مقالہ جات

الحاج عماد مغنیہ کون تھے؟

shiite_imad-_moghnieh

عماد مغنیہ پہلی بار 1980؁ء میں اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کئی ایک دوسرے لبنانی شیعہ جوانوں کی مانند جناب سید حسن نصر اللہ وغیرہ بھی مزاحمتی تحریک ”مقاومۃ الاسلامیہ” کے اساسی رُکن کے طور پر اُبھرکر سامنے آئے تھے۔ قبل ازیں جناب عماد مغنیہ فلسطینی مسلمانوں کے ہمراہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ مغنیہ کے ایک اور بھائی جناب فواد کہ جن کی جنوبی لبنان میں ایک دُکان تھی اپنی دکان کے باہر 50، کلو گرام دھماکہ خیز مواد سے بھری کار بم دھماکے سے شہید

 ہوئے۔ شہید فواد کے ہمراہ تین اور شہری بھی شہید ہوئے تھے۔ اس واقعے سے تقریباً سات سال قبل بھی عماد مغنیہ کے ایک اور بھائی جناب جہاد بھی آیت اللہ حسین فضل اللہ پر ہونے والے ایک جان لیوا حملے میں انہیں بچاتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۔شہید فواد کو صرف اس وجہ سے جامِ شہادت نوش کرنا پڑا کہ اُس وقت بھی اسرائیلیوں کا یہ خیال تھا کہ عماد مغنیہ اپنے بھائی کے تشیع جنازہ میں ضرور بالضرور شرکت کریں گے اور یُوں اسرائیل انہیں بھی قتل کر ڈالے گا۔ سال 1995؁ میں عماد مغنیہ کو گرفتار کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی جب امریکی اطلاعاتی اداروں کو ان کے خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ عماد بیروت سے ایک جہاز میں سوار ہوئے ہیں اور ابھی خلیج فارس میں محو پرواز ہیں تب اسی وقت امریکی حکام نے سعودی حکومت سے رابطہ کیا کہ ایک اہم ملزم جو بیروت میں 1983؁ کے بم دھماکے میں ملوث ہے۔ اس کا طیارہ اُتار کر اسے گرفتار کر لیا جائے، لیکن سعودیوں نے ممکنہ رد عمل کے خوف سے یہ امریکی خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کی آنکھوں کو کھٹکنے والا شہید عماد مغنیہ دمشق کے قلب میں ایک بم دھماکے میں شہادت کا جام نوش کر چکے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سابقہ چیف ڈینی یاتوم (Dany Yatom) نے ایک اسرائیلی روزنامہ یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا : ”عماد مغنیہ ایک بہت چھپا ہوا کردار تھا۔ وہ کسی کو انٹرویو نہیں دیتا تھا، اس کی چند ایک ہی فوٹو گراف ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ بہت ہی خاص صلاحیتوں کا مالک تھا اس کا ذہن ایک تخلیقی ذہن تھا وہ اپنے کئے ہوئے کاموں کا کوئی نشان تک نہیں چھوڑتا تھا”۔ گو کہ عماد مغنیہ کا نام مشہور نہیں تھا مگر یا توم اور اسرائیل کے چند ایک دوسرے ملٹری انٹیلی جنس آفیسروں کے بقول مغنیہ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور حتیٰ حسن نصر اللہ سے بھی خطرناک ترین شخصیت تھے۔ متذکرہ بالا دونوں شخصیات کسی نہ کسی طرح سیاسی میدان میں بھی ہیں جبکہ مغنیہ صرف اور صرف آپریشن تک محدود رہے۔ یاتوم نے یہ کہا کہ حزب اللہ کے تمام بڑے (Major) حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی عماد ہی تھے۔ 1994 میں بیونس آئرس میں یہودیوں کے کمیونٹی سینٹر میں بم دھماکہ میں بھی 85، صیہونی مارے گئے اور اس سے ٢ سال قبل اسرائیلی سفارتخانہ میں بم دھماکہ بھی (یاتوم کے بقول) عماد مغنیہ کا ہاتھ تھا۔ یہی نہیں بلکہ 2006؁ میں اسرائیلی فوجی الداد ریگیو (Eldad Reger) اور ایہود گولڈواسر (Ehud Goldwasser) کے اغوا کا ماسٹر مائنڈ بھی شہید عماد کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ یاد رہے کہ متذکرہ دونوں فوجیوں کے اغوا کو سبب بنا کر اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تھا جو 33، روز جاری رہنے کے بعد اسرائیل کی شکست کی صورت میں ختم ہوئی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کے ماہرین کی نظر میں لبنان میں اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کا کھلم کھلا الزام عماد مغنیہ پر ہی آتا رہا۔ 1987؁ میں 18، اسرائیلی فوجی اور 1988؁ میں 20، اسرائیلی فوجی کہ جس کے بعد عماد مغنیہ لبنان سے روپوش ہو کر ایران چلے گئے تھے۔ 1989؁ میں کہ جب عماد لبنان میں موجود نہ تھے تو مرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد گر کر 2، عدد تک پہنچ گئی تاہم 1990 کے وسط سے، ان کے لبنان واپس آنے کے بعد اس تعداد میں پھر اضافہ ہونے لگ گیا۔ اسرائیلیوں کے حساب کتاب میں مغنیہ پر حملہ ایک بہت اہم سنگ میل کا حصول ہے اِن کے مطابق یہ حزب اللہ کے آپریشن کو کُند اور اسرائیل کی سیکیورٹی و اضیت کو اعتماد اور مضبوطی بخشے گا کیونکہ اسرائیل کی جانب سے شام پر ستمبر کے متوقع حملے میں اب ردّ عمل کا امکان صیہونیوں کو کم ہی نظر آ رہا ہے۔اسرائیلیوں نے عماد مغنیہ کی سیکیورٹی توڑ کر حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی سمیت دنیا کے تمام مقاومتی گروہوں کو یہ ایک صاف اور واضح پیغام دیا ہے، خصوصاً جناب خالد مشعل کو، کہ جو دمشق کے کسی ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے عماد مغنیہ کی شہادت گاہ کچھ زیادہ دُور نہیں۔ اسرائیلیوں کے مطابق سب سے اہم نکتہ حزب اللہ، ایران اور شام پر مشتمل مثلث کے لئے بھی یہ ایک شدید دھچکا ہے کہ اس مثلث کا اصلی روح رواں عماد مغنیہ ہی تھے۔ عماد کی عدم موجودگی حزب اللہ کے یونٹ 1800 کے لئے بھی ایک دھچکا ہے جو بقول اسرائیلی انٹیلی جنس 80، کی دھائی کے اواخر میں تشکیل پایا اور جس کے ذمہ سمندر پار آپریشن انجام دینا تھے نیز فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو خصوصاً ویسٹ بنک اور غزہئ کی پٹی کے فلسطینیوں کو تربیت فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر ایتان آزانی (Dr. Eitan Azani) جو اسرائیلی انٹیلی جنس میں لبنانی ڈیسک کے سربراہ بھی رہے ہیں اور ہرزیلیا میں انسداد ہشت گردی کے ادارے کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اُس کے بقول دُنیا کے تقریباً 50، ممالک میں حزب اللہ کا ایک فعال اور متحرک انفرا اسٹرکچر موجود ہے۔ ستمبر 2006؁ میں امریکہ کی داخلہ کمیٹی برائے بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار کہ جس کا عنوان ”حزب اللہ کی بین الاقوامی رسائی” تھا، وہاں یہ معاملات بھی زیر بحث لائے گئے تھے کہ حزب اللہ اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد اب امریکہ اور مغربی دنیا میں وہ کیا ممکنہ اہداف ہو سکتے ہیں جہاں حزب اللہ حملہ کرے گی۔ وہاں جو دستاویزات پیش کی گئیں ہیں جس سے حزب اللہ کے مسلح اور لمبے لمبے ہاتھ کہ جن کی رسائی سمندر پار ممالک تک تھی وہ مغرب کے لئے ایک بہت ہی بھیانک تصور تھا۔ حزب اللہ کی ان تمام صلاحیتوں کا قائم کرنے والے اور اپنی ہدایت دینے والے کا نام عماد مغنیہ کے طور پر آیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button