپس بھی لے سکتے ہیں جو ہم نے پاکستان کو امانت کے طور پر دیا تھا۔ آج ہمارے اندر وہ جذبہ بھی موجود ہے اور کام کرنے کی وہ لگن بھی موجود ہے، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کے ایسے حالات میں ہم ان کے لیے کوئی نیا مسئلہ کھڑا کر دیں۔ انشاءاللہ وقت کی نزاکت کو دیکھ کر ہی ہم اپنے آئندہ لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button