مقالہ جات

پاکستان یا طالبان،کس کو بچانا ضروری ہے؟؟؟

SHIITENEWS_TALIBAN_PAKISTANتحریر:اقبال حیدر
ایک مرتبہ پھر طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویز پر زور دیا جا رہا ہے اور نیٹو ممالک خصوصاً امریکا کی قیادت اور پاکستان میں چند سیاسی رہنما اور دانشور اس کی خاص درخواست کر رہے ہیں۔ یہ بہت حیران کن ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی تائید کرنے والے یہ تمام افراد دانستہ یا نادانستہ طور پر اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے ”قومی مفاد“ کے نام پر اس عمل کو کئی مرتبہ دہرایا ہے۔ انہوں نے اپنے طویل آمرانہ دور میں طالبان کے مختلف گروپوں اور دیگر انتہا پسند مذہبی گروہوں مثلاً ”فضل اللہ“ کے ساتھ پانچ سے سات مختلف معاہدوں پر دستخط کئے تھے، تاہم پرویز مشرف کی جانب سے کئے گئے معاہدوں کے نتائج کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہو گا، حتٰی کہ موجودہ حکومت نے بھی مئی 2008ء میں اس طرح کا معاہدہ کیا تھا جو مکمل طور پر طالبان کے حق میں تھا۔ بہرحال، طالبان کے ساتھ ان تمام معاہدوں کے تباہ کن اثرات میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں عدم برداشت، عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں تیزی آئی ہے۔
”طالبان“ کا لفظ تمام شدت پسند گروپوں، القاعدہ کے مختلف گروپوں اور عسکریت پسند جہادی اور اسلامی فورسز کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ میرے خیال میں سب ہی ایک ہیں۔ یہ تمام دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے پاکستان پر قبضہ کرلیں۔ وہ دیگر تمام مسلمان فرقوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ”کافر اور واجب القتل“ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مختلف ناموں کے ساتھ لگائے جانے والے القاب مثلاً لشکر، سپاہ، جہادی اور تبلیغی کوئی معنی نہیں رکھتے۔
ایک بار پھر کافی پرزور طریقے سے وہی تجویز پیش کی جا رہی ہے، لیکن اس تجویز کے حامیوں کو ایک اہم سوال کا جواب دینا ہو گا۔ پہلا، کیا طالبان بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں؟ مجھے اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا، درخواست گزاروں نے پاکستان میں طالبان کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔؟ تیسرا، مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا؟ فرض کریں اگر طالبان مذاکرات کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو کیا وہ دہشت گردی اور اسلام کے نام پر اپنے انفرادی عقائد اور افغانستان میں ملا عمر کی پالیسیوں کی مذمت کرنے اور انہیں ترک کرنے پر رضامند ہو جائیں گے۔؟ کیا طالبان موسیقی، فلم، ٹیلی ویژن، فوٹو گرافی، عورتوں کی تعلیم، ویڈیو اور حجاموں کی دکانوں، عدالت، جمہوریت اور جمہوری اداروں کی اجازت دے دیں گے۔؟ کیا طالبان مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی تعظیم کریں گے اور انہیں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت دیں گے۔؟ اس بات کی توقع نہیں ہے کہ طالبان ان سوالوں کا مثبت جواب دیں گے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کن بنیادوں پر مذاکرات کے اختتام پذیر ہونے کی توقع ہے۔ کیا ان تجاویز کے حامی افراد طالبان کے انفرادی، مذہبی عقائد، پالیسیوں اور ملا عمر کے دور حکومت میں قائم طریقہ کار کو اپنانے کے آرزو مند ہیں۔؟ کیا یہ ممکن ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے وقت، ان نکات کی وضاحت کر دی جائے اور پاکستان میں موجود طالبان کی بہت کم تعداد کے عقائد اور پالیسیوں کو پاکستان کے عوام پر مسلط نہ ہونے دیا جائے۔؟ کیا اس بات کا کوئی امکان موجود ہے۔؟ یہاں پر دو قسم کی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، سب سے خطرناک اور طویل جنگ پاکستان میں بڑی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ اس سے قبل کبھی ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں بالخصوص مسلح افواج، نیم فوجی تنظیموں اور پولیس نے طالبان کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں اپنے جوانوں کی زندگیوں کی قربانی نہیں دی اور نہ ہی اس سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں معصوم شہری طالبان کی جانب سے ہونے والے حملوں کا نشانہ بنے۔ اس سے پہلے جان اور مال اور اپنے ملک کی سالمیت کے غیرمحفوظ ہونے کا احساس کبھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کو کبھی معیشت، سیاست، کھیل اور سماجی اور ثقافتی زندگی میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ پاکستان کو تین اطراف سے بدترین چینلجز کا سامنا ہے۔ اول، امریکی اور نیٹو ممالک کا موقف ہے کہ ان کی جنگ صرف القاعدہ ہی کے خلاف ہے۔ ان کے نزدیک، القاعدہ اور طالبان کے مابین، خط امتیاز انتہائی غیر منطقی، غیر معقول اور عجیب ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ صرف القاعدہ تک ہی محدود ہے اور جہاں تک طالبان کا معاملہ ہے، وہ پاکستان کا درد سر ہے۔ اگرچہ اب امریکا طالبان سے بات چیت کے ذریعے ”ڈیل“ کرنے پر بھی رضامند ہے۔ دوم، پاکستان کو افغانستان کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے، جو کھلے عام پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کی مذمت اور ملامت کرتا رہتا ہے اور پاکستان سے ”جانے پہچانے دشمن“ کی طرح سلوک روا رکھتا ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، جیسا کہ ”دی نیوز“ کی 3 جولائی کی اشاعت میں”آئی ایس پی آر“ کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی افواج کی شمال مشرقی افغانستان سے 20 مہینوں میں واپسی کے بعد، طالبان کو آنے والے دنوں میں افغانستان میں ٹھکانے بنا کر پاکستان میں غیر معمولی حملے کرنے کے مواقع ہاتھ آئیں گے۔ اس لئے پاکستانی فوج کہتی ہے کہ پاکستان کو افغانستان سے ملحق سرحد کو فوری طور پر بند کرنا ہو گا، تاکہ افغانستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی دراندازی اور اسمگلنگ کو روکا جاسکے۔ پاکستان کے لئے یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایران نے 1800 کلو میٹر پر محیط 90 فیصد پاکستان اور افغانستان سے منسلک سرحد کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔ ہم اس سلسلے میں کامیابی حاصل کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا مخلص ساتھی ہے، تو نیٹو ممالک خصوصاً امریکا کو ہماری سرحدوں کی حفاظت کے لئے مالیاتی اور دیگر ضروری وسائل کی امداد فراہم کرنے کے لئے رضامند ہونا چاہئے۔ سرحدوں کی بندش کے بعد افغانستان، پاکستان پر الزام نہیں لگا سکے گا کہ اس کے ملک میں دہشت گرد پاکستان کے راستے داخل ہوتے ہیں۔ سوم، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند عرب ممالک طالبان کو روپیہ پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں، جبکہ امداد فراہم کرنے والے یہ ممالک امریکا کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ان تمام عرب ممالک اور امریکا کو طالبان کی مالی اور دیگر ذرائع سے امداد نہ کرنے کے لئے ڈپلومیٹک اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔ ان تینوں اطراف سے درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاسی قائدین جنرل پرویز مشرف کی اس تباہ کن حکمت عملی کو مکمل طور ترک کر دیں، جو شعوری طور پر طالبان سمیت تمام جہادیوں کی سرپرستی کرتے رہے تھے، جن میں جہادیوں کے علاوہ مذہبی عسکریت پسند قوتیں بھی شامل تھیں جو مذہبی عقائد کے ایک مخصوص نظام کا پرچار کر رہے تھے اور انہوں نے اس بات کا عزم کر رکھا تھا کہ وہ اپنی دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کی ریاست پر قبضہ جما لیں گے۔ جہادیوں، طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں میں سے کوئی بھی ہمارے لئے اہمیت کا حامل نہ تھا نہ ہی افغانستان کبھی پاکستان کے لئے اسٹریٹیجک گہرائی کا حامل ملک تھا۔ مجھے افواج پاکستان کی اہلیت، قابلیت، استعداد اور طاقت پر ذرہ برابر شبہ نہیں ہے، وہ تمام قسم کے دہشت گردوں، جہادی اور طالبان کے گروہوں کو ارض پاکستان سے بے دخل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ وطن کے ان دشمنوں کو طاقت اور امداد فراہم کرنے والی قوتوں کو بھی ختم کرنے کے لئے ہماری افواج کی مہارت، ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات میں کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ میرا افواج پاکستان پر اعتماد ہی ہے جس کی وجہ سے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کیا وجہ ہے کہ یہ جنگ کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کیوں بن گئی ہے۔؟ کہا جاتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں طالبان کی معاونت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو بھی وہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہو سکتے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور افواج کو ان عسکریت پسندوں کا صفایا کر کے انہیں عدم تشدد کا پیغام دینا ہو گا۔ یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اگر طالبان کو پاکستان میں بڑھنے اور پنپنے کی اجازت دی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور قائداعظم کے خوابوں، فلسفے، ویژن، وعدوں، مقاصد اور اصولوں کا خاتمہ، جس کے لئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ماسوائے یہ کہ ہم طالبان کے گروہوں، انتہا پسند مذہبی جنونی طاقتوں اور اس قسم کے تمام دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسے پاکستان کو آزاد کرائیں، تب ہی پاکستان عدم تشدد، ترقی، خوشحالی، امن اور روشن خیالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ "روزنامہ جنگ”

متعلقہ مضامین

Back to top button