اہم ترین خبریںمقبوضہ فلسطین

نیتن یاہو کی منافقت بے نقاب، غزہ کے بچوں کو پیاس سے مار کر ایرانی عوام کو پانی کا وعدہ

غزہ میں پانی کی ناکہ بندی، بچوں کی اموات اور اسرائیل کی ریاستی پالیسی پر عالمی مذمت

شیعیت نیوز : نتن یاہو کا عالمی اسٹیج پر پیش کیا گیا نیا ڈرامہ ایک ایسی کہانی جیسا ہے جس کا خونی انجام سسکتی پیاس ہے۔ اسٹوڈیو لائٹس کی چکاچوند میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے خود کو ایرانی عوام کے ہمدرد کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ پیشکش کی کہ وہ پانی کی کمی سے دوچار ’’بے شمار زندگیاں‘‘ بچائیں گے۔ ایران میں پانی کے اعداد و شمار کو پیش گوئی کے طور پر لہراتے ہوئے انہوں نے پچاس ملین لوگوں کے بے گھر ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے اپنے ملک کو مسیحا کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی اور وہ بھی ایک ایسے دشمن کو جسے وہ علانیہ دشمن قرار دیتے ہیں۔ لیکن انہی الفاظ کی گونج کے دوران، تل ابیب سے صرف ستر کلومیٹر کے فاصلے پر، غزہ کے معصوم بچے پیاس سے مر رہے ہیں جن کا پانی اسی ریاست نے کاٹ رکھا ہے جو اپنے آپ کو مسیحا کے روپ میں پیش کر رہی ہے۔

غزہ کے محصور کئی حصے مہینوں سے صاف پانی سے محروم ہیں اور اسے دورِ حاضر کے کربلا کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس وقت یہ الفاظ نشر ہوئے اور انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلے، تب غزہ کے بچے نمکین اور جراثیم آلود پانی پینے پر مجبور تھے۔ اس مضر صحت پانی کی بوند بھی نصیب سے ہی میسر آتی ہے۔ بمباری میں تباہ شدہ اور ملبے تلے دبی پائپ لائنیں ویران محلوں میں بکھری پڑی ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت، یونیسف اور یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق غزہ کی ناکہ بندی سے پانی کی قلت اور قحط کے امتزاج نے گزشتہ چند مہینوں میں کم از کم 315 جانیں لے لی ہیں جن میں نصف سے زیادہ کی عمریں پانچ برس سے کم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ایران ہر حال میں لبنان کے عوام کے ساتھ رہے گا، علی لاریجانی

یہ بربریت کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی ریاستی پالیسی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ جنگ یوآف گیلنٹ نے 2023 میں مکمل محاصرے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بجلی نہیں، کھانا نہیں، ایندھن نہیں، سب کچھ بند ہے‘‘۔ پانی کا ذکر زبان سے نہ ہوا مگر فیصلے میں شامل تھا۔ قابض اسرائیلی حکام نے میکوروت، اسٹیٹ واٹر کمپنی کو بند کر دیا جو روزانہ تقریباً ایک کروڑ لیٹر پانی فراہم کر رہی تھی، جس کے نتیجے میں زمین کے سب سے گنجان آباد خطوں میں سے ایک غزہ میں مصنوعی خشک سالی پیدا ہو گئی۔

اقوامِ متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کے مطابق دسمبر 2023 میں غزہ میں فی آدمی روزانہ دستیاب پانی کی اوسط مقدار تین لیٹر سے بھی کم ہے، جو عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ انسانی حیات کی بقا کے کم از کم معیار کا پانچواں حصہ ہے۔ مارچ 2024 تک شمالی غزہ میں لوگ ایک لیٹر سے بھی کم پانی پر گزارا کر رہے تھے اور وہ پانی بھی اکثر پینے کے قابل نہیں ہے۔ 65 پانی کے کنویں، تین بڑے ڈی سیلینیشن پلانٹ اور پچاس کلومیٹر سے زیادہ پائپ لائنیں بمباری میں تباہ ہوئیں اور دوسری جانب ایندھن کی قلت کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنز بند ہو گئے ہیں۔

یہ جرم بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشن کے اضافی پروٹوکول اوّل کا آرٹیکل 54 شہری آبادی کی بقا کے لیے ناگزیر سہولیات پر حملہ کرنے، تباہ کرنے یا ناکارہ بنانے کو ممنوع قرار دیتا ہے اور اس میں پانی کی بنیادی سہولیات کا نظام بھی شامل ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے مطابق اگر پانی کی فراہمی کو بھوک یا نقل مکانی کے لیے ہتھیار بنایا جائے تو یہ جنگی جرم ہے۔ اپریل 2024 میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ ’’Hopeless, Starving, and Besieged‘‘ میں نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نے پانی اور خوراک کی محرومی کو جنگی ہتھیار بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں بیماریوں نے وبائی شکل میں بچوں اور بوڑھوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ یونیسف نے اسے غزہ کے بچوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دیا ہے۔

سب سے دل دہلا دینے والے اعداد و شمار انسانی جانوں کے ضیاع کے ہیں۔ یونیسف کی مارچ 2025 رپورٹ کے مطابق جنگ سے پہلے کے مقابلے میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اسہال کی بیماری کے کیسز میں 45 فیصد اضافہ ہوا۔ محاصرے کے پہلے سال میں فلسطینی وزارتِ صحت نے کم از کم 120 بچوں کی اموات درج کیں جو پانی کی کمی اور پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے باعث ہوئیں۔

خان یونس کی چھ سالہ مریم کی کہانی اس المیے کی عکاس ہے، جو جنوری 2025 میں آلودہ پانی پینے سے جاں بحق ہوئی کیونکہ صاف پانی ختم ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’میری بچی پوری رات پیٹ درد سے روتی رہی۔ صبح تک وہ وفات پا گئی تھی۔‘‘ بیت لاہیا میں ستر سالہ حسن، جو چار اسرائیلی جارحانہ حملوں سے تو بچ گئے مگر ڈائلیسز کے لیے صاف پانی نہ ملنے پر گردے فیل ہونے سے چل بسے۔ شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال میں پانی کی حفاظت یقینی نہ ہونے کے باعث ڈائلیسز سیشنز کا 70 فیصد منسوخ کر دیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ پانی کو ہتھیار بنایا گیا ہو۔ 2014 کی جنگ میں اسرائیلی حملوں نے غزہ کا سب سے بڑا گندے پانی کا پلانٹ تباہ کیا، جس سے آلودہ پانی زیر زمین ذخائر میں چلا گیا۔ 2021 میں یورپی یونین کی فنڈنگ سے قائم ڈی سیلینیشن پلانٹس پر بمباری کی گئی۔ ہر بار مرمت میں رکاوٹ تکنیکی نہیں بلکہ اسرائیلی درآمدی پابندیاں رہیں۔ غزہ واٹر اتھارٹی بارہا خبردار کر چکی ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی جب تک ناکہ بندی نہیں ختم ہوتی، مکمل بحالی میں برسوں لگیں گے۔

نتن یاہو کا ایرانی عوام کو پیغام عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے تیار کیا گیا، مگر اس کی منافقت اس بات سے عیاں ہے کہ تل ابیب سے صرف 70 کلومیٹر دور غزہ کو وہی پانی بچانے والی ٹیکنالوجیز جان بوجھ کر نہیں دی جاتیں، جس کا اسرائیل عالمی سطح پر اتنا شور مچا رہا ہے۔

پاکستان نے غزہ کے محاصرے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔ چین اور روس نے اقوامِ متحدہ سے پانی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران نے فضائی حملوں کو ایک ایسی ’’ماحولیاتی جنگ‘‘ کہا ہے جو ان کی سرزمین پر نہیں بلکہ ایک مظلوم قوم پر لڑی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن اور یورپی دارالحکومتوں نے اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا اور سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں امریکا نے ویٹو کر دیں۔

غاصب اسرائیل دنیا میں سب سے زیادہ 90 فیصد گندے پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بناتا ہے اور ڈرِپ اریگیشن ایجاد کر کے اسے تجارتی بنا دیا ہے۔ لیکن یہی حکومت غزہ کی واحد ڈی سیلینیشن سہولت ختم کرنے اور اس کے زیر زمین پانی کے واحد ذخیرے کو آلودہ کرنے میں بائیس مہینے لگا دیتی ہے۔ ایک بے گھر فلسطینی انجینئر کے الفاظ میں ’’وہ خود کو اس قوم کے طور پر یاد رکھوانا چاہتے ہیں جو صحرا کو گلزار بناتی ہے، لیکن انہوں نے ظلم و جبر سے ہمارے گھروں کو صحرا میں بدل دیا ہے۔‘‘

نتن یاہو خواہ کتنی ہی افسانوی کہانیاں تخلیق کر لیں، مگر غزہ کی سچائی ان مناظر سے عیاں ہے، جہاں بچے خالی کنستر لیے قطار میں کھڑے ہیں، مائیں چولہوں پر نمکین پانی ابال رہی ہیں اور اسپتال صاف پانی نہ ملنے پر سنسان پڑے ہیں۔ غزہ کا یہ محاصرہ ہمارے زمانے کا سب سے سنگین انسانی المیہ ہے۔ تاریخ صرف یہ نہیں لکھے گی کہ نتن یاہو نے ’’خودساختہ مسیحائی‘‘ کے پردے میں پانی دینے کا فریب بیچا، بلکہ یہ بھی رقم کرے گی کہ یہ منافقت کی انتہا تھی۔ ایک شخص جو غیرملکیوں کو زندگی کا پیغام دیتا ہے مگر اپنے ہمسایوں کا گلا گھونٹ کر ان کے ہونٹ پیاس سے سِی دیتا ہے۔

اور جب دنیا اس کی زبان سے ’’ایرانی عوام کو زندگی کی نوید‘‘ کا فضول راگ سنے گی، تو ان کے کانوں میں غزہ کے ان پیاسے بچوں کی بے نام قبروں کی خاموشی بھی گونجے گی، اور شاید تب ہی کوئی صدا لگائے کہ ’’نتن یاہو! غزہ کے باسیوں کو بھی زندگی کی نوید دو۔‘‘

متعلقہ مضامین

Back to top button