دنیا

ایٹمی ہتھیار ہیں اسرائیل کے پاس ہیں، ایہود باراک کا اعتراف

شیعیت نیوز: صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم ایہود باراک نے بنیامن نیتن یاہو کی عدالتی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ تل ابیب کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔

اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے بنیامن نیتن یاہو کے اصلاحاتی منصوبے پر تنقید کے بعد اعتراف کیا کہ تل ابیب کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔

المیادین ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، باراک نے کہا کہ اگر نیتن یاہو کی بغاوت یعنی عدالتی اصلاحات کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو یورپی فریق اسرائیل میں ایٹمی آمریت کے قیام کے بارے میں فکر مند ہو جائیں گے۔

یہ اعتراف صیہونی حکومت کے ایک سابق اہلکار کی طرف سے سامنے آیا ہے کہ جب تل ابیب جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے باہر ہے اور مغربی حمایت سے اس میدان میں اپنے پروگراموں کو بڑھا رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ واشنگٹن اسرائیل اور اسرائیلیوں کی سلامتی کے لیے پرعزم ہے۔ بلنکن اور نیتن یاہو نے اس پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔

ایران اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کے دستخط کنندگان میں سے ایک اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے رکن کی حیثیت سے اسے پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں : اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں قرارداد منظور

دوسری جانب صیہونی حکومت کی متعدد اہم ترین یونیورسٹیوں پر آج شدید سائبر حملے ہوئے ہیں۔

صیہونی حکومت کے معاریو اخبار نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ انانیمس نامی سائبر گروپ نے اسرائیل کی بیشتر یونیورسٹیوں پر حملے کیے ہیں۔

عبرانی زبان کے اس میڈیا کے مطابق، انانیمس نامی ہیکر گروپ نے، جس نے اس سے قبل اسرائیل میں دیگر سائبر حملے کیے تھے، منگل کو اسرائیل کی بیشتر یونیورسٹیوں پر حملے کیے اور کئی دیگر کمپنیوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ اس کی سائٹس کو بھی نقصان پہنچایا۔

اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے چیک پوائنٹ کمپنی نے بتایا ہے کہ مذکورہ سائبر حملوں کی وجہ سے سائٹس دستیاب نہیں رہیں اور جس طرح سے یہ کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معلومات چوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ تباہی کے لیے کیا گیا تھا۔

ماہرین نے معاریو کو بتایا کہ مذکورہ حملے ممکنہ طور پر دوسرے حملوں کو چھپانے کے لیے کیے گئے ہیں۔

جو سائٹس بند ہوگئیں، ان میں ویزمین تھنک ٹینک اور تل ابیب، بار ایلان، بین گوریون، ایریل اور حیفا کی یونیورسٹیوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button