دنیا

لبنان کو مُٹھی میں لینے والے حزب اللہ کے سربراہ کون ہیں؟ بی بی سی کی خصوصی رپورٹ

شیعیت نیوز: بی بی سی نے ایک آڑیکل شائع کیا ہے جس میں درج ہے کہ

حسن نصراللہ ایک شیعہ عالم ہیں جو لبنان میں حزب اللہ گروپ کے رہنما ہیں۔ اس گروپ کو اس وقت لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کا اپنا مسلح ونگ بھی ہے۔

حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے اس گروہ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ان کے اسلامی جمہوریہ ایران اور علی خامنہ ای کے ساتھ بہت قریبی اور خصوصی تعلقات ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ حزب اللہ کو امریکہ کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا، نہ تو ایران کے رہنماؤں اور نہ ہی نصر اللہ نے اپنے قریبی تعلقات کو کبھی چھپایا۔

حسن نصراللہ کے جتنے پرجوش پرستار ہیں اتنے ہی ان کے دشمن بھی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کے خوف سے برسوں سے عوام کے سامنے نہیں آئے۔ لیکن اس وجہ سے ان کے مداح ان کی تقریروں سے محروم رہتے تھے۔

ہ تقاریر دراصل طاقت کے استعمال کے لیے نصر اللہ کا اہم ہتھیار ہیں اور اس طرح وہ لبنان اور دنیا کے مختلف مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں اور اپنے حریفوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لبنان میں بہت سے لوگ 2006 میں اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی ایک ماہ تک جاری رہنے والی تباہ کن جنگ کو اب بھی یاد کرتے ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ یہ گروپ ملک کو ایک اور تنازعے میں دھکیل سکتا ہے۔

حزب اللہ کے مقاصد میں سے ایک اسرائیل کی تباہی ہے، جو اس گروپ کو حماس سے زیادہ طاقتور دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔ حزب اللہ کے پاس ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جس میں ایسے میزائل شامل ہیں جو اسرائیلی علاقے میں دور تک حملہ کر سکتے ہیں۔ ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اس کے علاوہ ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے وعدہ کیا ہے کہ اگر حزب اللہ تنازع میں دوسرا محاذ کھولتی ہے تو اس کا ’ناقابل تصور‘ جواب دیا جائے گا۔

ایک مکمل جنگ لبنان کے لیے تباہ کن ہوگی اور اس کے لیے عوامی حمایت بہت کم ہے۔ لبنان برسوں سے معاشی بحران کا شکار ہے اور سیاسی تعطل کی وجہ سے وہاں مناسب طریقے سے کام کرنے والی حکومت بھی نہیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ تہران کا ان گروہوں پر کتنا براہ راست اثر و رسوخ ہے، لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ ایران کی پشت پناہی کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ کریں گے۔

اتوار کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ اسرائیل کے جرائم حد پار کر چکے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’واشنگٹن ہم سے کہتا ہے کہ ہم کچھ نہ کریں لیکن وہ اسرائیل کی وسیع پیمانے پر حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

حزب اللہ کے ایک قریبی ذرائع نے گذشتہ ہفتے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ حسن نصراللہ، جو اسرائیل اور امریکہ مخالف تقاریر کے لیے جانے جاتے ہیں، صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی عوامی خاموشی کے باوجود گروپ کی عسکری قیادت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

بچپن اور جوانی

 

حسن نصر اللہ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

حسن نصراللہ بیروت کے مشرق میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے اور حسن ان کے نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔

جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کی عمر پانچ سال تھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو 15 سال تک اپنی لپیٹ میں رکھا اور اس دوران لبنانی شہری مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑے۔

اس دوران مسیحی اور سنی ملیشیا گروپوں پر

الزام لگا کہ وہ بیرونی ممالک کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

جنگ کے آغاز کی وجہ سے حسن نصراللہ کے والد نے بیروت چھوڑنے اور جنوبی لبنان میں اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں شیعہ اکثریت تھی۔

حسن نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ کے رکن بن گئے جس کا نام امل موومنٹ تھا۔ یہ ایک بااثر اور فعال گروپ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسی صدر نے رکھی تھی۔

اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصراللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف جائیں۔ حسن نصر اللہ نے یہ مشورہ قبول کر لی اور 16 سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔

لبنان واپسی اور مسلح جدوجہد

حسن نصر اللہ کی نجف میں موجودگی کے دوران عراق ایک غیر مستحکم ملک تھا جہاں دو دہائیوں تک مسلسل انقلاب، خونی بغاوت اور سیاسی قتل و غارت کا راج رہا۔ اس عرصے کے دوران عراق کے نائب صدر صدام حسین نے خاصا اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا۔

حسن نصر اللہ کے نجف میں قیام کے صرف دو سال بعد بعث پارٹی کے رہنما اور خاص طور پر صدام حسین کے فیصلوں میں سے ایک یہ تھا کہ تمام لبنانی شیعہ طلباء کو عراقی مدارس سے نکال دیا جائے۔

حسن نصر اللہ نے نجف میں صرف دو سال تعلیم حاصل کی اور پھر انھیں یہ ملک چھوڑنا پڑا۔ لیکن ان کی نجف میں موجودگی نے اس نوجوان لبنانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی ملاقات نجف میں عباس موسوی نامی ایک اور عالم سے بھی ہوئی۔

موسوی، جو کبھی لبنان میں موسی صدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، روح اللہ خمینی کے سیاسی نظریات سے بہت متاثر تھے۔ وہ نصر اللہ سے آٹھ سال بڑے تھے اور بہت جلد انھوں نے ایک سخت استاد اور ایک بااثر رہنما کا کردار سنبھال لیا۔

لبنان واپس آنے کے بعد یہ دونوں مقامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئے۔ تاہم اس بار نصر اللہ عباس موسوی کے آبائی شہر گئے جہاں آبادی کی اکثریت بھی شیعہ تھی۔

اس دور میں نصراللہ تحریک امل کے رکن رہے اور عباس موسوی کے قائم کردہ مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔

ایرانی انقلاب اور حزب اللہ کا قیام

حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے ناصرف لبنان کی شیعہ برادری کا ایران کے ساتھ تعلق بالکل بدل گیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور نظریے سے شدید متاثر ہوئی۔

حسن نصراللہ نے بعد میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے رہنما سے ملاقات کی اور خمینی نے انھیں لبنان میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔

یہیں سے حسن نصراللہ کے ایران کے دوروں کا آغاز ہوا اور ایرانی حکومت میں فیصلہ ساز اور طاقت کے مراکز سے ان کے تعلقات قائم ہوئے۔

ایران نے لبنان کی شیعہ برادری کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی تحریک بھی انقلابی ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں شامل تھی۔

اس عرصے کے دوران خانہ جنگی میں گھرا لبنان فلسطینی جنگجوؤں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا تھا اور قدرتی طور پر بیروت کے علاوہ جنوبی لبنان میں بھی ان کی مضبوط موجودگی تھی۔

لبنان میں بڑھتے ہوئی عدم استحکام کے بیچ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور اس ملک کے اہم حصوں پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے فلسطینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا۔

اسرائیل کے حملے کے فوراً بعد ہی ایران میں پاسداران انقلاب اسلامی کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایران سے وابستہ عسکری گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریک حزب اللہ تھی اور حسن نصراللہ اور عباس موسوی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امل تحریک کے کچھ دیگر ارکان کے ساتھ اس نئے قائم ہونے والے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔

اس گروہ نے بہت جلد لبنان میں امریکی افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں کرکے خطے کی سیاست میں اپنا نام قائم کیا۔

قیادت کے راستے پر

جب حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تو ان کی عمر صرف 22 سال تھی اور وہ نوآموز سمجھے جاتے تھے۔

تاہم نصر اللہ کے ایران سے تعلقات دن بہ دن گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ انھوں نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ایران کے قم شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ نصراللہ نے دو سال تک قم میں تعلیم حاصل کی اور اس عرصے کے دوران فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایرانی اشرافیہ میں بہت سے قریبی دوست بنائے۔

لبنان واپسی پر ان کے اور عباس موسوی کے درمیان ایک اہم اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس وقت موسوی شام کے صدر حافظ الاسد کے حامی تھے۔ لیکن نصر اللہ نے اصرار کیا کہ حزب اللہ کی توجہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں پر حملوں پر مرکوز رہے۔

نصراللہ حزب اللہ میں اقلیت بن گئے اور کچھ عرصہ بعد انھیں ایران میں حزب اللہ کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر ایران واپس آئے لیکن حزب اللہ سے دور ہو گئے۔

اس زمانے میں ایسا لگ رہا تھا کہ حزب اللہ پر ایران کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہو رہا ہے۔ یہ کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو ہٹا کر ان کی جگہ شام کی حمایت کرنے والے عباس موسوی نئے سربراہ بن گئے۔

طفیلی کی برطرفی کے بعد، حسن نصراللہ واپس آ گئے اور عملی طور پر حزب اللہ کے نائب بن گئے۔

حزب اللہ کی قیادت

عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ان کو قتل کر دیا اور اسی سال، 1992 میں اس گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔

اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ اس وقت لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کو ایک سال گزر چکا تھا اور نصر اللہ نے ملک میں حزب اللہ کی سیاسی شاخ کو اپنی عسکری شاخ کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ کھلاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔

اس حکمت عملی کے نتیجے میں حزب اللہ لبنانی پارلیمنٹ کی آٹھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔

طائف معاہدے کے تحت، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا اور حزب اللہ مسلح تحریک چلا رہی تھی۔

لبنان کے حزب اللہ گروپ کو ایران کی مالی مدد مل رہی تھی اور یوں حسن نصر اللہ نے ملک میں سکولوں، ہسپتالوں اور خیراتی اداروں کا ایک وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا۔ یہ فلاحی پہلو لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی تحریک کی شناخت کا ایک اہم جزو بن گئی۔

اسرائیل کا انخلا اور حسن نصراللہ کی مقبولیت

حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ گروپ کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

سنہ 2000 میں اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ لبنان سے مکمل طور پر نکل جائے گا اور اس ملک کے جنوبی علاقوں پر قبضہ ختم کر دے گا۔ حزب اللہ گروپ نے اس تقریب کو ایک عظیم فتح کے طور پر منایا اور اس فتح کا سہرا حسن نصر اللہ کے نام لکھا گیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیل نے امن معاہدے کے بغیر کسی عرب ملک کی سرزمین کو یکطرفہ طور پر چھوڑا اور خطے کے بہت سے عرب شہریوں کی نظر میں اسے ایک اہم کامیابی قرار دیا گیا۔

تاہم اس وقت سے لبنان کے ہتھیاروں کا مسئلہ لبنان کے استحکام اور سلامتی سے متعلق اہم سوالات میں سے ایک بن گیا ہے۔ لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کی وجہ سے حزب اللہ گروپ کے مسلح رہنے کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی اور غیر ملکی طاقتوں نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی درخواست کی جس سے حسن نصراللہ نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔

2002 میں حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے دوران قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا جس کے دوران 400 سے زائد فلسطینی، لبنانی قیدیوں اور دیگر عرب ممالک کے شہریوں کو رہا کیا گیا۔

اس وقت نصراللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور بااثر دکھائی دے رہے تھے اور لبنانی سیاست میں ان کے حریفوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنا اور ان کے اثر و رسوخ اور طاقت کے پھیلاؤ کو روکنا ایک بڑا چیلنج بن چکا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button