مقالہ جات

چوبیس ذی الحجہ عیدمباہلہ

EID MIBAILAسن ہجری کانواں سال تھا،اسلام  کے ہاتهو ں مکہ معظمہ اورطائف فتح ہوچکاتھا،یمن،عمان اوراسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے زیرپرچم آچکے تھے مگرحجازاوریمن کے درمیاں واقع علاقہ نجران جہاں عیسائی مقیم تھے اورشمالی آفریقہ اورقیصرروم کی عیسائی حکومتیں ان کی پشت پناہی کررہے تھیں ان میں توحیدکے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کاجذبہ نظرنہیں آتااس پررحمۃ للعالمین ان پرمہربان ہوگئے،عیسائیوں کے بڑے پادری کے نام اپناخط روانہ کیاجس میں عیسائیوں کواسلام قبول کرنے کی
دعوت دی گئی تھی ۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ کاخط ایک وفدکے ہمراہ نجران روانہ ہوا،جب مدینہ سے آنحضرت کانمائندہ خط لے کر نجران پہنچااوروہاں کے بزرگ پادری ابوحارثہ کوآنحضرت کاخط پہنچایاتو ابوحارثہ نےخط کھول کرنہایت دقت اور غورکے ساتھ اس کامطالعہ کیااورپھرفکرکی گہرایوں میں ڈوب گیا ۔اس دوران شرحبیل جو درایت اورمہارت میں شہرہ شہرتھااسکو بلاوا بھیجا اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو بھی حاضر ہونے کو کہا گیا،سبھی نے اس موضوع پربحث وگفتگو کی اور اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک وفدحقیقت کو سمجھنے اورجاننے کے لئے مدینہ روانہ کیاجائے۔نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اورفاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوا،میرکارواں نے مرسل اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرکاپتہ پوچھاتو اسے مسجدکاپتہ بتادیاگیا ۔کارواں مسجد میں داخل ہوا اورسبھی کی نظر یں ان پرٹک گئیں ،پیغمبراسلام نے نجران سے آئے افراد کے بنسبت بے رخی ظاہر کی جو کہ ہر ایک کیلئے سوال برانگیز ثابت ہوئی اور ظاہر سی بات ہے اھل کاروان کوبھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اوراب بے رخی دکھا رہیں ہیں!آخر کیوں ۔ہمیشہ کی طرح اس باربھی علی ہی نے اس گتھی کوسلجھایا،عیسائیوں سے کہاآپ تجملات اورسونے کے جواہرات کے بغیر،معمولی لباس زیب تن کرکے آئیں اورآنحضرت کی خدمت میں حاضرہوں یقیناآپکااستقبال ہوگا ۔اب کارواں معمولی لباس پہنے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا،اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کاگرم جوشی سے استقبال کیااورانہیں اپنے پاس بٹھایا،میرکارواں ابوحارثہ نے گفتگوشروع کی کہ آپ کاخط پاتے ہی ھم سبھی مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں ۔آپ نے فرمایا:جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجاتھااور اس سے پہلے دوسرے ممالک کے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اورسبھی سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگاوہ یہ کہ شرک اورالحادکوچھوڑکرخدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین ،اسلام کو قبول کریں ۔انہوں نے جواب میں کہا:اگرآپ اسلام قبول کرنے کوایک خداپرایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔حضرت نے فرمایا:اگرتم حقیقت میں خداپرایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔انہوں نے جواب میں کہا:اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں،عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے پیسان میں مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔آپ نے فرمایا:تم لوگوں نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کوگناوہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہراشرحبیل نے اس خاموشی کو توڑا :عیسی، خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ انکی والدہ مریم نے انہیں کسی سے نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو وحی فرما ئی : عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے کہ اسے (ماں،باپ کے بغیر) خاک سے پیداکیاگیا(إِنَّ مَثَلَ عِیسَى عِندَ اللّهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ کُن فَیَکُونُ ) {آل عمران /59}اس پراچانک خاموشی چھاگئ اورسبھی بڑے پادری کو تک رہ گئے اوروہ خودشرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں تھا تاھم خود شرحبیل خاموشی سے سرجھکائے بیٹھاتھا ۔آخرکار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پراتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیاجائے،خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں اورجھوٹے پرعذاب کی درخواست کریں ۔ان کاخیال تھاکہ ان باتوں سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے لیکن ان کے ہوش اڑگئے جب انہوں نے سنا:اے عیسائیو! اپنے بیٹوں،خواتین اوراپنے نفوس کو لے کرآو اورمباھلہ کرلو؛اورجھوٹے پرالہی لعنت طلب کریں ۔ فَمَنْ حَآجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ {آل عمران/61}اس نشست میں طے یہ ہواکہ کل سورج طلوع ہونے کے بعدشہرسے باہر(مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرامیں ملتے ہیں،یہ خبرسارے شہرمیں پھیل گئ،لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی معینہ جگہ پرپہنچ گئے ،نجران کے نمائندے آپس میں کہنے لگے:اگرآج محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ) اپنے سرداروں اورسپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں،تو معلوم ہوگاکہ وہ حق پرنہیں ہے اوراگروہ اپنے عزیزوں کو لے آتے ہیں تواپنے دعوے میں سچے ہیں ۔سب کی نظریں شہرکے دروازے پرٹکی تھیں دورسے مبہم سایہ نظر آنے لگاجس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا،اور کچھ دیردیکھتے ہی رہے انہیں اسکاتصوربھی نہیں تھاکہ پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وآلہ اپنی آغوش مبارک میں حسین علیہ السلام کواوردوسرے ہاتھ سے حسن علیہ السلام کی انگلیاں پکڑے ،آنحضرت کے پیچھے سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہااورسب سے پیچھے آپ کے چچازاد بھائی،اورداماد علی ابن ابیطالب علیہ السلام آئیں گے ۔
 صحرا میں ہمھمے اورولولے کی صدائیں بلندہونے لگیں،کوئی کہہ رہاہے دیکھو،پیغمبراپنے سب سے عزیزوں کولے کر آئے ہیں تودوسراکہہ رہاتھاانہیں اپنے دعوے پراتنا یقین ہے کہ انھیں ساتھ لائے ہیں-اس بیچ بزرگ پادری نے کہا: افسوس اگرانھوں نے دعاکے لئے ہاتھ اٹھایاتو ہم اسی لمحے اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور دوسرے نے کہاتو پھراس کاسدباب کیاہے ؟جواب ملا ان کے ساتھ صلح کرلیں اورجزیہ کا وعدہ کریں تاکہ وہ ہم سے راضی رہیں اورپھر انہوں نے ایساہی کیااس طرح حق کی باطل پرفتح ہوئی ۔مباھلہ پیغمبرکی حقانیت اورامامت کی تصدیق کانام ہے،مباھلہ اھل بیت پیغمبر کااسلام پرآنے والے ہرآنچ پرقربان ہونے کیلئے الہی منشور کانام ہے ،تاریخ میں ہم اس مباھلے کی تفسیر کبھی امام علی کی شہادت،کبھی امام حسن کی شہادت کبھی امام حسین کی شہادت کبھی امام علی زید العابدین کی شہادت ،کبھی امام محمد باقر کی شہادت ،کبھی امام جعفرصادق کی شہادت ،کبھی امام موسی کاظم کی شہادت ،کبھی امام علی رضا کی شہادت ،کبھی امام محمدتقی کی شہادت ،کبھی امام علی النقی کی شہادت ،کبھی امام حسن عسکری کی شہادت اور کبھی امام مھدی کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس دن سے لے کراسلام کی بقا کیلئے یہی مباھلہ کےلوگ،اسلام کی بقاکیلئے قربان ہونے کیلئے سامنے نظر آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی ہر سازش کو ناکام بنادیتے ہیں ۔ھم اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں مباھلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر کی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button