مقالہ جات

کراچی کو کربلا کس نے بنادیا

blastashura

 

اکستان کی اقتصادی شہرگ کراچی میں یوم عاشورپرہولناک بم دہماکہ کرکے جس طرح اس شہر اور اس کے باسیوں کو رنج و الم میں مبتلا کیاگیا اس نے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ کار  صبحات صدیقی نے اپنے ایک مضمون کراچی کو کربلا کس نے بنادیا میں ایسے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں جو تلخ توضرورہیں لیکن اپنے اندر شیرنی اور حلاوت کی چاشنی لئے ہوۓ ہیں اور سبھی مکاتیب فکر کو اتحاد وانسجام پر ابھارتے ہیں۔

 

کراچی کو کربلا کس نے بنادیا

یہ سال بھی رخصت ہوتے ہوئے ایسا گھاؤ لگا گیا ہے جو برسوں تک مندمل نہ ہوسکے گا۔ سانحہ نشتر پارک اور 12مئی کے بعد یہ کراچی کا اتنا عظیم سانحہ ہے جس کی دہشت و کربناکی عرصہ دراز تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ کوئی آنکھ ایسی نہیں جو غمناک نہ ہو کوئی دل ایسا نہیں جو ملول نہ ہوا ہو بلاشبہ یہ حادثہ و سانحہ صرف شیعہ برادری کیلئے نہیں بلکہ ہر شہری و پاکستانی نے اس کی تڑپ محسوس کی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس میں بہنے والا لہو صرف شیعہ برادری کا نہیں اور نہ اس میں ہونے والا نقصان محض ایک مخصوص گروہ کا ہے بلکہ یہ آفت بلاتفریق شیعہ و سنّی سب کو تباہ و تاراج کرگئی۔ اس ادراک سے یقیناً شیعہ و سنی فسادات کی مکروہ سازشی بھی دم توڑگئی ہے۔اس حادثہ فاجعہ کا یہی پہلو نہیں کہ 43 معصوم عزادار، جس میں پھول جیسے بچے بھی شامل تھے اور سینکڑوں زخمی اذیت ناکی کا شکار ہوئے اور وحشت کی بھینٹ چڑھے بلکہ شہر کراچی کی وہ رونقیں جو اسے روشنیوں کا شہر قرار دیتی تھیں وہ تجارتی مراکز جہاں انسانوں کی لہریں موجزن رہتی تھیں وہ زندگی سے معمور علاقے اب قیامت خیزی و ویرانی کی داستان رقم کررہے ہیں۔ جو جان سے گزر گئے وہاں بھی ماتم بپا ہے اور جو جیتے جی مر گئے ان کے گھر بھی ماتم کدے بن چکے ہیں۔وطن عزیز میں اس عظیم سانحے سے قبل بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں بہت بہت جانی نقصان ہوچکا ہے لیکن اس افسوسناک واقعے کی شدت یوں ہے کہ یہ ایک طرف فرقہ وارانہ فساد کرانے کی سازش تھی اور دوسری جانب اس کا بھیانک ردعمل اور ذمہ داران کی نااہلی نے پورے معاملے کو تشویشناک بنا دیا ہے۔ مارکیٹوں اور دکانوں کو منظم طریقے سے نذرآتش کیا گیا اس ضمن میں خبروں سے ظاہر ہے کہ شرپسند عناصر کیمیاوی مادے اور اسلحے سے لیس تھے اور پہلے سے تیار کرکے آئے تھے اطلاعات ہیں کہ FIA نے خفیہ کیمروں کی 9وڈیوز حاصل کرلی ہیں اور ان میں بعض شرپسندوں کی بہت واضح تصاویر ہیں جن کی مدد سے انہیں پہچاننا اور گرفتار کرنا ممکن ہوسکے گا۔ طریقہ واردات سے یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ 9 اپریل 2008ء کو جس طرح ایم اے جناح روڈ پر واقعہ طاہر پلازہ میں وکلاء کے دفاتر اور انسانوں کو جلایا گیا تھا وہی طریقہ مارکیٹیں جلانے میں اختیار کیا گیا۔ ان کی دکانیں لوٹی اور جلائی جارہی تھیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تماشہ دیکھتے رہے۔ آگ بجھانے میں تاخیر پر ذمہ داری شہری حکومت پر عائد کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آگ بجھانے کیلئے کیمیکل کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شہری و صوبائی حکومت اپنے شہریوں کی جان و املاک کے تحفظ میں بالکل ناکام رہی ہیں۔ 8اور 9محرم کو دو وارداتیں ہوچکی تھیں جو اگرچہ سنگین نوعیت کی نہیں تھیں لیکن قانون نافذ کرنیوالوں کیلئے ایک انتباہ ضرور تھا کہ کراچی میں کسی بڑی واردات کا خدشہ ہے پھر اس سانحے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی قیامت سے کم نہیں تھا۔ آگ بجھانے میں تاخیر کی گئی اطلاعات ہیں کہ مسلح افراد نے صدر کے فائر بریگیڈ اسٹیشن سے گاڑیاں نہیں نکلنے دیں۔ ان مسلح شرپسندوں کے سامنے پولیس و رینجرز بے بس بنے کھڑے رہے۔ اس حادثے کے بعد فوری طور پر سانحے کو خودکش حملے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ حملہ آور کا سر اور دھڑ مل گئے ہیں جبکہ شیعہ عالم ظفر نقوی نے اسی شب اپنی پریس کانفرنس میں اس کی پرزور تردید کرتے ہوئے کہا کہ جسے خودکش حملہ آور قرار دیا جارہا ہے وہ ایک عزادار تھا۔ انہیں غیر ذمہ دارانہ و نااہل رویوں نے عوام اور تاجروں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اس تخریب کاری میں ایسے عناصر موجود ہیں جن پر حکومت پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔ یہ تاثر ماضی کے حوالے سے بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ 12 مئی کے فساد میں مبتلا کئی لوگ پہچانے گئے لیکن انہیں قانون کے حوالے نہ کیا گیا۔ سانحہ نشتر پارک جس میں 56 علمائے کرام شہید ہوئے اس کی حکومتی تحقیقات کو دبا لیا گیا اس میں جو معلومات ملی تھیں اس جانب سندھ کے وزیر داخلہ اشارہ کرچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اس سانحہ عاشورہ کو بھی خودکش حملہ قرار دیکر معاملہ پھر طالبان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن وفاقی دارالحکومت کے سیکورٹی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دھماکہ خودکش نہیں بلکہ ایمبولنس بم دھماکہ تھا۔ ان ابہامات کے پس منظر میں اگر وزیر اعلیٰ سندھ کہہ رہے ہیں کہ وڈیو کے ذریعے شرپسندوں کے قریب پہنچ گئے ہیں، جلد پکڑ لیں گے تو غمزدہ کراچی کے باسیوں کی دعا ہے کہ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ حکومت کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر دھماکے اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث شرپسندوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے قطع نظر دھماکہ جس نے بھی کیا اس کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اس میں جو بھی طاقتیں ملوث ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج اور دشمن اسلام ہیں۔ اسلام میں ایک بے گناہ انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کا قتل ہے پھر بیسیوں بے گناہوں کی جان لینے والا کس طرح مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ لہٰذا یہ سمجھنا کہ یہ کام اسلام کے متوالوں کا ہے تو یہ انتہائی گمراہ کن سوچ ہے۔ دوسری طرف جلاؤ گھیراؤ میں ملوث شرپسند کون تھے؟ اس کا بھی تعین ضروری ہے تاکہ شک و شبہ کی فضا چھٹ سکے۔ حسینیت کے ماتم گسار علم برداروں سے اس کی توقع ہرگز نہیں۔ کربلا میں آگ لگانے و خیمے جلانے والے تو قاتلان اہل بیت و حسین تھے۔ حسین کے جانشین ایسی حرکات کے حامل نہیں ہوسکتے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دھماکے میں ملوث افراد اور جلاؤ گھیراؤ کے مرتکبین برابر کے مجرم ہیں۔ ایک جانب تخریب کاری ہوئی ہے۔ کاروبار زندگی تباہ و برباد ہوا ہے۔ دوسری جانب کتنے گھروں کے چراغ گل ہوگئے ہیں۔ ماتم کرنے والوں کے گھر ماتم کدے بن گئے۔ دینے والے ہاتھ لینے والے ہاتھ بن گئے۔ بلاشبہ ہر دل کی خواہش ہے کہ یہ مجرمین یہ دشمن ملک و اسلام بچنے نہیں چاہئیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button