مقبوضہ فلسطین

اسرائیلی جیل سے رہا ہونے والی فلسطینی لڑکی کی حیران کن داستان

جیل کی سختیوں نے زندگی بدل دی

 شیعیت نیوز؛ ھبۃ اللبدی ایک فلسطینی لڑکی ہے جو 20 جولائی 2019 کو صہیونی کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور تین ماہ بعد آزاد ہوئی۔

انہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال کی تھی جس کی وجہ سے جلدی رہائی ملی۔ 36 سالہ ھبۃ ان دنوں لبنان میں مقیم اور تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
ھبۃ اللبدی نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اسرائیلی فلسطینیوں کو جیل میں ڈالتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بھی اس کی عادت ہوچکی ہے۔

ہر دفعہ جیل میں جاتے ہیں پھر آزاد ہوجاتے ہیں۔ اسرائیلی ہمیں قتل کرنا چاہتے تو ہیں لیکن ایسا کرنے کی جرائت نہیں رکھتے اسی لئے گرفتار کرلیتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہاجیل میں مجھ پر بہت وحشتناک سلوک کیا گیا۔میرے چہرے پر طمانچے مارتے تھے، گھونسے مارتے تھے، بال سے پکڑ کر کھینچتے تھے۔ میں جیل میں جانے سے پہلے بے حجاب رہتی تھی اور میرے بال کھلے ہوتے تھے۔

اسرائیلی اسی بات پر خوش تھے۔ھبۃ اللبدی نے بتایا مجھے مختلف جیلوں میں جانے کا تجربہ ہے۔ پہلے یروشلم اور حیفا منتقل کیا گیا اس کے بعد دمون کی ایک جیل میں لے گئے۔

ایک جیل ایسی تھی جس میں 200 فلسطینی کمسن لڑکے اور لڑکیوں کو رکھا گیا تھا۔ ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مجھے راملہ اور دوسری جگہوں پر جیل میں لے جایا گیا۔ مردوں اور عورتوں دونوں نے تفتیش کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی بہت بزدل ہیں۔ گرفتاری کے دوران ایک وقت کسی چھوٹے کمرے میں مجھے رکھا گیا تھا جہاں کیمرے نصب تھے جس کے ذریعے 24 گھنٹے اسرائیلی کمانڈ کو تصویریں بھیجی جاتی تھیں۔

اس سیل میں اکیلی تھی۔ جب کھانا دیا جاتا تھا تو ایک سپاہی پہلے میرے ہاتھ باندھ دیتا تھا تاکہ کوئی حرکت نہ کرسکوں اس کے بعد دوسرا سپاہی کھانا میرے پاس رکھتا تھا۔

ھبۃ اللبدی نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہمیں گرفتار ہونے سے پہلے اسلام اور قرآن کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتی تھی اور ایران کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی تھی

لیکن آزاد ہونے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام اور ان کی شخصیت کے بارے میں آشنائی سے میری زندگی بدل گئی۔

جب حضرت زینب علیھا السلام کے بارے میں آشنائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایک عورت اپنے زمانے کے ظالم اور جابر حاکم کے سامنے کھڑی ہوکر تقریر کرسکتی ہے۔ اسرائیلی میری بے پردگی اور بے حجابی سے خوش تھے کیونکہ میں بھی ان کی طرح ہی تھی

ھبۃ اللبدی نے کہا میں جیل سے آزاد ہونے کے بعد امام موسی کاظم علیہ السلام سے بھی آشنا ہوئی ہوں۔

انہوں نے ہارون الرشید کے زندان میں بہت سختیاں برداشت کیں۔۔ میں نے جیل سے رہا ہونے کے بعد حضرت زینب علیہا السلام کا نام سن کر پڑھنا شروع کیا۔ کتابوں کا مطالعہ کیا اسطرح مجھے حضرت امام حسین علیہ السلام کیبارے میں آگاہی ہوئی۔

حضرت امام حسن اور حضرت امام علی علیہما السلام سے بھی آگاہی ہوئی یہ شخصیات ابھی تک پہچانی نہیں گئی ہیں۔

جب میں قید میں نہیں گئی تھی، دوسرے جوانوں کی طرح سید حسن نصراللہ کی فین تھی۔ لبنانی جوانوں کی طرح ان کو پسند کرتی تھی کیونکہ ان کی شخصیت اس کی قابل ہے

البتہ اس میں جہاد کو قبول نہیں کرتی تھی۔یقیینا اب ایک مجاہد بن چکی ہوں۔ میرے سر پر موجود حجاب میرا ہتھیار ہے۔

میں اندر سے ایک جنگجو ہوں جس نے حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام کے مکتب میں درس حاصل کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں بتایاحضرت زینب علیہھا السلام سے آگاہ ہونے کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای تھے جن کے بارے میں مجھے آگاہی ہوئی۔

سید حسن نصراللہ ہمیشہ ان کے بارے میں کہتے تھے اس لئے مجھے ان کے بارے میں مطالعہ کرنے کا شوق ہوا۔ سورہ ممتحنہ کی تفسیر جو آیت اللہ خامنہ نے کی ہے،

اس کو پڑھ کر ان کے افکار سے آگاہی ہوئی۔

سید حسن نصر اللہ کے بقول آیت اللہ خامنہ ای کی یہ عادت مجھے بہت اچھی لگی کہ اپنے عوام کے ساتھ نہایت مہربان اور صہیونی دشمنوں کے ساتھ نہایت سخت اور سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں۔

یعنی قرآن کے مطابق «اشداء علی الکفار! رحماء بینہم!»بالکل ایسا ہی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے بعد حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں آشنائی ملی۔

وہ ایک بہادر انسان تھے۔ وہ ہمارے اور دوسرے مجاہدین کے لئے بہت عزیز ہیں۔

جیل میں قیام کے دوران میں بھی یہی سوچتی تھی کہ اچانک جیل کے دروازے کھل جائیں گے اور مجاہدین آکر ہمیں آزاد کرلیں گے۔اب میں سوچتی ہوں کہ فلسطینی خواتین کی یہ امید پوری ہونے کے ایام بہت نزدیک ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button