مقالہ جات

اربابِ اقتدار کو علامہ امین شہیدی کا کھلا خط

Molana_Ameen_Shaheediمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری علامہ امین شہیدی نے صدر پاکستان آصف علی زرداری،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی،افواج پاکستان کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری سمیت ملک کے اعلیٰ اداروں اور حکام کے نام کھلا خط تحریر کیا ہے ۔
خط کا متن درج ذیل ہے
محترم و مکرم جناب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
امید ہے ! مزاج گرامی اچھے ہوں گے ۔
وطن عزیز پاکستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہر پاکستانی کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے ، اس تشویش اور اضطراب نے مجھے یہ کھلا خط لکھنے پر مجبور کیا ہے ، آپ اقتدار اور ایوان کی جس مقدس مسند پر تشریف رکھتے ہیں ، اس کا تقاضا ہے کہ وطن کو درپیش خطرات اور مشکلات سے آپ پوری طرح آگاہ بھی ہوںاور ان مسائل کے حل میں آپ کا بھرپور کردار بھی ہو ، کیونکہ وطن رہے گا تو اقتدار کی یہ مسندیں بھی رہیں گی ۔
جناب والا !
کسی بھی سرزمین کا تحفظ اور اس کی بقا وہاں پر امن و امان کی مرہون منت ہوتی ہے ، اگر وہاں امن و سکون ختم ہو جائے تو بالآخر انار کی ، فساد اور فتنہ کی آگ اس معاشرے کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے لیکن کیا اہم ترین مسئلے کی طرف من حیث القوم ہمارے مقتدر حلقوں کی توجہ ہے ؟
آج بلوچستان بالخصوص کوئٹہ کی سرزمین کیسا منظر پیش کر رہی ہے ؟؟ عالم اسلام کے دوسرے بڑے اور اہم ترین فقہی مکتب تشیع کے پیروکاروں کو گزشتہ ایک دھائی میں جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا ، کسی بھی ذی شعور پاکستانی سے مخفی نہیں ایسے میں ایوان اقتدار ، ایوان ہائے بالا اور ہماری آزاد عدلیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟
گزشتہ عرصے میں 350سے زیادہ ڈاکٹرز ، انجینئرز ، تاجر ، ملازمین ، علمائے کرام اور عام عوام فرقہ پرست دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ، جب ایک باضمیر انسان ہزارہ قبرستان میں شہدا کی قبور پر پہنچتا ہے تو منوں مٹی تلے دفن ان حَسین چہروں کو دیکھ کر جن میں 8 سال کے بچے ، 18 سال کے کڑیل جوان ، 50 سال کے بزرگ اور 70 سال کے ضعیف لوگ پرسکون انداز میں سوئے نظر آتے ہیں ،اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ اتنی درندگی ، وحشت اور بربریت پر انسانی ضمیر خاموش کیوں ہے ؟ گویا 350 خاندان اجڑ چکے ہیں ، لیکن حکمران تماشائی اور عوام بے بس ہیں ؟ حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 90 ہزار لوگ بلوچستان چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اہل اقتدار حسب معمول بے حسی اور بے بسی کا شکار ہیں ۔
معاشرے میں نفرت ، بغض ، دشمنی ، خوف اور سراسمیگی پھیلتی جا رہی ہے اور سکون کی دولت ناپید ہو چکی ہے ، لیکن بلوچستان میں حکومت کو مالی بدعنوانیوں، اقرباپروری ، چوربازاری ، لوٹ کھسوٹ اور معاشرے کے بد نام ترین افراد کو نوازنے سے فرصت نہیں ۔
مستونگ کی سر زمین میں ایک نہیں ، دو نہیں ، تین نہیں ، چار شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور بعد ازاں دھمکی دی گئی کہ ان شہیدوں کی نماز جنازہ ، غسل اور کفن کی اجازت نہیں ، جو انہیں غسل و کفن دے کر نماز جنازہ پڑھے گا اسے بھی ہم اسی طرح قتل کریں گے ، گویا ایک نئی کربلا سج گئی ، یزید نئے لباس اور چہرے کے ساتھ نمودار ہوا اور یہاں کے شامی و کوفی اپنا تاریخی کردار ادا کرنے لگے ، لوگوں نے خوف کے عالم میں ان شہیدوں کوبے غسل و کفن اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھا کھود کر دفنا دیا اور بے حس انسانیت تماشا دیکھتی رہی اور مقامی حکومت کے کانوں میں حسب معمول جوں نہیں رینگی ۔
انسانی حقوق کے بلند و بانگ نعرے لگانے والی تنظیمیں اور ہر چھوٹے واقعے پر واویلا مچانے والے رہنما، حقوق انسانی کی بد ترین پامالی پر اندھے گونگے اور بہرے نظر آئے ، نہ ہمارے میڈیا کو یہ انسانیت سوزی نظر آئی ، نہ اینکرز کو اور نہ صحافیان محترم کو ایسی توفیق نصیب ہوئی کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے ان بے گور و کفن مظلوموں کی فریاد بیدار ضمیر انسانوں تک پہنچا سکیں اور نہ ہی اس ملک میں انقلاب لانے کی خواہشمند سیاسی و مذہبی تنظیموں کو یہ شعور تھا کہ انسانیت کے چہرے پر لگنے والے اس بدنما داغ کے حوالے سے وہ صرف ایک کھوکھلا بیان ہی جاری کرے ، حد تو یہ ہے کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ جس کے چرچے چار دانگِ عالم پھیلے ہوئے ہیں اور جو معمولی معمولی باتوں پر بھی سو موٹو ایکشن لیتی نظر آتی ہے ، تاریخ کی اس بھیانک بربریت اور انسانیت سوز مظالم کو دیکھ کر اور سن کر ایسے سُن ہو گئی ہے جیسے سوچنے ، سمجھنے اور قدم اٹھانے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہو ! کہیں لاقانونیت ، بربریت اوروحشت و درندگی کے ایسے واقعات کے باوجود اہل اقتدار کی یہ بے حسی اور سوچی سمجھی بے بسی، بلوچستان صوبے کو ایک نئے رخ پر ڈالنے کی سازش کا حصّہ تو نہیں ؟
اگر ایسا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ملک ، مغربی پاکستان کے بعد ایک اور بازو کے کٹنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور چاہے کتنی ہی قربانیاں دینی پڑ جائیں اس رخ پر جانے سے روکنے کے لیے وطن عزیز کے با ضمیر فرزندوں کو اپنی پوری توانائی اور قوت استعمال کرنی پڑے گی ۔
23 مئی کو شہداء کوئٹہ کے چہلم سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام اور شیعہ ملی تنظیموں نے حکومت کو 20 جون تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ مجرموں کو فوراً گرفتار کیا جائے اور بلوچستان کے ایسے علاقے جہاں دہشت گردی کے مراکز قائم ہیں ، فوجی آپریشن کیا جائے ، رینجرز اور پولیس کو با اختیار بنایا جائے اور جو لوگ کسی بھی سطح پر دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں ، انہیں قانون کے شکنجے میں لایا جائے ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو قوم اپنا لائحہ عمل بنانے میں آزاد ہو گی اور 4 جولائی 2010ء کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ ہو گا ۔ کوئٹہ میں عوامی اجتماع وزیر اعلیٰ ہا?س کا گھیرا? کرے گا اور نتائج کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہو گی اور یہ نقطہ آغاز ہو گا، پاکستان میں ظلم و بربریت ، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کی خاموشی کے خلاف ایک ایسی تحریک کا ، جس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں ۔
ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ بلوچستان کے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں بالخصوص کوئٹہ اور مستونگ کے ان مظلوموں کی آواز ہر سطح پر اٹھانے میں آپ ہماری مدد کریں گے ۔
والسلام
محمد امین شہیدی
ڈپٹی سیکرٹری جنرل
مجلس وحدت مسلمین پاکستان

متعلقہ مضامین

Back to top button